خبرنامہ

اِدھر جا اُدھر جا‘ آصف جاہ۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

یہ لطیفہ نہیں ، نہ کوئی مذاق کی بات،بلکہ سامنے کی حقیقت ہے۔ڈاکٹرآصف جاہ یہاں وہاں ہر جگہ گئے۔اب بیرون وطن بھی جا پہنچے ہیں۔ پاکستان سے ترکی میں موجود شامی مہاجرین کے لئے امداد لے جانے والوں میں اولیت اور سبقت حاصل کر لی۔
مجھے بوسنیا کا سانحہ یاد آگیا، نوائے وقت میں مستقل لکھنے والے ، نعت گو، ادیب اور قلم کار ع۔ س۔ مسلم ایک دفعہ لاہور تشریف لائے، وہ شارجہ میں بزنس کیا کرتے تھے، انہوں نے اپنی شاعری سنائی، دنیا بھر میں گھومنے پھرنے کی حکایت لذیذ بیان کی ا ور اچانک بوسنیا کے مسلمانوں کی ابتلا کا ذکر شروع کر دیا، یوگو سلاویہ کی افواج ان کا قتل عام کرنے میں مصروف تھیں اور عالمی برادری خاموش تماشائی بنی بیٹھی تھی، مسلم صاحب نے اپنی ٹوپی اتاری اور حاضرین کے سامنے پھیلا دی کہ جو کوئی بوسنیا کے مجبو ر و مقہور مسلمانوں کی مد دکرنا چاہتا ہو، وہ حسب توفیق ان کی ٹوپی کی نذر کر دے، اس موقع پر جو رقم جمع ہوئی، ہم اسے بھول بھال گئے مگر کوئی زیادہ وقت نہ گزرا ہو گا کہ شارجہ سے ایک خط موصول ہوا جس مین ہماری جمع کردہ رقم کی عربی زبان میں ایک رسید تھی۔ مسلم صاحب یہ حقیر رقم بوسنیا پہنچا چکے تھے اور ہمیں خوش خبری سنا رہے تھے کہ ہم نے بھی اس نیکی میں پہل کی ۔ اوریہ اپنی منزل تک پہنچ بھی گئی۔
شمالی علاقوں میں زلزلہ آیا ، پھر پاکستان میں سیلاب نے تناہی مچائی، ایک بار نہیں کئی بار، تھر میں موت نے رقص کیاا ور بچے بھوک ، پیاس اور بیماری سے مرنے لگے ، اواران میں زلزلے نے تباہی مچائی تو ڈاکٹر آصف جاہ نے متاثرین کی امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی این جی او کسٹمز ہیلتھ کیئر نے مختصر عرصے میں نا م کمایا اور اپنے سربراہ کو ستارہ امتیاز کے اعزاز کے قابل بنایا۔
کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ آصف جاہ سرحدوں کے باہر بھی جا پہنچیں گے۔ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا کی عملی تفسیر دیکھنی ہو تو آصف جاہ کی زیر ترتیب کتاب کی اشاعت کا انتظار کیجئے۔یہ سفر ترکی کے تذکرے پر مشتمل ہو گیْ
آصف جاہ کوئی دو ہفتوں کے سفر ترکی سے واپس آچکے ہیں،وہ ترکی میں قیام کے دوران اس کے تین شہروں میں گئے ا ور شامی سرحد تک بھی پہنچے، انہوں نے برستی گولیوں کی پروا نہیں کی اور شامی مہاجرین کے قافلوں کو گلے لگایا۔
ترکی میں شام کے مہاجری کی تعداد بیس لاکھ بتائی جاتی ہے مگر نجی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد چالیس لاکھ بھی ہو سکتی ہے۔ ترک عوام کو داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ بہت کم مہاجرین کیمپوں میں موجود ہیں ، نناوے فی صد مہاجرین، ترکوں کے گھروں میں آباد ہیں ، مواخات مدینہ کی یاد تازہ کر دی گئی ہے۔ جو مہاجرین کام کر سکتے ہیں ، انہیں دکانیں بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔مقامی ا ور مہاجر کی کوئی تمیز نہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ شامی مہاجرین اورترک عوام بھائی بھائی ہیں اور بالکل مقامی آبادی کے ساتھ گھل مل گئے ہیں ، بس زبان کا فرق ہے اورہزاروں استاد انہیں ترکی زبان سکھانے پر مامور ہیں۔
