خبرنامہ

انقلاب کا جمعہ بازار…اسداللہ غالب

انقلاب کا جمعہ بازار…اسداللہ غالب

ان دنوں انقلا ب کے ٹوکرے سجے ہیں۔ منڈی میں ہر نوع کا انقلاب دستیاب ہے، اب یہ علم نہیں کہ بھائو کیا ہے۔
ایک انقلاب عمران کا ہے جو کبھی دھرنے کی شکل میںنمو دار ہوتا ہے، کبھی لاک ڈائون کی شکل میں اور کبھی عدالتوں کے فیصلوں کے پیچھے سے جھانکتا ہے۔
انقلاب کا دوسرا بیوپاری نوازشریف ہے۔ انہوںنے پہلے تو یہ کہا کہ اب وہ نظریاتی ہو گئے ہیں، یار لوگوں کاماتھا اس وقت ٹھنکا تھا کہ نوازشریف سنجیدہ ہو گئے تو کیا ہو گا، اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا، انہوں نے بھی انقلا ب کا نعرہ لگا دیا، مگر اس کے خدوخال ابھی واضح نہیں کئے۔
ادھر آرمی چیف بھی انقلابی قسم کی باتیں کرنے لگے ہیں، کم از کم تین بار نوید سنا چکے ہیں کہ پاکستان قانون اور آئین کی بالادستی کی طرف بڑھ رہا ہے، تری آواز مکے اور مدینے، اور کیا چاہئے، قانو ن اور آئین کی عمل داری ہو جائے توپاکستان جنت ارضی کا نمونہ بن جائے۔
ہمارے سامنے دور جدید کے انقلاب کے چند ایک ماڈل ہیں ، ایک ایران میں انقلاب اسلامی کا۔ اس کو اب عرصہ گزر گیاا ور شاید یہ انقلاب رستے ہی میں کہیں تھک ہار کر بیٹھ چکا۔ مگر اس انقلاب نے ایک دنیا کو حیرتوںمیں ڈبو دیا تھا۔کیا کرو فر تھا شاہ ایران کا۔ مگر وہ اچانک منظر سے غائب ہو گیا، پھر رہے نام اللہ کا، شاہ ایران کا کہیں اتا پتہ نہیں ملا۔ امام خمینی رہبر انقلاب ٹھہرے، پورا نظام الٹ پلٹ ہو گیا، حکومت میں خیر سب چہرے نئے تھے مگر انتظامیہ، پولیس، فوج ا ور عدالتوں کا ناک نقشہ بھی بدل گیا۔ ان کرسیوں پر بیٹھنے والوں کا صرف لباس ہی نہیں بدلا بلکہ رنگ ڈھنگ بھی بد ل گیا، ایک نئے چیف جسٹس تھے، قد تو بہت چھوٹا تھا مگر فیصلے بڑے بڑے کرتے تھے اور ہرصبح سویرے دو تین سو سروں کا ناشتہ فرماتے تھے۔
ایران کا انقلاب کسی کے لئے نمونہ نہیں بنا، مگر وہ جو دیوار برلن ٹوٹنے سے انقلاب آیا، اس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا، مشرقی یورپ تتر بتر ہو گیا اور سوویت روس کی ایمپائر کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔ تبدیلی کی یہ ہوائیں کشمیر کی برف پوش چٹانوں سے ٹکرائیں تو انہوںنے کشمیریوں کا لہو بھی گرما دیا، اسقدر گرما دیا کہ بھارتی گولیاں تڑتڑ چلتی ہیں، ہر لمحے چلتی ہیں مگر کشمیریوں کے خون کا جوش ٹھنڈا نہیں کر پائیں۔
انقلاب کے بعض نمونے عرب بہار کے جھونکوں نے بھی پیش کئے ۔ بہار کی یہ فضا نیٹو کے جنگی طیاروں کی گن مشینوں کی نالیوں کی مرہون منت تھی۔ صدام حسین پھانسی چڑھا دیا گیا، لیبیا کے مرد آہن کو میزائل سے شہید کر دیا گیا، یمن میں خون رس رہا ہے، اور شام میں انقلاب کی بھٹی گرم ہے۔
