خبرنامہ

انصاف ہوتا نظر آ رہا ہے | اسد اللہ غالب….انداز جہاں

انصاف شروع سے ہو رہا ہے، ہر مارشل حکومت کو نظریہ ضرورت کے تحت سند جوا زعطا کی گئی۔ ایوب خان کو، یحییٰ خاں کو،ضیا کو اور مشرف کو بھی۔بھٹو کو نہیں، جونیجو کو نہیں، بے نظیر کو نہیں اور نوازشریف کو نہیں۔
اور اب یہ وقت بھی آنا تھا کہ ایک وزیر اعظم منصب پر براجمان ہو اور اس کی اولاد کی تفتیش ہو رہی ہو، وزیر اعظم کے قریبی ساتھی بھی مقدمے بھگت رہے ہوں اور کچھ پتہ نہیں کسی روز خود وزیر اعظم کی طلبی بھی ہو جائے۔
معذرت خواہی میراشیوہ نہیں مگر جب بات مذہبی حوالوں سے کی جائے تو قارئین کی حساسیت کا خیال اور احترام لازمی ہے مگر میں دوسروں کے حوالے دوں گا جو دن رات کہتے تھکتے نہیں تھے کہ اگر رسول خدا ﷺ نے فرمایا تھا کہ میری بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرے تو ا سکے ہاتھ بھی کٹ جائیں گے، یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اگر خلیفہ ثانی حضرت عمر ؓ سے بھرے مجمع میں سوال کیا جاسکتا ہے کہ سب کو ایک ایک چادر ملی ہے تو آپ کے پاس دو چادریں کہاں سے آ ٓ گئیں اور یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جب رسول خدا ﷺ کے داماد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو قاضی کے حضور پیش ہونا پڑا تو آج کے حاکموں کو عدالت میںکیوں طلب نہیں کیا جا سکتا، اب یہ جو کچھ کہا جارہا تھا، وہ سب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اب یہ ہو رہا ہے،وزیر اعظم پر مقدمہ چلتا رہا ہے، ان کی ا ولاد پر سوالات اٹھائے جاتے رہے، سڑکوں پر بھی، ٹاک شوز میں بھی، پریس کانفرنسوںمیں بھی، اخبارات میں بھی، پارلمنٹ میں بھی اور اعلی عدالتوںمیں بھی۔ تو یہ سب خواہشات، یہ سب مطالبے پورے ہو چکے ہیں۔
وزیر اعظم کوآئین اور قانون استحقاق دیتا ہے کہ وہ استثنیٰ طلب کریںمگر وزیر اعظم نے رضامندی سے، خوشدلی سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو بلکہ اپنے مرحوم باپ تک کو احتساب کے لئے پیش کر دیا۔ تین نسلوں کااحتساب ہو رہا ہے اور دوسروں کے اعمال کی جوابدہی، اگلی نسلوں کو کرنا پڑ رہی ہے، یہ دنیا کے ہر قانون کے خلاف ہے۔ روایات کے خلاف ہے،مگر وزیر اعظم نے اپنی مرضی سے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر دیا، اس لئے کہ وہ چاہتے تھے کہ انصاف ہونا چاہئے، وہ انصاف کے رستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتے تھے۔اور پھر وہ ہو گیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، وزیر اعظم کا خاندان آج کٹہرے میں کھڑا ہے۔بہت کم مثالیں ہیں کہ کسی حکمران کو تفتیش کا سامناکرنا پڑا ہو، ایساکہاں ہوا کہ وزیرا عظم کی اولاد تفتیشی ٹیموں کے سامنے دھکے کھا رہی ہو، یہاں تو ایک وزیر اعلیٰ تھے جن کے ایک نوجوان عزیز کو حوالات میںبند کر دیا گیاتو وزیر اعلیٰ خود تھانے پہنچے، حولات کا دروازہ کھلوایا اور کہا۔۔ اٹھ کاکا، توں ایتھے کی کرنا پیا ایں۔۔ ہمارے ملک میں کوئی ایم پی اے، ایم این اے، حتی کہ کوئی کونسلر اور نمبر دار تک بھی تھانے کچہری میں پیش ہونے سے گریز کرتا ہے، پولیس کو ڈیروں پر طلب کر کے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مقدمے واپس لیں،یا ہتھ ہولا رکھیں، اگر کسی کو بامر مجبوری جیل کی ہوا کھانابھی پڑے تو جیل کا کمرہ ان کے لئے فائےو اسٹار ہوٹل کی آسائشوں سے آراستہ کر دیا جاتا ہے۔اب اسی ملک میں، اسی معاشرے میں ایک وزیر اعظم نے اپنی رضا سے خود کو اور پورے خاندان کو اور اپنے مرحومین کا احتساب کروانے کی پیش کش کر دی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کو اپنی پاک دامنی پر یقین ہے، وہ جانتے ہیں کہ ان کے ہاتھ صاف ہیں، اور ان کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں۔
جہاں تک میرا قیافہ کام کرتا ہے، حسین نواز برطانوی شہریت کے بھی حامل ہیں اور پاکستانی قوانین کے اسی حد تک پابند ہیںجس حد تک الطاف حسین یا کوئی اور بیرون وطن پاکستانی یا جنرل کیانی کے بھائی یاجنرل مشرف۔ وہ نہ آنا چاہتے تو پھر ریڈ وارنٹ جاری کرنے پر وقت لگتا مگر حسین نواز ایک سمن پر چلے آئے، حسین نواز نے کسی لیت و لعل کا مظاہرہ نہیں کیا، وہ چلے آئے۔ دو گھنٹے تک ان سے خوب پوچھ گچھ ہوئی۔ طارق شفیع کا معاملہ الگ ہے۔ وہ وزیر اعظم کے کزن ہیں اور عمر بھر کے ہمسائے بھی، کاروباری شراکت دار بھی، ان کی شکائت یہ سامنے آئی کہ ان سے ذلت آمیز سلوک کیا گیا، یہ شکائت سپریم کورٹ میں پہنچی توجواب ملا کہ جے ا ٓئی ٹی کوئی ٹی کلب نہیں، ایک تفتیشی مرکز ہے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ ہدائت کرتے ہیں کہ جے آئی ٹی سب کے ساتھ مساوی سلوک کرے، میرا خیال ہے کہ جے آئی ٹی اور تھانے کے محرر کے مابین کوئی فرق ضرور ہونا چاہئے۔ایک زمانہ تھا جب میںنے نوائے وقت میںمیگزین ٰیڈیٹر کے طور پر ایوان وقت فورم بھی چلایا تو اس میں کاروباری ا ور صنعتکار افراد کی ایک ہی شکائت تھی اور وہ یہ شکائت ہانپ ہانپ کر،کرتے تھے کہ وہ اس قدر ٹیکس دیتے ہیں، ملک کی کاروباری اور صنعتی ترقی کے لئے خون پسینہ ایک کرتے ہیںمگر انہیں انکم ٹیکس والے اپنے دفتروںمیں طلب کرتے ہیں اور جان بوجھ کر گھنٹوں برآمدوںمیں کھڑا رکھتے ہیں، اندر کوئی نام نہاد میٹنگ چلتی رہتی ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ایئر کنڈیشنڈ روم میں بیٹھا افسر جانتا تھا کہ باہر ایک ٹیکس گزار پسینے سے شرابور ہے مگروہ اذیت دے کر خوش ہوتے تھے۔ لاہور میں کسی زمانے میںشاہی قلعہ تھا، بدنام زمانہ سی ا ٓئی اے سنٹر تھا، نواز شریف نے یہ دونوں ٹارچر سیل ختم کروائے، سی آئی اے سنٹر میں میںنے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو برہنہ الٹا لٹکتا دیکھا تھا۔
کیا جے آئی ٹی اس ورثے کو لے کر آگے چل رہی ہے۔بھلے وائٹ کالر کرائمزکی تفتیش کرنی ہے مگر جے آئی ٹی اور نیویارک ایر پورٹ پر ایف بی آئی کی ٹیم میں فرق ہونا چاہئے۔