بندہ ترکی جائے اور اپنے عمومی مشاہدات نہ سنائے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے، یہ مرحلہ شروع ہوا تو وحید رضا بھٹی نے اس میں زیادہ حصہ ڈالا کہ وہ اپنی سرکاری حیثیت میں کئی بار ترکی جا چکے تھے، اب تو ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن ملازمت کے دوران پاکستانی بر آمدات میں ا ضافے کے لئے انہوں نے بھر پور کوشش جاری رکھی، اسی مقصد کے لئے ترکی بھی آتے جاتے رہے اور ترک معاشرے کے انقلابی پہلووں سے بے حد متاثر ہوئے۔انہوں نے وہ ترکی بھی دیکھا ہے جب کسی کو وہاں ڈاڑھی رکھنے اور حجاب پہننے کی اجازت نہ تھی ، اب اردوان کی آمد کے بعد صورت حال بدل چکی ہے ، اگرچہ ترک مرد اور عورت مغربی لباس کے دلدادہ ہیں لیکن مسجد پہنچتے ہی خواتین عبا اوڑھ لیتی ہیں۔
آصف جاہ نے بتایا کہ ترک عوام کی اکثریت اردوان سے محبت کرتی ہے اور فوجی بغاوت کو ناکام بنانے میں انہوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔کسی اسلامی ملک میں ترقی دیکھنی ہو تو ترکی کو دیکھئے۔صفائی قابل رشک، نظم و ضبط بے مثال۔جدید تریں بسیں اور ٹرینیں، آبنائے فاسفورس پر ویسی ہی زیر آب سرنگ جیسے فرانس اور برطانیہ کے درمیان رود بار انگلستان میں بنائی گئی ہے۔ترکی یورپ کا حصہ ہے مگر عالم ا سلام کے ساتھ اس کے رشتے محکم تر ہیں۔ مسجدوں کے ڈیزائن ، مسجد نبوی سے ملتے جلتے۔ کوک اور پیپسی کے بجائے قومی مشروب لسی ہے، ٹھنڈی اور نمکین لسی ہر جگہ دستیاب ہے۔
ترکی کبھی کسی کا غلام نہیں رہا، پاکستان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، تحریک خلافت کی ٰیادیں لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں، کئی ترک کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلا بنک بر صغیر کے مسلمانوں کے چندے کی مددسے بنایا۔
آصف جاہ کچھ عرصہ قبل چین کے ایک سرکاری دورے پرگئے تھے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آصف جاہ گھر سے باہر قدم رکھیں اور سفرنامہ نہ سرزد ہو جائے، ان کا بہترین سفرنامہ اللہ کعبہ ا ور بندہ ہے جو ان کے سفر حج کی روداد ہے، اس کتاب کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اب تو ا سکا انگریزی میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے، دونوں کتابیں انٹرنیٹ پر مطالعہ کی جاسکتی ہیں یا ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ آصف جاہ کی تازہ تریں کتاب ان کے سفر چین سے متعلق ہے۔ اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ روز مرہ کی گفتگو کے لئے چینی زبان کا ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ کتاب کا نام ہے دیکھا ہم نے چین۔ڈاکٹر صاحب نے بڑی عنائت فرمائی کہ سب دوستوں کو ایک ایک نسخہ پدیہ کیا، خالد محمود سلیم کو یہ کتاب ملی توا نہوں نے برجستہ کہا کہ وہ تو اس کتاب کے منتظر ہیں جس کا عنوان ہو:دیکھا ہم نے چَین۔اس ایک فقرے سے ہر پاکستانی کے دلی اضطراب کا اظہار ہوتا ہے جو وطن عزیز کے تشویشناک حالات کی وجہ سے ہر پاکستانی کو لاحق ہے۔
ڈاکٹر آسف جاہ کو چَین نصیب نہیں ، وہ آنے والے رمضان میں پھر ترکی جانے کے لئے پر عزم ہیں اور پر تول رہے ہیں، تاکہ شامی مہاجریں کو رمضان پیکیج پیش کر سکیں، ان کا ارادہ ہے کہ کم از کم پانچ سو یتیم بچوں کی کفالت اور پانچ سو ہی مہاجر خاندانوں کی ضروریات کی اشیا لے کر جائیں گے۔دعا ہے کہ اللہ انہیں اپنے ارادوں میں کامیاب فرمائے۔
چین اور ترکی پاکستان کے ایسے قریبی دوست ہیں جن پر ہم آنکھیں بند کر کے اعتماد کر سکتے ہیں۔چین میں حالیہ ون بیلٹ ون روڈ سمٹ نے پاکستان اور چین میں قربت کے رشتوں کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اسی طرح ترکی بھی پاکستان کابے مثال دوست ہے، ڈاکٹرآصف جاہ نے ان دونوں ملکوں کی سیاحت کے بعد جو کچھ لکھا ہے ، اسے پڑھ کر پاکستانیوں کے دل و دماغ میں چین اور ترکی کے لئے دوستی اور محبت کے رشتے مستحکم تر ہوں گے۔سر دست آپ کے اندر شامی مہاجرین کی امداد کے لئے تڑپ پیداہونی چاہئے۔