خبرنامہ

آزاد امیدواروں کا پلڑہ۔ الیکشن کائونٹ ڈائون….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آزاد امیدواروں کا پلڑہ۔ الیکشن کائونٹ ڈائون….اسد اللہ غالب
کیا میں پولنگ سے صرف چوبیس گھنٹے پہلے بڑی پارٹیوں سے مایوس ہو گیا ہوں۔ لگتا تو یہی ہے، میں جو آخری الیکشن تجزیہ آزاد امیدواروں پر لکھنے بیٹھا ہوں تو ظاہر ہے میری رہی سہی امیدیں انہی سے وابستہ ہیں کیونکہ انہوںنے جدھر اپنا وزن ڈال دیا، وہی پلڑہ بھاری ہو جائے گا اور ملک کی باگ ڈور انہی کی وجہ سے کسی کے ہاتھ میں جائے گی ورنہ سارے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ آزاد امیدوار ، آزاد رہ کر الیکشن کیوں لڑتے ہیں۔آزاد امیداور بننا ایک عشق ہے، ایک جنون ہے اور ایک راز جو کسی کسی کی سمجھ میں آ سکتا ہے، بھاری بھر کم پارٹیوں کے سامنے میدان میں اُترنا دل گردے کا کام ہے اور یہ کام وہی کرتے ہیں جن کے حوصلے ہوں زیادہ۔ جو بہائو کے الٹ تیرنے اور موجوں سے لڑنے بھڑنے کے ہنر سے آشنا ہوں۔
توقع یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح حکومت سازی کا مرحلہ اس بار بھی آزاد امیدواروں کے بغیر طے نہیں ہو سکتا۔ میںنے اس موضوع پر لکھنے سے قبل آزاد سیاست کے آئن سٹائن اور جوڑ توڑ سیاست کے شناور میاں منظورو ٹو سے بات کرنا ضروری سمجھا، وہ مجھے کہیں آدھی رات کے ہنگام میں دستیاب ہو سکے۔اور مجھ سے گفتگو کے بعد وہ پھر کسی میٹنگ میں جا بیٹھے۔ یہ لمحے بڑے نازک ہیں، جس طرح کوئی طالب علم کمرہ امتحان میںداخل ہونے سے قبل کتاب کے اوراق تیزی تیزی سے پلٹتا ہے، اسی طرح الیکشن کے امیدوار بھی آخری لمحات کو غنیمت سمجھتے ہیں اور کوئی کسر باقی نہیں رہنے دینا چاہتے۔
میاں منظوروٹو کی یہ بات میرے دل کو لگی کہ فیصلہ کرنے کا وقت آئے گا تو وہ ملک و قوم کے مفاد میں فیصلہ کریں گے، جمہوری استحکام کے لئے فیصلہ کریں گے ۔میاں منظور وٹو میرے اس خیال کے حامی نکلے کہ آزاد امیدوار اتنی تعداد میں ضرور جیت کر اسمبلیوںمیں پہنچیں گے کہ وہ اصل بار گینگ پاور کے مالک ہوں گے اور کوئی سیا سی قوت انہیں نظر انداز کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکے گی۔یہ بھی ہمارے درمیان اتفاق رائے تھا کہ کوئی بیس کے قریب لوگ آزاد حیثیت سے کامیاب ہو سکتے ہیں۔
عام طور پر آزاد ارکان مویشی منڈی میں بولی لگواتے ہیں مگر میاں منظور وٹو کو اس خیال سے ہی نفرت ہے ، اس نفرت کا انہوں نے کھل کر اظہار کیا۔
مگر ہر کوئی تو میاں منظوروٹو بن کر نہیں سوچتا۔چند ماہ قبل سینیٹ کا الیکشن ہوا تو ہارس ٹریڈنگ نے کمال دکھایا اور ا سکے بعد چیئر مین سینیٹ کے انتخاب میں تو حیران کن کھیل دیکھنے کو ملا۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک دوسرے کی تکا بوٹی کرنے پر تلی رہتی ہیں مگر انہوں نے شیرا ور بکری کی طرح ایک ہی گھاٹ پر پانی پیا۔ انہیں اپنے فعل پر ندامت نہیں ، فخر محسوس ہو رہا تھا۔ کہ انہوں نے مسلم لیگ ن کے سارے ارمان اور خواب چکنا چور کر دیئے تھے۔ مسلم لیگ ن کے رہے سہے خواب بھی کچھ