ایک ناکام انقلاب ہم نے ترکی میں دیکھا مگر میرا گمان یہی ہے کہ یہ کمپیوٹر سے نکلا۔ شاید کمپیوٹر بھی اس قدر مہارت سے انقلاب نہ برپا کر سکے۔ ترک فوج نے ٹینک سڑکوں پر دوڑائے، ترک جہاز فضا میں بلند ہوئے۔ ان کا ٹارگٹ ملک کا وزیراعظم طیب اردوان تھا جو اس وقت ملک میں موجود نہیں تھا مگر وہ کسی اسکرپٹ کے مطابق واپس ملک آیا اور اس کو دیکھ کر ترک عوام نے حوصلہ پکڑا، وہ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، باغی ترک فوجیوں کی سڑکوں کے چوک میں لتروڑ اور چھترول کی، فضائیہ کے طیاروں کو میزائلوں سے مار بھگایا، اگلی صبح کے طلوع ہونے سے پہلے انقلاب ناکام بنایا چکا تھا اور ایک نیا انقلاب ترکی کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا، لاکھوں کی تعداد میں ملازمین کو بر طرف کر دیا گیا، ان کی فہرستیں راتوں رات تو نہیں بن سکتی تھیں، پہلے سے کمپیوٹر میں فیڈ کی جا چکی تھیں اور جن کو نوکریوں سے نکالاگیا، ان کی جگہ نئے لوگوںنے سنبھال لی، ان کی تقرری کے احکامات بھی کمپیوٹر میں پہلے ہی سے موجود تھے، سب کچھ برق رفتاری سے ہوا اور جتنا وقت باغیوں کے ٹینک واپس چھائونیوں میں دھکیل دینے میں لگا، اتنے ہی وقت میں ایک نیا انقلاب رونما ہو چکا تھا، ایران کے انقلاب ا ور ترکی کے ا س انقلاب میں یہی ایک مماثلت ہے کہ کامیابی کی صورت میں متبادل نظام وضع کیا جا چکا تھا اور متبادل ٹیم بھی تیار تھی، اب تک ترک فوج کی ہائی کمان کئی بار تبدیل کی جا چکی ہے، آخری تبدیلی گزشتہ ہفتے عمل میں آ ئی جب تینوں مسلح افواج کے سربراہ ایک بارپھر بدل دئیے گئے۔ تو ثابت یہ ہوا کہ انقلاب لانے کی ایک شرط یہ ہے کہ انقلاب کے بعد معاملات سنبھالنے کے لئے آپ کے پاس متبادل ٹیم تیار ہو اور کیل کانٹے سے لیس ہو۔ اور ہر خوف و خطر سے آزا ہو۔
اس پیمانے پرآپ عمران خان کے انقلاب کے جوش و خروش کو دیکھیں تو آپ کی ہنسی نکل جائے گی، کرپٹ افراد کی جگہ لینے کے لئے مہا کرپٹ ا فراد کی ٹیم خان صاحب کے اردگرد موجود ہ ہے، آف شور کمپنیوں والوں کو آف شور بھجوانے کے احکامات تو جاری کر دیئے جائیں گے مگر ان کی جگہ بھی وہی لوگ لیں گے جن کی اپنی آف شور کمپنیوں کا کوئی شمار قطار ہی ہی نہیں۔ اقاموں کا حساب بھی وہ لوگ لیں گے جن کی اپنی جیبیں اقاموں سے بھری پڑی ہیں ۔ تو صاحبو، یہ کوئی انقلاب نہ ہوا، انقلاب کے نام پر دھبہ ہوا۔
