خبرنامہ

اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کاحق اور ملکی معیشت کی ترقی….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کاحق اور ملکی معیشت کی ترقی

اوورسیز پاکستانی ایک عرصے سے ووٹ کا حق مانگ رہے ہیں۔میں اسی کے عشرے میں پہلی مرتبہ برطانیہ گیا تو کئی شہروں میں ایوان وقت کے مذاکرے منعقد کئے۔ ان میں دیگر مسائل کے علاوہ ووٹ کے حق کا مطالبہ سرفہرست تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ انہیں بیرون ملک مقیم پاکستانی امیدواروں کو چننے کا موقع دیا جائے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ لوگ ملک کے معاملات میں اپنی شرکت چاہتے تھے۔ اس دوران کئی لیڈر بیرون ملک آتے جاتے رہے بلکہ کئی ایک تو وہاں جلاوطنی بھی کاٹتے رہے ۔ انہوںنے بھی ہر سانس کے ساتھ وعدہ کیا کہ کہ وہ اس مطالبے کو عملی شکل دیں گے مگر وقت آتا تو وہ ٹال مٹول سے وقت گزار لیتے۔
وعدہ تو عمران اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے بھی یہی کیا تھا اور اتفاق کی بات ہے کہ اس وعدے کی تکمیل کا سہرا ان کے سر سجا ، اگرچہ اس کا حکم تو اعلی ترین عدلیہ نے دیا مگر اس کا عملی نفاذ عمران کی حکومت کر ے گی اور کہا یہ جا رہا ہے کہ ابھی ضمنی انتخابات ہی سے اس وعدے پر عمل درا ٓمد ہو جائے گا۔ اس کے لئے ہمیں نادرا کو بھی داد دینی چاہئے جو اس مقصد کے لئے ایک فول پروف سافٹ ویئر تیار کر چکا ہے اور اسے کئی دوسرے ملک خریدنے کوتیار ہیں ، نادرا دوسرے ملکوں کو کئی قسم کے سافٹ ویئر فروخت کر کے قومی خزانے میں بڑا حصہ ڈالنے کاا عزاز رکھتا ہے۔ چلئے برسوںبعد سہی، اس برس اوور سیز پاکستانی اپنے نمائندے چننے کااختیار ستعمال کر سکیں گے۔
بیرون ملک پاکستانی جنہیں عرف عام میں تارکین وطن کہا جاتا ہے ملکی معیشت کے لئے بے حد اہم ہیں، وہ دوسرے ملکوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں، خون پسینہ بہاتے ہیں۔ اور جو کچھ کماتے ہیں اسے اپنے والدین، یاا ولاد کی مدد کے لئے پاکستان بھیج دیتے ہیں اور یہ رقم چونکہ زر مبادلہ کی شکل میںہوتی ہے اس لئے یہ وطن عزیز کو اپنے بیرونی قرضے اتارنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
پاکستان کی مالی مشکلات کا کسے علم نہیں لیکن بڑے بڑے لیڈر اور حکمران ملک اور اس کے عوام کو لوٹتے ہیں اور قیمتی زرمبادلہ باہرلے جاتے ہیں، اسلئے کہ ان کااصل کاروبار باہر ہے، اولاد باہر ہے،ملکوں ملکوں فلیٹ ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کا گوشت نوچ رہے ہیںاور یہ کسی رحم کے مستحق نہیں ، انہیں عدالتیں کڑی سزائیں دیں اور انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے بیرونی اکاﺅنٹس خالی کر کے رقوم پاکستان واپس لائیں تب ان کا پیچھا چھوڑا جائے۔
اوور سیز پاکستانی تو ایک فرض کی ادائیگی کرتے ہیںا ور خود بخود کرتے ہیں، وہ کسی لالچ کے تحت اپنی ا ٓمدنی پاکستان نہیں بھیجتے، انہیں کسی ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ ا ٹھانا مقصود نہیں ہوتا، وہ تو بے چارے اپنے عزیزوں کی دو وقت کی روٹی پوری کر لیں تو بڑی بات ہے، اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دلوا لیں تو بڑی بات ہے، انہیں کوئی چھت مہیا کر سکیں تو بڑی بات ہے۔ایسے اوور سیز پاکستانی در حقیقت پاکستان کا قابل فخر سرمایہ ہیں اور انہیں جو حقوق درکار ہیں ، وہ پورا کرنے کی ضرورت ہے۔
ضمنی الیکشن سے ایک ایسا عمل شروع ہو جائے گا جس سے ہمارے بیرون ملک مقیم بھائی اطمینان کا سانس لے سکیں گے کہ اب انہیں بھی حکومتی فیصلہ سازی میں حصہ مل گیا۔اگلے مرحلے میں اگر ممکن ہو تو بیرون وطن پاکستانیوںکو اپنے اندر سے نمائندے منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔ یہ نمائندے تجربے کی دولت سے مالا مال ہیں،وہ جانتے ہیں کہ وہ جس ملک میں کام کرتے ہیں اس کی ترقی کا راز کیا ہے۔اس کا معاشرہ کیوں اور کیسے قانون کااحترام کرتا ہے اور فلاحی اقدامات کے لئے کیا نظام روشناس کرایا گیا ہے، ہم تو زبانی کلامی پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت کہتے ہیں مگر میںنے خود ایک انگریز افسر سے سناکہ انہوںنے فلاحی معاشرے کے خدو خال ا سلام سے ا خذ کئے اور اس سلسلے میں حضرت عمر ؓ ان کے سب سے بڑے راہنما ہیںجن کے دور میں عام ا ٓدمی کے حقوق کو پورا کرنا ریاست کی ذمے داری قرار پایا اوراس پر عمل کر کے بھی دکھایا گیا۔