قوتیں چکنا چور کرنے میں مصروف ہیں مگر ان کانام لیا جائے تو وہ غصہ کرتی ہیں ۔ یعنی ایک کام کرنے میں کوئی قباحت نہیںمگر کوئی ا سکی نشاندہی کر دے تو بہت قباحت محسوس ہوتی ہے،حیرت ہے کہ یہ کام کھلے عام ہو رہا ہے اور دن دہاڑے ہو رہا ہے۔ویسے قصور میں زینب اور تیرہ مزید بچیوں کی عصمت دری اور وحشیانہ قتل کے مجرم کا ہم نے کیا بگاڑ لیا۔ ہم نے تو کراچی میں قتل عام کے مجرم رائو انوارکو بھی ضمانت پر رہا ہوتے دیکھ لیا۔ یہ شخص مفرور تھا اور پھر باقاعدہ مذاکرات کے بعد گرفتار ہوا، ایئر پورٹ پر ایان علی ڈالروں کی گٹھری اسمگل کرنے کی کوشش میں پکڑی گئی، اس کا تفتیشی افسر قتل کر دیاا ور ایان علی وکٹری نشان بناتے جیل سے رہا ہو گئی، ہماری ساری سزائیں مخصوص سیاستدانوں کے لئے ہیں ۔ہم نے لیبیامیں ایک کھیل دیکھا کہ کس طرح کرنل قذافی کو گھیر کر نشانہ بنایا گیا، ہم نے مصر میں حسنی مبارک کو ایک پنجرے میں عدالت جاتے دیکھا، ہم یہی منظر پاکستان میں دہرانا چاہتے ہیں۔
مجھے میاں منظور وٹو کی یہ بات سن کر اطمینان ساہوا کہ وہ جیت کرملک و قوم کے مفاد کو مقدم جانیں گے۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات تھی، یہ سن کر میرے ذہن میں کئی کہکشائوں کا نور پھوٹ پڑا اور میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ کرے، ایسا ہی ہواور جو کچھ ہو، اس سے ملک وقوم کا بھلا ہو۔
اس وقت آزاد امیدواروں کی فوج ظفر موج الیکشن لڑ ر ہی ہے ۔ میںنے فوج ظفر موج کا لفظ محاورے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس سے مراد فوج نہ لی جائے۔ ویسے ٹی وی ٹاک شوز میں پروپیگنڈہ کیا گیا کہ جیپ کا نشان لینے کے لئے مخصوص لوگ فون کالیں کر رہے تھے۔ چلئے یہ تو افواہیں ہو سکتی ہیں مگر قصور شہر میں تو کسی فوجی افسر کے لکھے ہوئے ایک خط کا تنازعہ منظر عام پر آ گیا جس پر جی ایچ کیو کو کہنا پڑا کہ یہ ایک انفرادی واقعہ ہے۔ فوج کی پالیسی نہیں۔ اس خط میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں سے کہا گیا تھا کہ وہ ن لیگ کی ٹکٹیں واپس کر دیں اور جیپ کا نشان لیں۔ نشانوں کے سلسلے میں ایک سوال اسوقت بھی پیدا ہوا جب نشان لینے کے لئے مدت میں ایک روز کی توسیع کر دی گئی۔ اس سے کن لوگوں کو فائدہ پہنچانا مقصود تھا،۔ کسی کوتو ہو گا، ورنہ اتنا بڑا فیصلہ میرے یا آپ کے لئے کون کرتا ہے۔کبھی الیکشن کمیشن کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کیاگیا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا،ا س ملک میں ایک آئی جی قربان نے پہلے پہل ڈنڈہ چلایا تھا، اسی ملک میںآئی جے آئی بنائی گئی، اسی ملک میں سر عام سیاستدانوں کو الیکشن لڑنے کے لئے پیسہ دیا گیا،۔ یہ کیس اصغر خان کے نام سے مشہور ہوا۔ اس پر کئی بار فیصلے ہوئے مگر عمل درآمد کی نوبت نہ آ سکی۔ اس بار جیپ والے کون ہیں ، ظاہر ہے یہ کوئی پارٹی تو نہیں ، سبھی ا ٓزاد امیدوار ہیں۔ اور ایک خاص نشان لے کر کسی مفاد کی خاطر اکٹھے ہوئے ہیں۔ اس طرح کا ایک گٹھ جوڑ دو ہزار دو کے الیکشن میں نظر آیا ، یہ پیٹریاٹ کے نام سے سامنے آیا اور انہی کی مدد سے ظفراللہ جمالی کی حکومت صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے قائم ہوئی۔ ق لیگ کو مشرف کی کھلی سرپرستی تھی مگر وہ اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میںنہ آ سکی، ا سے آزاد اور پیٹریاٹ والوں کی حاجت محسو س ہوئی۔آزاد ارکان ہمیشہ کسی نہ کسی لولے لنگڑے کی بیساکھی بنتے رہے ہیں، دیکھیئے چوبیس گھنٹے بعد ہونے والے الیکشن میں آزاد امیدوار کتنی بڑی گیدڑ سنگھی ثابت ہوتے ہیں، اس کے لئے سانس روک کر انتظار کرنا ہوگا۔