خبرنامہ

وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملہ۔ دنیا بھر کی مذمت….اسداللہ غالب

بسم اللہ

وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملہ۔ دنیا بھر کی مذمت
وزیر داخلہ احسن اقبال کی ذات سے، ان کے نظریات سے ، ان کے سیاسی یاحکومتی کردار سے کسی کی مخالفت ہو سکتی ہے ،دشمنی بھی ہو سکتی ہے مگر اس کے رد عمل میں گولی کا استعمال مہذب دنیا کا شیوہ نہیں، اسلام کے نزدیک بھی جائز نہیں اور ملکی قانون اور�آئین بھی اس کی اجازت نہیں دیتا مگر اتوار کی شام وزیر داخلہ احسن اقبال جب اپنے ہی حلقے کے مسیحی بھائیوں کے ساتھ ا ظہار یک جہتی کے لئے ایک کارنر میٹنگ سے خطاب کے بعد واپس جانے لگے تو ایک بائیس سالہ نوجوان نے ان پر انتہائی قریب سے فائر کر دیا، وہ تو احسن اقبال کی کوئی نیکی کام �آئی ، شاید ان کی انتہائی نیک والدہ آپا نظار فاطمہ کی دعائیں بھی ان کے ساتھ تھیں کہ وہ اس حملے میں بال بال بچ گئے۔ میڈیکل کی زبان میں بات کی جائے تو قاتل گولی کا وار ان کی داہنی کہنی نے برداشت کیا۔ خود ٹوٹ کر چکنا چور ہو گئی مگر گولی کی رفتارکی شدت کی کمر توڑ دی، گولی پیٹ میں ضرور گھسی مگر کسی وائٹل حصے کو گزند تک نہ پہنچا سکی۔ ابتدائی مرہم پٹی ناروال کے ڈسٹرکٹ ہسپتال کے چوکس ڈاکٹروں نے کی، پھر صوبے کے خادم اعلی نے اپنے پرانے ساتھی کی جان بچانے کے لئے انہیں لاہور منقتل کرنے کے لئے اپنا ہیلی کاپٹر بھیج دیاا ور اسے لاہور ایئر پورٹ پر خود ریسیو کیا، وہ ہسپتال میں ایمبولنس کے ساتھ ساتھ آئے اور جب تک ڈاکٹروں نے یہ اعلان نہیں کر دیا کہ وزیر داخلہ کا ضروری آپریشن مکمل ہو چکا ہے اور ان کی حالت خطرے
سے باہر ہے یو وزیر اعلی نے اس کے بعد ہی گھر کا رخ کیا۔ اس دوران پاکستان ا ور دنیا بھر نے اس قاتلانہ حملے کی مذمت کی۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی لیڈر شپ کی طرف سے بھی مذمت کااظہار کیا گیاا ور برطانوی اور امریکی سفیروں نے بھی اس قاتلانہ حملے کی بھر پور مذمت کر دی۔ پاکستان کا کوئی شہری اس حق میں نظر نہیں آیا کہ اختلاف رائے پر ہتھیار اٹھا کر وار کر دیا جائے۔مگر یہ امر افسوسناک ہے کہ اس وقت جب اگلے الیکشن کی مہم زور شور سے جاری ہے تو کسی پر جوتے برسائے جائیں اور کسی پر فائر داغ دیا جائے۔ پچھلے الیکشن میں پیپلز پارٹی اور اے این پی دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر انتخابی مہم نہیں چلا سکیں تھیں۔ وہ کوئی بھی جلسہ کرنے کی کوشش کرتیں تو اس پر خود کش حملہ آور کود پڑتا اور لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے۔ آج یہ صورت حال مسلم لیگ ن کو در پیش ہے اور اگر اسے آہنی ہاتھوں سے نہ روکا گیا تو خدشہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی کھل کر انتخابی مہم نہیں چلا سکے گی اور اپنی آواز اور اپنا منشور ووٹروں تک نہیں پہنچا سکے گی جس کی وجہ سے عوام صحیح مینڈیٹ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ یہ تو آزادانہ منصفانہ اور غیر جاندارانہ الیکشن نہ ہوا اور نہ ہر کسی کو مساوی مواقع مل سکیں گے۔یوں جو نتیجہ نکلے گا وہ کچا پکا ہو گا اور کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا کی مثال ثابت ہو گا۔ ایسے نتیجے سے پاکستان میں سیاسی ا ور حکومتی استحکام نہیں آ سکے گا جس کی اس وقت ملک کو شدت سے ضرورت ہے کیونکہ دشمن نہ صرف ہماری سرحدوں پر مورچہ زن ہے بلکہ ہماری صفوں کے اندر گھات لگا چکا ہے۔ ہم صرف ایک کل بھوشن یادیو کو پکڑ سکے ہیں،نجانے کتنے کل بھوشن ملک کے طول و عرض میں سرگرم عمل ہیں اور جن حملہ آوروں کو ہم مذہبی یا سیاسی مخالف تصور کر رہے ہیں وہ حقیقت میں را، موساد سی آئی اے یا خاد کے ایجنٹ ہو سکتے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے مقابل بظاہر اسلام کے نام لیوا تھے مگر ان کی لاشوں کے معائنے اور ان کے کالے کرتوتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ تو اسلام کے نزدیک تک نہیں پھٹکے۔ اس وقت مجھے اکہتر کے الیکش یاد�آ رہے ہیں جب بھاشانی جالو جالو آگن جالو کے نعرے لگا رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ ہر چیز کو بھسم کر دو۔ مجھے یاد�آرہا ہے کہ جماعت اسلامی کے لیڈر مولانامودودی جلسہ کرنے کے لئے پلٹن میدان میں گئے تو ان پر عوامی لیگی ڈنڈہ برداروں نے حملہ کر دیا اور جلسہ الٹ پلٹ دیا، مجھے وہ منظر یاد آ رہا ہے جب جسٹس ایس اے رحمن اگر تلہ سازش کیس کی سماعت کر رہے تھے تو مسلح حملہ آور ان کے کمرہ عدالت میں آگھسے اور جسٹس صاحب کو جان بچانے کے لئے ننگے پاؤں ایئر پورٹ کی طرف دوڑ لگانا پڑی ،۔ مجھے یہ بھی یا دآرہا ہے کہ ناصر باغ میں بھٹو کا انتخابی جلسہ ہو رہا تھا تواس میں سانپ چھوڑنے کی افواہ پھیلا دی گئی، یہی کچھ بعد میں مصطفی کھر کے ساتھ ہوا جب وہ حلقہ چھ سے الیکشن مہم کے سلسلے میں تاج پورہ گراؤنڈ کے جلسے میں گئے تو اسے بھی طاقت کے بل پر الٹا دیا گیا۔ مولانامودودی کاایک اور جلسہ مجھے یاداآگیا جو انہوں نے دور ایوبی کی فسطایئت کے خلاف احتجاج کے لئے باغ بیرون بھاٹی گیٹ میں منعقدکیااتو ایک حملہ آور پل پڑاا ور اس نے جماعت کے ایک رکن اللہ بخش کو شہید کردیا ۔ مولانا مودودی نے کمال نظم کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلسہ تو سنبھال لیا مگر جلسہ گاہ سے وہ ایک لاش اپنے کندھوں پر اٹھا کر لائے۔
میں نے امریکہ کی ایک الیکشن مہم دیکھی ہے، کیا مجال جو کہیں گرما گرمی یا گہما گہمی نظر آ ئی ہو۔ الیکشن کے پوسٹر ایک مربع فٹ سائز کھمبوں کے ساتھ کہیں کہیں چمٹے نظر آئے ، پولنگ کے روز میں سان فرانسسکو میں تھا، ایک راہ گیر سے میں نے پوچھا کیا آپ اپناووٹ ڈال آئے ہیں ، اس نے کہا کیساووٹ ۔ وہ شخص اس امر سے لاعلم تھا کہ اس کے ملک میں کوئی الیکشن بھی ہو رہا ہے۔
ہمیں بھی الیکشن مہم کے بخار کو کم کرنا چاہئے ۔ووٹ کے لئے گھر گھر دستک دی جائے، اگر کوئی اجتما ع ضروری ہو تو کسی چار دیواری جیسے شادی ہال وغیرہ ہیں، انہیں استعمال کیا جائے۔کھلے پارکوں اورسڑکوں پر جلسے کرنے سے ہم عوام کی نقل و حرکت کے حق کو غصب کرتے ہیں اور گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرنے سے عوام کا بلڈ پریشر تیز کرتے ہیں جس کے منفی اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ ان پر ہم بعد میں افسوس کااظہار کرتے ہیں مگر کیا ہی اچھا ہو کہ الیکشن کمیشن ساری جماعتوں کے مشورے کے ساتھ ایک ضابطہ اخلاق طے کرے اورا س پر سختی سے عمل بھی کروائے، ہمارے طرز الیکشن نے اس عمل کو اس قدر مہنگا کر دیا ہے کہ صرف ارب پتی طبقہ ہی الیکشن لڑ سکتا ہے اور ذہین اور با صلاحیت افراد الیکش کے عمل میں حصہ لینے سے محروم ہو جاتے ہیں۔کسی کے پاس پیسہ ہونا از خود کوئی برائی نہیں مگر اے کاش ! یہ لوگ عقل سے بھی بہرہ مند ہوں اور ملکی خدمت کے جذبے سے بھی سرشار ہوں۔
اللہ برادرم احس اقبال کو صحت کاملہ اور عاجلہ سے نوازے، ان سے خوشگوار قربت کے تعلقات نصف صدی پر محیط ہیں اور میں ان کی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔وہ قوم کے لئے ایک اثاثہ ہیں جن سے ہمیں مستفید ہونا چاہئے۔ منصوبہ بندی کے میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔خدا کرے وہ لاثانی اور لافانی رہیں۔