نواز شریف نے جب کہا کہ وہ نظریاتی ہو گئے ہیں تو یوں لگا کہ وہ بہت سنجیدہ ہیں، وہ جی ٹی روڈ پر نکلے، عوام کا ہجوم نہیں ایک سمندر تھا جس کی موجوں کی طغیانی کی لپیٹ میں وہ لاہور پہنچ گئے۔ وہ عوام سے ساتھ نبھانے کے وعدے لیتے رہے، عوام ان کا ساتھ نبھانے کا یقین دلاتے رہے، وہ انقلاب برپا کرنے کاا علان ایک پڑائو کے بعد اگلے پڑائو پر ملتوی کرتے رہے اور یہ اعلان ایسا ملتوی ہوا کہ میرے جیسے لوگ جو بہت پرجوش ہو گئے تھے، ان کا حشر انقلاب فرانس میں پیش پیش دانش وروں کا سا ہوا، وہ مایوسی کی لپیٹ میں آ گئے۔ میںنے مایوسی کا دروازہ ابھی تو بند کر رکھا ہے اور مجھے توقع ہے کہ تین بار زخم کھانے والا اور زخم سہنے والا اب نکو نک آ چکا ہو گا اور ہر چہ بادا باد کا نعرہ لگا کر تن من دھن کی بازی لگا دے گا، دیکھئے، ایسا کب ہوتا ہے، دیکھئے ایسا کب ہوتا ہے۔ ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ مشرقی پاکستان کے لوگ نکو نک آ گئے تھے۔ وہ سب کچھ کر گزرے، اس کے بعد ہر انقلابی کے خلاف جس نے جو چا ہا، وہ سب کچھ کر گزرا، انقلاب کے خواب ادھورے رہ گئے۔ محترمہ بے نظیر لاہور ایئرپورٹ پر اتریں تو شاید ان کا استقبال کرنے والوں کی تعداد امام خمینی کے استقبالیہ ہجوم سے زیادہ تھی، وہ دوسری بار واپس آئیں، کراچی اتریں اور رات کے اندھیرے میں ان کے کنٹینر کے ارد گرد سینکڑوں پروانوں کا خون ہو گیا اور اگلے جلوس میں ان کی اپنی جان چلی گئی۔ ملک کے پہلے وزیراعظم نے بھارت کے خلاف مکہ لہرایا تو اسے لیاقت باغ میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا، ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم نے گھاس کھائیں گے، ایٹم بم بنائیں گے اور کشمیر کے لئے ایک ہزار سال تک لڑیں گے جیسے انقلابی نعرے لگائے تو اسے پھانسی گھاٹ لے جا کر شہید کر دیا گیا۔
مگر ایوب خان کا انقلاب بڑا پرامن تھا، یحیٰی خان کا ٹیک اوور اس سے بھی زیادہ سافٹ طریقے سے انجام پایا، ضیاء الحق آیا تو مٹھائیاں بانٹی گئیں، مشرف آیا تو حلوے کی دیگیں چڑھیں۔ انقلاب ہوں تو ایسے۔ ایوب، یحیٰی، ضیائ، مشرف کو جی ٹی روڈ پر پسینے سے شرابور نہیں ہونا پڑا۔ اسی لئے انق کے انقلاب بھی کامیاب تھے ا ور لوگ آج بھی کہتے قہیں کہ ایوب دور میں گیارہ سال تک ڈالر چار روپے کا رہا، شرح نمو نو فیصد رہی، جنوبی کوریا نے ہمارے پنجسالہ منصوبے کی نقل کی اور وہ ایشین ٹائیگر بن گیا۔ آخری انقلابی مشرف بھی دعوے کرتا ہے کہ ا س کا دور سنہری تھا، پر امن تھا، خوش حالی سے لبریز تھا تو نواز شریف بتائیں کہ ان کا انقلاب لوگوں کو کیادے گا۔ جناب! حساب کیلکولیڑ پر لگائیے گا۔