خبرنامہ

اُمیدآشنا کے ساتھ سات گھنٹے۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

یہ ایک انہونی تھی۔میں اس سفر کو کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔ یہ نعمت بن کر میرے اوپر نازل ہوا،ایسا انوکھا سفر ایک مرتبہ پہلے بھی پیش آیا، میں نیپال سے واپسی کے لئے پی آئی اے کے جہاز میں سوار ہو نے لگا تو ایک اجنبی نوجوان نے سیڑھیوں پر مجھے روک لیا، میں اسے نہیں جانتا تھا، تعارف ہوا کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کاایک افسر تھا جو نوبل انعام یافتہ پاکستانی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کو الوداع کرنے آیا تھا۔ میں نے ا س کا ہاتھ پکڑا اور واپس جہاز میں لے گیا، میں نے کہا کہ ڈاکٹرصاحب سے ملاقات چاہتا ہوں، مصیبت یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب فرسٹ کلاس کے مسافر تھے اور میں تھرڈ کلاس کی سیٹ پر بیٹھا تھا، پہلے تو ڈاکٹر صاحب سے بات کی ، انہوں نے ملنے کی ہامی بھر لی، پھر جہاز کے عملے کو بتایا کہ میں نوائے وقت کے لئے ڈاکٹر صاحب کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں، جہاز کے عملے کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا،اس لئے کہ فرسٹ کلاس میں صرف ایک مسافر تھا ، باقی سیٹیں خالی پڑی تھیں،ایک دشواری یہ پیش آئی کہ میرے پاکٹ ٹیپ ریکارڈر کے بیٹری سیل ایئر پورٹ پر چیک اِن کاؤنٹر پر نکلوا لئے گئے تھے، تو سیل کہاں سے لیتا، سارے جہاز میں نظر ڈالی، ایک لڑکا واک مین سے کھیل رہا تھا،اورا س کے سیل بھی اس میں موجود تھے،اس سے ادھارے مانگے اور یوں میں نے کٹھمنڈو سے کراچی تک ڈاکٹر صاحب کا ایک تفصیلی انٹرویو کر لیا جو نوائے وقت سنڈے میگزین میں چھپا۔
کچھ ایسا ہی اتفاق گزشتہ جمعہ کے روز ہوا جب میاں عبدالمجید نے مجھ سے کہا کہ میں ان کے ساتھ ان کے گاؤں کلاسکے تک چلوں، گاؤں میں تقریب کا احوال مختصر لکھ چکا ہوں مگر یہ سات گھنٹوں کی باتوں پر تو محیط نہ تھا۔ میاں عبدالمجید نے مجھے آواری ہوٹل سے لیاا ور وہیں واپس اتارا، جانے اور آنے میں چار گھنٹے لگے اور سکول میں تین گھنٹے صرف ہوئے، گاڑی میں سفر کے چار گھنٹوں کے دوران ہماری دنیا جہاں کے ہر موضوع پر بات ہوئی۔انہوں نے پوچھا کہ ہم لوگ اپنے گاؤں میں کیا کاشت کرتے ہیں، میں نے کہا ، بچپن میں وہاں ہر طرف سیم کا پانی کھڑا رہتا تھا۔ اس لئے صرف چاول کی ایک فصل ڈھنگ سے کاشت ہوتی تھی، اب بانس ہیں،مکئی ہے، آلو ہیں، ہلدی ہے، امرود ہیں، گندم تو ہے ہی، ضرورت کے لئے سبزیاں بھی ہیں ۔ کہنے لگے کہ میں قصور کا دورہ کر چکا ہوں ، ہلدی کے امکانات کا جائزہ لینے گیا تھا مگر آپ لوگ ابھی تک ہلدی کو بھوننے کے لئے صدیوں پرانے دقیانوسی طریقے استعمال کرتے ہیں، اگر ماڈرن طریقے آزمائیں تو میری کمپنی آپ کے کسانوں سے براہ راست سودا کر سکتی ہے، مڈل مین اور آڑھتی کے خاتمے سے کسان کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا، مکئی کے کاشت کار بھی رفحان کمپنی کو براہ راست فصل فروخت کرتے ہیں۔رقم سیدھی ان کے بنک اکاؤنٹ میں آ جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ اپنی ٹیکنیکل ٹیم ہمارے علاقے میں بھیجیں گے جو ماڈرن طریقوں کے بارے میںآ گاہی دے گی۔
