خبرنامہ

اکہترا ور آج۔ ایک قوم بننا ضروری ہے۔۔اسداللہ غالب

1947: ایک قوم کوملک کی ضرورت تھی۔
1971:ایک قوم نہ رہنے سے ملک دو لخت ہو گیا۔
2016: ایک ملک کو قوم کی تلاش ہے۔
اور اس تلاش میں،میں نے لیفٹننٹ جنرل غلام مصطفی سے بار بار ملاقاتیں کیں، میرا ان سے آخری سوال تھا کہ آج تو موت و حیات کامسئلہ ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ ہم راہ راست پرآ جائیں۔
جنرل غلام مصطفی تفصیل سے تجزیہ کرنے کے عادی ہیں مگر میرے آخری سوال کے جواب میں انہوں نے جھٹ کہا تھا کہ ہمیں ایک قوم بننے میں دیر نہیں لگنی چاہئے۔یہ تو بقا اور فنا کا سوال ہے۔دیکھئے کسی تاخیر کے بغیر آرمی چیف نے کور کمانڈرز کانفرنس کی اور قوم کو امید دلائی کہ ان کا دفاع ہر قیمت پر کیا جائے گا، یہ بھی دیکھئے کہ نیویارک سے وزیر اعظم نے بھی آرمی چیف سے رابطہ کیا، یہ تو وہ خبریں ہیں جو سامنے آ چکی ہیں لیکن پس پردہ جو کچھ ہو رہا ہے ،وہ ا س سے بھی زیادہ تیز اور حیران کن ہے اور جب لوگوں کو یہ سب کچھ نظر آئے گا تو وہ بھی بنیان مرصوص بن جائیں گے۔
جنرل مصطفی پاکستان کی دفاعی اسٹریٹیجک کمان کے بانی ہیں، اس کے دو بار سربراہ بھی رہے ا ور منگلا کے کور کمانڈر بھی رہے جو کہ اسٹرائیک کور ہے۔ان کا کہنا ہے کہ خطرے کہ صورت میں سپاہی سے لے کر سپاہ سالار تک کے لئے ایک ایکشن پلان تیار حالت میں موجود ہے۔ اگلے مورچے میں متعین کسی سپاہی پر دشمن کا فائر آتا ہے تو اسے جوابی فائر داغنے کے لئے اوپر سے ہدایات کی ضرورت نہیں۔وہ اپنے فیصلے میں مکمل با اختیار اورآزاد ہے اور دشمن کے مورچے کو خاموش کرنے کے لئے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر جوابی کاروائی کر سکتا ہے۔
تو کیا ایٹمی میزائیل داغنے میں بھی یہی اصول چلے گا۔ میں نے پوچھا تو جواب ملا کہ اگر ایٹمی تنصیبات پر مامور کمانڈر کو خبر ملتی ہے کہ دشمن اپنے ایٹمی میزائیل فائر کر نے و الا ہے تو اسے چند سیکنڈ کے اندر دشمن کو جارحیت کے فائدے سے محروم کرنے کے لئے ایکشن لینا ہے، یہی چند سیکنڈ زندگی اور موت کا فیصلہ کرتے ہیں۔اسی طرح سمندر یا فضا میں موجود جہاز کے کمانڈر کو بھی حملے کیے لئے کسی سے پیشگی اجازت ضرورت نہیں، وہ فائر کرنے کا پابند ہے تاکہ دشمن پہل نہ کر سکے۔پینسٹھ کی لڑائی میں ایم ایم عالم نے ایک، دو، تین، چار اور پانچ جہاز یکے بعددیگرے تباہ کئے ا ور ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا، یہ ایکشن ساٹھ سیکنڈ میں مکمل ہوا۔ ہر جہاز پر جھپٹنے کے لئے ایم ایم عالم نے اپنی کمان سے کوئی اجازت نہ لی، نہ اجازت لینے کی ضرورت تھی، اسکواڈرن لیڈرسرفراز رفیقی دشمن کے علاقے میں ایک حملے کی کمان کر رہے تھے، ڈاگ فائیٹ کے دوران ان کی گنیں گرم ہو کر جام ہو گئیں،انہوں نے جھٹ حملے کی کمان اپنے نمبر ٹو فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری کے حوالے کر دی ا ور خود اپنا جہاز انہیں کور دینے کی پوزیشن میں لے گئے۔ان امور کے لئے انہیں ائر ہیڈکوارٹرسے کسی اجازت کی ضرورت نہ تھی، وہ اپنی فارمیشن کے خود ہی کماندار اعلی تھے۔
