خبرنامہ

اوبامہ اورنوازشریف کا مخمصہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اوبامہ اورنوازشریف کا مخمصہ

امریکی صدر کو شام پر جارحیت کا شوق چرایا ہے۔ اس کے لیئے اسے اقوام متحدہ کی اجازت درکار ہے یا اپنی منتخب کانگریس کی مگر وہ عالمی حلیفوں کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، روس میں بی ٹوئنٹی کے اجلاس نے اس کے مذموم عزائم کی حمایت نہیں کی، برطانوی پارلیمنٹ میں بھی حکومت کو شام کے خلاف جارحیت کی قرار داد پرشکست ہوگئی ہے۔ روسی صدر پوتوں نے تو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ شام میں کیمیاوی اسلحے کا استعمال صدر بشارالاسد نے نہیں، بلکہ امریکی اور نیٹو کی حمایت یافتہ اپوزیشن نے کیا ہے۔
امریکی صدر اوبامہ ایک مخمصے کا شکار ہے، اس کا بس چلتا تو وہ شام کا تورا بورا اور فلوجہ بنا چکا ہوتا لیکن وہ فیصلے کی قوت سے عاری نظر آتا ہے۔ ملکی آئین کے تحت وہ کانگریس کے فیصلے کا پابند ہے۔
پاکستان میں 11 مئی کو عام انتخابات منعقد ہوئے جن میں ایک نیا حکومتی سیٹ اپ سامنے آیا۔ ہر منتخب حکومت کی طرح اس حکومت کو بھی ہر فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ یہی عوام کا مینڈیٹ ہے۔ عوام نے کسی اے پی سی کو ایسا کوئی مینڈیٹ نہیں دیا۔ عوام قومی اسمبلی اور سینیٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو منتخب کرتے ہیں قوم کی قسمت کا کوئی فیصلہ اکیلے حکومت کرنے کی طاقت نہ رکھتی ہو تو وہ پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر بھی مسئلے کا کوئی حل نکلتا دکھائی دے تو آئین میں ریفرنڈم کا راستہ تجویز کیا گیا ہے، ملک کے موجودہ آئین میں جرگہ شاہی کے نظام کی قطعی گنجائش نہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کا ہتھیار محض ٹال مٹول کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کوئی اقتاد سر پر آن پڑے تو قومی اتفاق رائے کی کوششیں ضرور ہوتی رہیں۔ 1965 میں بھارت نے ننگی جارحیت کا مظاہرہ کیا تو فیلڈ مارشل ایوب خان کوقومی لیڈروں نے آشیر باد سے نوازا۔ بھٹو نے شملہ کا رخ کیا تو ایک بار پھر قومی قیادت نے متحد ہوکر اسے ایئر پورٹ سے رخصت کیا۔ پہلی افغان جنگ کے خاتمے کے وقت جنیوا معاہدے کے مسئلے پروزیراعظم جونیجو نے صدر ضیا الحق کے موقف کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی۔ پچھلے دور حکومت میں بعض سنگین مسائل پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہرقومی اتفاق رائے کے لیئے کئی کوششیں کی گئیں مگر ان میں جو فیصلے ہوئے، ان پر عمل کی نوبت نہ آسکی۔
تو یہ نئی آل پارٹیز کانفرنس کا جھنجھٹ کیا ہے۔ مجھے اس کی کوئی توجیح سمجھ نہیں آئی، نہ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ سے باہر فیصلوں کا کوئی جواز موجود ہے۔ ن لیگ کی قیادت کی شہرت یہ ہے کہ وہ تو اپنی کابینہ سے میل جول کی روادار بھی نہیں، میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف سارا حکومتی بوجھ تنہا اپنے شانوں پر اٹھانے کے عادی ہیں، پنجاب اسمبلی میں کتنی بار شہباز میاں نے شرکت کی یا پچھلے تین ماہ میں نواز شریف نے پارلیمنٹ کے اجلاسوں کو کیا اہمیت دی، اس کے لیے کسی محقق کو زحمت دینے کی ضرورت نہیں، وہ فرد واحد کی طرح حکومت چلانے کے عادی ہیں۔ ماضی میں قومی اسمبلی سے منظوری کے لیئے ایک ایسی آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کر لیا گیا تھا جس کے تحت ہمارا ملکی حکومتی نظام، بادشاہت اورمطلق العنان حکمرانی سے ملتا جلتا ہو۔ مگر آیئے، مان لیتے ہیں کہ اب ان کا رویہ تبدیل ہوگیا ہے، اور وہ وسیع تر مشاورت سے نظام حکومت چلانے کے حق میں ہیں مگر کیا وہ چین میں اپنے ساتھ سندھ اور خیبر پختون خواہ کے وزارائے اعلی کو لے کر گئے۔ چین کے ساتھ بجلی، تعلیم اور مواصلات وغیرہ کے منصوبوں پر ایم او یوز کیئے گئے جن کا تعلق ان دو صوبوں سے بھی اتنا ہی ہے جتنا پنجاب اور بلوچستان کا، ویسے چینی قیادت کے ساتھ کتنی ملاقاتوں میں بلوچستان کے وزیراعلی کو بھی شرکت کا موقع دیا گیا جو وفد کا حصہ تھے۔ پنجاب میں وزیراعلی کے پاس کتنے محکمے ہیں اور وفاق میں وزیراعظم نے کتنے محکمے سنبھال رکھے ہیں، کیا پنجاب اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ان محکموں کو چلانے کے لیئے کوئی باصلاحیت فرد موجود نہیں یا قصہ یہ ہے کہ دونوں بھائی کسی دوسرے کو فیصلہ سازی میں شریک کرنا پسند نہیں کرتے۔ اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ ان کا سلوک کیا ہے۔ کوئی سید غوث علی شاہ یا عطاء الحق قاسمی سے پوچھے، قاسمی صاحب کو اللہ نے قلم دیا ہے وہ لکھ لیتے ہیں اور انہوں نے لکھ دیا ہے کہ وہ تکبر کا جواب تکبر سے اور عاجزی کا جواب عاجزی سے دیں گے مگرغوث علی شاہ اور شجاعت عظیم کے پاس چارہ کار کیا ہے سوائے اس کے کہ بیرونی ملکوں کی ٹکٹیں کٹوائیں اورغم غلط کرنے کی کوشش کریں۔
کراچی میں پچھلے دنوں کیا ہوا۔ وفاق کا بحری بیڑ اوہاں لنگر انداز ہی نہ ہو سکا۔ ارادے تو یہ تھے کہ صوبے کے معاملات کو ہتھیا لیاجائے، گورنر، چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو تبد یل کر دیا جائے، سرکاری ٹی وی نے تبادلوں کی خبریں نشر کر دیں مگر چندلمحوں کے اندر سب کچھ واپس ہو گیا۔ اس سے وفاق کی بھد اڑی۔ ان کاموں پر تعیناتی کا ایک طریق کار ہے جسے اختیار نہیں کیا گیا۔ اس سے یوں لگا جیسے شب خون مارا جارہا ہو۔ اتنا تو میں مانتا ہوں کہ وزیراعظم نے صبر اور دانش مندی کا مظاہرہ کیا اور واپس چلے آئے۔ وہ اڑے رہتے تو ساراحکومتی نظام دھڑام سے نیچے گر جاتا مگر کون جانتا ہے کہ وزیراعظم کے دماغ میں کیا کچھڑی پک رہی ہے۔ کراچی کا مسئلہ سنگین ضرور ہے لیکن اسے حل کرتے ہوئے یہ تاثر دینا اچھا نہیں کہ سب کچھ تجارتی طبقے کے مفاد میں کیا جارہا ہے۔ کراچی میں عام آدمی بھی ہے، اس کے بھی مفادات ہیں، اس کو بھی اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے کہ اس کے جان و مال کا تحفظ کیا جا رہا ہے مگر صاحبو! امن وامان ایک صوبائی مسئلہ ہے۔ پنجاب نے پانچ برسوں میں گیلانی اور راجہ کی ایک نہیں سنی اور رحمن ملک کو صوبے کے امور پر زبان تک کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ وہ پنجابی طالبان کا ذکر کر بیٹھے اور رانا ثنا اللہ برسوں ان کے لتھے لیتے رہے، اب وزیر اعظم اور وفاقی وزیرداخلہ کراچی میں یوں براجمان ہوئے جیسے وہاں ان کی اپنی پارٹی کی حکومت ہو، یہ تو گورنر اور وزیراعلی کی بھلے مانسی ہے کہ ان کے ساتھ میٹنگ میں آن بیٹھے۔ کراچی میں وفاقی حکومت کو آپریشن کرنا ہے تو اس کے لیے پہلے آئین میں تبدیلی کر کے اس شہرکو وفاقی علاقہ قرار دینا ضروری ہے یا امن و امان کو صوبائی اختیار سے خارج کر دیا جائے۔ آخر آئین بھی کوئی چیز ہے۔
ملکی سلامتی کی پالیسی کے لیئے اب آل پارٹیز کانفرنس کا راستہ، چمعنی دارد! آئین میں وفاقی حکومت خارجہ معاملات اور فاٹا کو چلانے کی مکلف ہے، آل پارٹیز کانفرنس کو کسی آئین نے کوئی اختیار تفویض نہیں کیا۔ اور صوبوں سے اندرونی سلامتی کا اختیار سلب نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔
براہ کرم پارلیمنٹ کو بائی پاس نہ کیا جائے، اس میں تشریف لے جائے اور قومی اتفاق رائے کا اعلامیہ شوق سے جاری کروالیجئے کئی مشترکہ اعلامیے پہلے بھی ماضی کی گرد میں اٹے پڑے ہیں۔
(10 ستمبر 2013ء)