ہلدی کا ذکر یہاں ختم ہوا تو بات اقبال اور یوم اقبال کی طرف چلی گئی، انہوں نے حیران کر دیا کہ وفاق اور پنجاب نے یوم اقبال پر چھٹی نہیں کی مگر سندھ کے اسکولوں میں یوم اقبال کی تعطیل ہوئی ہے البتہ یوم قبال کی تقریبات کے لئے تمام سکولوں نے اہتمام کیا تھا، میں نے انہیں یاد دلایا کہ اقبال کے ساتھ ایسا ہی سلوک بھٹو صاحب نے بھی کیا تھا جب یوم اقبال پر چھٹی صرف ضلع سیالکوٹ میں ہوئی تھی۔ اقبال ہندی اور اقبال فارسی کو اقبال سیالکوٹی تک محدود کرد یا گیا تھا۔ میاں صاحب نے کہا کہ کراچی اور اندرون سندھ کچھ سکولوں میں خود وہ شرکت کے لئے گئے تھے،جہاں بچوں نے اقبال کی نظمیں گائیں مگر اقبال کوئز بڑا دلچسپ مقابلہ تھا۔ اقبال ہی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مشہور تو یہ ہے کہ علامہ اقبال نے قائد اعظم کو لندن سے واپسی کے لئے کوئی خط لکھا، حالانکہ جدید تحقیق کی رو سے یہ بات درست نہیں، میں اس موضوع کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا،ا س لئے یہ بحث آگے نہ بڑھی مگر میں نے کہا کہ اگر یہ واقعہ غلط العام ہے تو اس کی تصحیح کی ضرورت ہے۔ یہاں سے میاں عبدالمجید نے برطانیہ میں جناح چیئر کا ذکر چھیڑا جس کے قیام کے لئے ایک عرصے سے کوششیں جاری ہیں مگر بات کسی سرے نہیں چڑھتی، اس میں کیا رکاوٹ ہے، پاکستان کو اس کے لئے زیادہ تگ و دو کرنی چاہئے۔ میں نے کہا کہ جو کچھ سننے میں آیا ہے، لندن اسکول آف اکنامکس ( ایل ایس ای) کا ایک وفد سال کے شروع میں پاکستان آیا تھا، اس میں اسکول کے چیئرمین پروفیر کریگ کلہو ن خود بھی شامل تھے مگر دو ہندو پروفیسر بھی ان کے ہمراہ تھے، پروفیسر کریگ نے وزیر اعظم نوازشریف کے ساتھ ملاقات میں پیش کش کی تھی کہ وہ بانی پاکستان قائد اعظم کی خدمات کے پیش نظر جناح چیئر قائم کرنا چاہتے ہیں جس کے سربراہ ایک پروفیسر کی سطح کے محقق ہوں گے، اس ضمن میں ایل ایس ای کے سربراہ نے وزیر اعظم کو کالج کے دورے اور خطاب کی دعوت بھی دی مگر لگتا ہے کہ وفد میں شامل ہندو ارکان کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھی یا پھر وزیر اعظم اس پیش کش کی پیش رفت کے لئے وقت نہیں نکال سکے، میاں عبدالمجید نے کہاکہ جو بھی صورت ہے، اس کی تحقیق ہونی چاہئے اور ہمیں اس پیش کش کو عملی جامہ پہنانے کی صورت نکالنی چاہئے ۔