خبرنامہ

آر ٹی ایس کسی وقت بند نہیں ہوا….اسداللہ غالب

آر ٹی ایس کسی وقت بند نہیں ہوا

میں چند روز قبل اپنے کالم بعنوان ٹیکنالوجی کی دھاندلی میں واضح کر چکا ہوں کہ نادرا کا بنایا ہوا آر ٹی ایس کسی وقت بند نہیں ہوا۔اس کے بند ہونے کی خبر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے نصف شب کی پریس بریفنگ میں اڑائی، کیوں اڑائی ، اس کی وجوہات معلوم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کسی وقت بھی یہ وضاحت نہیں کہ انہوںنے سسٹم بنانے والے ادارے نادرا کو اس کے فیل ہونے کی شکائت زبانی یا تحریری طور پرکی ہو اور اگر کی بھی تھی تو یہ نہیں بتایا گیا کہ نادرا اس سسٹم کو دوبارہ چالو کرنے میں کامیاب رہا یا ناکام۔ میں سمجھتا ہوں کی الیکشن کمیشن نے اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے آر ٹی ایس کے بند ہونے کی افواہ اڑائی۔ الیکشن کمیشن نے نتائج میں تاخیر کے لئے رات بھر نت نئے بہاننے تراشے اور کئی حربے استعمال کئے ۔ کبھی امیدواروں کی طرف سے کہا گیا کہ ان کے پولنگ ایجنٹوں کو زبردستی باہر دھکیل دیا گیا، کبھی یہ شکائت سامنے آئی کہ فارم 45 نایاب ہو گیا ہے ، سیکرٹری صاحب نے کہا کہ جس کو فارم پینتالیس درکار ہے وہ ان سے لے سکتا ہے۔ بھئی۔ ان سے کیوں لے۔ریٹرننگ افسر سے کیوںنہ لے ، الیکشن کمیشن نے آج تک یہ وضاحت نہیں کہ اس بار مستردووٹوں کی شرح زیادہ کیوں ہے اور مخصوص ووٹوں کو کیوں خراب کیا گیا ہے اور ان پر دو تین ٹھپے اور کیوںلگادیئے گئے ہیں ،یہ ایک ایسی حرکت ہے جس کے مجرم کو پکڑنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے سوائے اس کے کہ پریذائڈنگ افسروں کے سر پہ لگے کیمروں کی وڈیو فلم منظر عام پر لائی جائے۔الیکشن کمیشن نے اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا کہ اس بارتو آرٹی ایس کا تنازعہ کھڑا کر دیا گیا مگر پچھلے الیکشن میں دھاندلی کا جو الزام ہر سیاسی پارٹی نے لگایاتھا اسوقت تو آر ٹی ایس نہیں تھا ، پھر الیکشن کمیشن نے اس جھرلو کی ذمے داری کس پر ڈالی تھی۔سچی بات یہ ہے کہ الیکشن کمشن اپنی خراب کارکردگی کو چھپانے کے لئے قربانی کا کوئی بکرا تلاش کر رہا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ نادرا کا شاید کوئی والی وارث نہیں ۔اس لئے اسے آسانی کے ساتھ ہدف بنانے کی کوشش ہو رہی ہے مگر نگران حکومت ان تمام الزامات کی تحقیقات کا حکم دے چکی ہے اور عوام پر ساری حقیقت کھل جائے گی کہ آر ٹی ایس کسی لمحے بند نہیں ہوا ، اگر الیکشن کمیشن نے اپنے ریٹرننگ افسروں کو یہ ہدایت جاری کر دی ہو کہ وہ نتائج بھیجنا بند کر دیں اور امید واروں سے کہیں کہ آر ٹی ایس کے بندہونے سے نتائج بھیجنے کا عمل رک گیا ہے، تو اس کا سراغ فون کالز کے فرانزک ٹیسٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔ بہر حال فن کاری چھپی نہیںرہ سکتی۔
بد قسمتی سے ہمارے سیاست دان ٹیکنالوجی سے بے بہرہ ہیں۔ اور وہ الیکشن دھاندلی کو روکنا بھی نہیں چاہتے اس لئے کئی ماہ تک انتخابی اصلاحات کے لئے کمیٹیوں کے اجلاس پر اجلاس ہوتے رہے۔ ٹیکنیکل اداروں نے ہر کمیٹی میں تجویز دی کہ ووٹنگ کے لئے ٹیکنالوجی استعمال کی جائے۔ امریکہ اور بھارت کی طرح ووٹنگ کا عمل مشینی کر دیا جائے۔ دھاندلی کو روکنا مقصود ہوتا تو بائیو میٹرک سسٹم استعمال کیا جا سکتا تھا مگر سیاستدانوں کا کہنا تھا کہ دو اڑھائی لاکھ مشینوں کی خریداری پر اربوں روپے درکار ہیں جو پاکستان کا خزانہ فراہم کرنے سے قاصر ہو گا۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ بائیو ،میٹرک طریقے سے ووٹنگ کرائی جاتی تو دھاندلی کی ایک بھی شکائت سامنے نہیں آ سکتی تھی ۔ میرے بڑے بھائی ووٹ ڈالنے کے لئے پریذائیڈنگ افسر کے پاس گئے تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ توو ٹ ڈال چکے ہیں۔میرے بھائی نے کہا کہ آپ کے کاغذوں پر نہ تو یہ میرا انگوٹھا ہے اور نہ میرے دستخط ، اس پر افسر صاحب نے کہا اچھا ا ٓپ بھی ووٹ ڈال لیں ، اس اٹکل پچو سسٹم کو بروئے کار لایا جائے تو سوشل میڈیا اس طرح کے لطیفے ضرور گھڑے گا کہ ایک بوڑھا آدمی وو ٹ ڈالنے گیا توا سنے پوچھا کہ کیا میری بیوی ووٹ ڈال گئی ہے، الیکشن عملے نے کہا یہ تو آپ اپنی بیوی سے پوچھیں،۔ بوڑھے نے کہا کہ میری بیوی پندرہ برس قبل فوت ہو چکی ہے مگر ہر بار پتہ چلتا ہے کہ وہ قبر سے اٹھ کر ووٹ ڈال گئی ہے۔کہیئے جناب ! کیا یہ آر ٹی ایس کا کرشمہ ہے۔ یا سراسر بد نیتی اور دھاندلی۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اگر الیکشن شفاف کروانے کے لئے بائیو میٹرک طریق کار اپنایا جا تا تو عمران خان کو آزاد ارکان کے در پہ دستک نہ دینا پڑتی ۔ اس نے جس انداز سے الیکشن مہم چلائی تھی اس کے پیش نظر اسے بڑی آسانی سے دو تہائی اکثریت مل سکتی تھی۔ مگر اب عمران خان کی پارٹی بھی آر ٹی ایس کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ گئی ہے اور اسے اندازہ ہی نہیں کہ اسکے ساتھ کیا باریک کام کیا گیا ہے۔ ایک ہنگ پارلیمنٹ نہ عمران خان کے کسی کام کی ہے نہ اس سے ملک کو کوئی فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہ تو طوائف الملوکی ،مویشی منڈی اور ہارس ٹریڈنگ کا راستہ کھولنے کے متراف ہے۔
الیکشن کمیشن بتائے کہ بالفرض آر ٹی ایس بند ہو گیا تھا تو ریٹرننگ افسروںنے موقع پر نتائج جاری کیوں نہیں کئے ۔ نتائج تو ان کی میز پر تھے۔ آر ٹی ایس کے کمپیوٹر سے تو انہوںنے نہیں نکالنے تھے۔ میں الیکشن کمشن کی بازی گری پر یہی کہہ سکتا ہوں کہ اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکائت ۔
آدھی رات کو میاں شہباز شریف بھی چلا رہے تھے کہ ریٹرننگ افسر ریزلٹ دینے سے انکاری ہیں، عین اسی وقت شیری رحمن بھی سراپا فریاد تھیں کہ فارم پینتالیس نہیں دیا جا رہا۔ یہ فارم کسی آر ٹی ایس سے تو نہیں نکالا جانا تھا۔ اس کے پلندے ریٹرننگ افسروں کی میزوں پر دھرے تھے اور یہ وہیں دھرے کے دھرے رہ گئے حتیٰ کہ ہر پارٹی کے ساتھ ہاتھ ہو گیا، جیتنے والے بھی پریشان اور ہارنے والے بھی حیران۔
میں صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ الیکشن نتائج میں بد نظمی کی ذمے داری بے چارے الیکشن کمشن پر بھی نہیں ڈالی جا سکتی ا سلئے کہ اس کے ارکان مستقل طور پر اپنے مناصب پر فائز نہیں ہوتے، بس الیکشن سر پہ ا ٓ جائے تو کسی فخرو بھائی کوپکڑ کر کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے جو پاک فوج کے سربراہ جنرل کیانی کو سامنے بیٹھے ہوئے بھی نہیں پہچان سکتا۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کمشن ٹیکنالوجی سے بے بہرہ ہے۔ یہ ادارہ انگلیوں پر تووو ٹوں کی گنتی کر سکتا ہے مگر کسی ایڈوانس کیلکو لیٹر کا استعمال بھی اسے نہیں آتا۔ الیکشن کمشن میں بھی ایک ا ٓئی ٹی کی ٹیم ضرور ہو گی ۔ یہ کس کام کی کہ اگر وہ آر ٹی ایس کو چالو نہ رکھ سکے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ ایک معمولی ایپلی کیشن کو استعمال کرنا تھا۔ پانچ سال کے بچے موبائل فون پر اس سے زیادہ پیچیدہ گیمیں کھیلتے ہیں۔الیکشن کمیشن کی آئی ٹی ٹیم نے خلا میں کسی راکٹ کی پرواز کو مانیٹر نہیں کرنا تھا مگر جب انسان خود ٹیکنالوجی سے نا بلد ہو تو وہ بے پر کی اڑا دیتا ہے کہ فلاں سسٹم نے کام نہیں کیا، کیسے نہیں کیا۔ اگر یہ سسٹم بند ہو گیا تھا تو اسی وقت نادرا کو اربوں روپے ہرجانے کا نوٹس کیوں جاری نہ کیا گیا۔
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر۔
مگر صاحب ! جب مسئلہ ٹیکنالوجی کاہو تو چور مچائے شور کے مصداق آپ چیخ چیخ کر آسمان بھی سر پہ اٹھا لیں تو آپ سچے ثابت نہیں ہو سکتے۔ ضرور کروایئے تحقیقات، ٹیکنالوجی گونگی نہیں ہے اور دنیا میں نادرا کی فنی صلاحیتوں کا لوہا مانا جاتا ہے۔ تحقیقات سے ثابت ہو جائے گا کہ آر ٹی ایس کے بند ہونے کا الزام محض جھوٹ ہے، فریب ہے۔ آر ٹی ایس بندہو جائے تو یہ اندھے قتل کی واردات نہیں بلکہ ٹیکنالوجی نے ایک ایک لمحے کا ریکارڈ محفوظ کر رکھا ہے۔اس ریکارڈ پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چل جائے گا کہ نادرا کا سسٹم فیل نہیں ہوا، محض یہ گپ اڑائی گئی۔کیوں اڑائی گئی ،البتہ اس کی تحقیقات ضروری ہے۔