جنرل مصطفی نے یہ باتیں کرکے اصل میں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اوڑی کو بہانہ بنا کر اگر بھارت کوئی شرارت کرتا ہے تو اسے قرارواقعی جواب دینے کے لئے مسلح افواج میں پورا ایک سسٹم موجود ہے ، یہ خودکارسسٹم ہے۔ قوم اس طرف سے بے فکر ہو جائے اور اپنے اندر وہ جذبہ پیدا کرے جو پینسٹھ کی جنگ میں دیکھا گیا،ا سوقت ملک میں ایک فوجی حکومت تھی مگر ہر کوئی اس جھنجھٹ سے بالاتر ہو کر صر ف ا ور صرف دشمن کو سبق سکھانے کے لئے متحد ہو گیا تھا۔شاعروں نے وہ ترانے تخلیق کئے جو زندہ جاوید ہو گئے اور گلوکاروں نے اگلے مورچوں میں جوانوں کا لہو گرما دیا۔
سیاسی سطح پر اتحاد میں بھی ذرا دیر نہیں لگے گی، جس طرح آرمی پبلک اسکول کے معصوم نوخیز پھولوں کی شہادت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر دیا تھا۔عمران خاننے اپنا ہفتوں پرانا دھرنا ترک کر دیا تھا، تواسی طرح بھارت کی ذرا سی شرارت آج بھی ہمیں ایک قوم کی شکل دے دے گی۔ اندر ونی جھگڑے ہر جگہ ہیں، امریکہ کے صدارتی امیدواروں میں سر پھٹول جاری ہے، بھارت میں کل ہی سپریم کورٹ نے دریائے کاوری کے پانی کی تقسیم پر ایک فیصلہ دیا جسے ایک ریاست کرناٹک کے وزیرا علی نے ناقابل عمل قرار دے دیا،یہ بھارت کا کالا باغ ڈیم والا مسئلہ ہے،دو سو برس سے جاری ہے۔برطانیہ میں ایک وزیر اعظم مستعفی ہو گیا مگر ان اختلافات کی وجہ سے اگر ان ممالک کے قومی اتحاد پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے تو ہمیں کیوں خوف ہے، ایک گھر میں باپ بیٹے کے اختلافات ہوتے ہیں، مگر گھر میں چور ڈاکو کے گھسنے پر سبھی اکٹھے ہو جاتے ہیں، اسی طرح مجھے یقین ہے کہ پاکستانی قوم بھی دشمن سے نبٹنے کے لئے ایک قوم بن کر دکھائے گی۔
جنرل مصطفی نے کہا کہ اصل میں ہمیں لانگ ٹرم پلاننگ پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔اس کے لئے ہمیں تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب کو یکساں بنانا چاہئے۔اسی طرح سیاسی جماعتوں کو ملک گیر تنظیم سازی پر توجہ دینی چاہئے، کم از کم تین چار پارٹیاں اس پوزیشن میں ہیں، مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی، تحریک ا نصاف ا ور جماعت ا سلامی، ان پارٹیوں کو اپنی قوت ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے پر ضائع کرنے کے بجائے چاروں صوبوں کے ایلکٹوریٹ سے رابطہ تیز کرنا چاہئے ، اگلے الیکشن زیادہ دور نہیں رہے۔
اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنا ممکن نہیں تو وفاق کو طاقتور بنانے کے لئے آئینی محاذ پر سرگرمی دکھانی چاہئے، ایک کمزور وفاق ملک کی سا لمیت کے لئے نقصان دہ ہے۔
مذہبی ہم آ ہنگی کی فضا پیدا کرنے کے لئے اقدامات ناگزیر ہیں، فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کی جائے،مطلب یہ ہے کہ فرقوں کوباہمی تعصب اور دشمنی کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔
سب سے ضروری بات یہ ہے کہ باہمی دشمنیوں کو پالنے کے بجائے اپنے مشترکہ دشمن کا تعین کیا جائے، اس کے لئے زیادہ مغز ماری کی ضرورت نہیں۔دشمن پھنکار رہا ہے، اس نے اپنے چہرے پر کبھی نقاب نہیں پہنا، وہ ہمہ وقت میدان میں اتر کر بڑھکیں مارتا ہے، ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم جنگ جو نہ بنیں، امن کی علامت بنیں مگر خطرے کی صورت میں ہمیں فولادی عزم سے جواب دینا چاہئے۔
جنرل غلام مصطفی نے اپنی بات ایک امید افزا نوٹ پر ختم کی کہ ملک کی مسلح افواج ہر خطرے سے نبٹنے کے لئے تیار ہیں، عوام اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں تو کوئی دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا۔