میں نے کہا کہ میاں صاحب ! ڈاکٹر رفیق احمد مانچسٹر دور کے آپ کے ساتھی ہیں، اس وقت نظریہ پاکستان میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں، ان کی نظر تمام حالات پر ہو گی ، آپ ان کی بھی مدد حاصل کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ لندن اسکول آف اکنامکس میں جناح چیئر کے قیام کا خواب حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔یہ بات تو اپنی جگہ پر مگر ہمیں قائد اعظم کے بارے میں تمام دستیاب مواد کو انٹرنیٹ پر تو پیش کرنا چاہئے تاکہ نئی نسل اس سے کما حقہ مستفید ہو سکے اور بانی پاکستان کی زندگی کا ہر گوشہ لوگوں کے سامنے آ سکے۔میں تو اپنے مرشد محترم مجید نظامی سے آخری بار ملا تھا تو یہی بات زیر بحث آئی تھی کہ کم از کم ہمیں قائد اعظم پر ایک مستند سوانح عمری تو مرتب کروا لینی چاہئے ،ا س کے لئے محققین کا ایک بور ڈ آف ڈائریکٹرز بنایا جا سکتا ہے ، جس طرح پنجاب یونیورسٹی نے دائرہ معارف اسلامیہ کا عظیم الشان پراجیکٹ مکمل یا ہے، انہی خطوط پر قائداعظم پر بھی مبسوط کتاب مرتب کی جانی چاہئے۔اس کے ساتھ ساتھ جو کتابیں لکھی جا چکیں اور اب ناپید ہیں ، ان کی اشاعت کا بھی انتظام ہونا چاہئے۔میاں صاحب نے اس تجویز سے اتفاق کیااور یہ بھی کہا کہ اس کام کے لئے ہمیں حکومت کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے ۔ کچھ کام اہل علم کے کرنے کے ہوتے ہیں، سرمایہ کی ضرورت ہے تو ملکی تاجرا ور صنعتکار پیش پیش ہوں گے۔
میں نے ان کے کاروبار کے بارے میں ایک تجویز دی کہ آپ ہر نوع کے مصالحے ا ور چٹپٹے کھانے تیار کرنے کی مہارت رکھتے ہیں مگر دنیا میں اس وقت شوگرا ور بلڈ پریشر کا مرض بڑھ رہا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ شوگر فری ا ور سالٹ فری کھانے تیار کریں جنہیں انسان سفرکے دوران ا ستعمال کر سکے۔میاں صاحب نے بتایا کہ شوگر فری ریسی پیز تو موجود ہیں مگر ہم نے تو گوروں کو ذائقے دار، مرچ مصالحے کی طرف راغب کر کے پاکستانی کھانوں کا رسیا بنایا ہے، آپ ہماری یہ پہچان کیوں چھیننا چاہتے ہیں۔اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ میرا پاکستان تکہ بوٹی، ٹکا ٹک، بونگ، اچار گوشت ، نہاری مغز، پائے، سجی، اور نجانے کس کس کھانے کا خود بھی رسیا ہے ا ور غیروں کو بھی ہم ، اپنی فوڈ اسٹریٹوں ،ایم ایم عالم روڈوں ، شاہی خیموں میں کھینچ لائے ہیں ، اس سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ یہ تو ہمارا طرہ امتیاز ہے۔
سات گھنٹوں کی گفتگو سے میں نے پیٹ بھرنے کی کوشش تو کر دیکھی مگرگھر پہنچا تو بھوک سے نڈھال ہو کر چارپائی پر گر پڑا۔
اب میرے ہاتھ میں میاں عبدالمجید کی خود نوشت’’امید آشنا‘‘ہے، اسے باریک بینی سے پڑھنے کی ضرورت ہے یہ صلاحیت میرے اندر نہیں ،یہ قدرت کا ایک عطیہ ہے جس سے محروم ہوں۔ میاں صاحب سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوئے، ان کے والد کلاسکے اسکول میں پانچ روپے پر استاد مقرر ہوئے تھے ، میاں عبدالمجید نے زقندیں ضرور بھریں مگر سہجے سہجے، ہولے ہولے!!ذرا مجھے کتاب دیکھ لینے دیجئے۔یااسے سونگھ لنے دیجئے۔