کون نہیں جانتا کہ محمد سرور بیرون ملک پہلا پاکستانی ہے جو کسی بیرونی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا اور بار بارہوا۔ اسی طرح آپ نہیں جانتے تو میں بتاتا ہوں کہ بشیر مان سب سے پہلا پاکستانی ہے جو کسی بلدیاتی ادارے کا کونسلر منتخب ہوا۔ اس کے انتخاب پر برطانیہ میں صف ماتم بچھ گئی اور برطانوی اخباروںنے اس کی کامیابی کی خبر سیاہ حاشیوں میںلگائی ۔ یہ تو آغازتھا مگر اب درجنوں پاکستانی بلدیا تی ا داروں میں منتخب ہو رہے ہیں ، کئی شہروں کے میئر بنتے ہیں ، اس وقت لندن کے لارڈ میئر پاکستانی نژاد ہیں،۔ نوائے و قت کو اعزاز حاصل ہے کہ ناروے میں جو پہلا پاکستانی پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہو ا، اس کے مضامین ہمارے ادارتی صفحے پر شائع ہوتے رہے تھے۔اب یورپی پارلیمنٹ میں بھی پاکستانیوں کونمائندگی حاصل ہے۔
باہر رہ کر پاکستانیوںنے بزنس میں بھی بڑا نام کمایا۔ سر انور پرویز پر ہم فخر کر سکتے ہیں ۔ امریکہ میں ایک ٹاپ کا امیر شخص بھی پاکستانی نژاد ہے۔ امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی کئی تنظیمیں ہیں، وہ پاکستان میں فلاحی اداروں کا ہاتھ بٹاتے ہیں، عمران خان کو بھی انہوںنے کبھی مایوس نہیں کیا ، اب وقت ا ٓیا ہے تو عمران کو بھی چاہئے کہ ا نہیںمایوس نہ کرے ۔
معاف کیجئے ہم نے بیرون ملک پاکستانیوں کا اس قدر استحصال کیا ہے کہ میرا سر تو ندامت سے جھک جاتا ہے، ہمارے شاعروںنے ان لوگوں کی جیبوں سے بے پناہ دولت نکلوائی ، ہمارے سیاسی لیڈروںنے ان لوگوں کی فیاضی اور میزبانی کا لطف اٹھایا ۔ ان کی گاڑیاں،ان کے گھر، ان کا پیسہ استعمال کیا مگر انہیں کوئی صلہ نہیں دیا بلکہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پرے پھینک دیا،چودھری سرور کی طرح کے خوش قسمت کم کم ہیں ، کینیڈا میں ہمارے ہائی کمشنر طارق عظیم بھی ہیں ، مجھے تو واٹس ایپ کے ذریعے سفارت خانے کی روزانہ کی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل ہوتی رہی ہے اور یہ خود ہائی کمشنر صاحب کے اکاﺅنٹ سے خبریں تصویریں اور ویڈیو زآتی رہی ہیں۔ گزشتہ برس ہمارے بھائی ڈاکٹر امجد ثاقب کو بیرون وطن دل کا دورہ پڑا اور پھر بائی پاس آپریشن ہوا تو ہمارے سفیر محترم اور اوورسیز پاکستانیوں نے بڑھ چڑھ کر ان کا ساتھ نبھایا۔وہ بیمار نہ پڑتے تو بیرون ملک پاکستانیوں کے عملی مالی تعاون سے اخوت یونیورسٹی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر چکے ہوتے۔
بیرون ملک پاکستانیوں کو ہمارے سیاسی لیڈروںنے اپنے مفادات کی خاطر مختلف سیاسی پارٹیوںمیں بانٹا ہو اہے لیکن میری گزارش اس حکومت سے یہ ہو گی کہ وہ ان تمام لوگوں کو ایک ہی پارٹی یعنی پاکستان پارٹی کا حصہ سمجھیں اور سب کے ساتھ مساوی سلوک کریں، کسی کو لاڈلا اور کسی کو گردن زدنی قرار نہ دیا جائے۔
چند دنوں میں نئی حکومت اوور سیز پاکستانیو ںکے لئے کوئی بڑی اسکیم لا رہی ہے، اگرچہ اس اسکیم میں ان لوگوں سے پیسہ تو مانگا ہی جائے گا مگر کیا ہی اچھا ہوکہ ہر تھانے میں ایک ا وور سیز ڈیسک بنانے کاا علان کیا جائے اور ہر ضلع میں ایک خصوصی عدالت اوور سیز پاکستانیوں کے مقدمات نبٹانے کے لئے قائم کی جائے، اوور سیز پاکستانیوں کی لوٹ مار کا، پی آئی اے کی ٹکٹوں کی فروخت ، طیارے میں بد سلوکی، ایئر پورٹوں پر لوٹ کھسوٹ کا عمل ، آئندہ اس طرز عمل سے اجتناب کیا جائے، ایف آئی اے اور کسٹمز کے اہل کاروں پر واضح کر دیا جائے کہ اگر انہوں نے کسی معزز اوور سیز پاکستانی سے بد سلوکی کا مظاہرہ کیا تو حشر برا ہو گا۔ کیا ہی ا چھا ہو کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو نادرا کی طر ف سے جو کارڈ جاری کیا گیا ہے،اس کو دکھا کر یہ لوگ ہر جگہ فایﺅ اسٹار سلوک کے سزاوارو حقدار ٹھہرائے جائیں ، انہیں سرا ٓنکھوں پہ بٹھایا جائے اور وی وی پی آئی کا درجہ دیا جائے۔ دیکھنا پھر ملکی معیشت کی ترقی کا پہیہ کس تیزی سے گردش کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