میرے راوین دوست اور بھائی سعید احمد بھی تفتیش کی زد میں آ گئے، حقیقت یہ ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ انہیں جے آئی ٹی کیوں طلب کر رہی ہے، ایک کیس تھا جس کی مشرف کے جرنیلوںنے تفتیش کی، بعد کی عدالتوںنے بھی اسے کھنگال ڈالا مگر اسحق ڈارکو ان الزاما ت سے بری کر دیا گیا جن میں سعید احمد کانام بھی آتا تھا۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ روئے زمین پر سعید احمد جیسے صاحب کردا، پارسا،دیانت دار اور پروفیشنل ماہرین کم کم پائے جاتے ہیں۔ اب میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ سعید احمد تو پیش ہو گئے، مگر ان کی باتوں کی تصدیق یا تردید کے لئے اسحق ڈار کو بھی طلب کیا جائے گا اور پھر منطقی طور پر حسین نواز اور اسحق ڈار کے بعد خود وزیر اعظم کی باری آ جائے گی، ضرور آئے مگر اس پر بغلیں بجاناچہ معنی دارد!ہر کوئی ٹھٹھہ اڑا رہا ہے کہ وزیر اعظم کڑکی میں پھنس گئے ا ور معمولی گریڈوں کے اہل کاروں کے سامنے پیش ہونے پر مجبور ہیں۔
یہ کڑکی عمران خان نے لگائی مگر اس سے پہلے کہ عمران اپنے کسی مخالف کو کڑکی میں پھنسائے، اسے اپنے بارے میں یقین ہو گیا ہے کہ وہ خودا س کڑکی میں بری طرح پھنس چکا ہے اور اب کوئی و قت آتا ہے کہ اسے نااہل کر دیا جائے گا۔ اسکے ضمیرنے اسے یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وزیر اعظم کی نااہلی کے لئے اس کی نااہلی بہت چھوٹی قربانی ہے۔
ا س ملک میں پہلے وزیر اعظم کو شہید کیا گیا، پھر کسی وزیر اعظم کو ٹک کر کام نہیں کرنے دیا گیا، حتی کہ گیارہ سالہ مارشل لا آ گئے جن کو روکنے ٹوکنے ولا کوئی نہ تھا، یحییٰ خاں نے بڑے اطمینان سے ملک توڑا مگر اسے پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا، مگر ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالنے والے وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ شریف النفس جونیجو کو بھی کان سے پکڑ کر حکومت سے نکال دیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف کی دوتہائی ا کژیت کے باوجود انہیں قلعوںمیں بند کر دیا گیا اور پھر جلا وطن کر دیا گیا، محترمہ بے نظربھٹوکے ساتھ این آر او کاایک معاہدہ کیا گیا، وہ وطن واپس آئیں تو انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ بعد میں اس این آر او کو وائڈ ایب نشو قراردے دیا گیا۔آئےن کی پاسداری کرنے والے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو کھڑے کھڑے فارغ کر دیا گیا۔ مگر مشرف آج تک مفرور ہے ا ورجنرل کیانی کا بھائی بھی آج تک مفرور ہے، مگر شامت صرف سیاستدانوں کی آتی ہے۔ حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بھگت لیا۔ سعید احمد اور بعد میں ممکنہ طور پر اسحق ڈار بھی بھگت لیں گے اور شاید وزیر اعظم بھی مگر نتیجہ کیا نکلے گا۔ یہی نا گلاس توڑا، بل بارہ ا ٓنے۔
مگر خبر دار !مسئلہ گلاس کا نہیں، پاکستان کا ہے!