خبرنامہ

ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے افشا کی ٹائمنگ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے افشا کی ٹائمنگ

جنرل کیانی کی ریٹائر منٹ میں اب کوئی زیادہ وقت باقی نہیں رہا تو کیا یہ ضروری ہے کہ انہوں نے اپنی ملازمت کا پورا عرصہ عزت سے گزار لیا ہے تو کیا ضروری نہیں ہے کہ انہیں عزت سے جانے دیا جائے۔
جنرل کیانی نہ تو جنرل اسلم بیگ ہیں کہ جن سے جمہوریت کو خطرہ محسوس ہورہا ہو۔ نہ وہ جنرل آصف نواز ہیں اور نہ جنرل کاکڑ اور نہ جنرل جہانگیر کرامت، بلکہ وہ جنرل مشرف بھی نہیں ہیں۔ اس لیئے کہ انہوں نے قسم کھارکھی ہے کہ سیاست اورحکومت میں دخل نہیں دیں گے اور انہوں نے ایک سے ایک نادر موقع ملنے کے باوجود اپنے حلف سے غداری نہیں کی، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان میں ہمت نہیں تھی، اس کی وجہ یہ بھی نہیں تھی کہ ان کے راستے میں جمہوریت پسندوں نے کوئی دیوار کھڑی کر دی تھی، بلکہ صرف اس لیے کہ انہوں نے قوم کو زبان دی تھی، قول پر پورا اتر نامشکل ہوتا ہے مگر انہوں نے پورا اتر کر دکھایا۔
اسامہ بن لادن کے سلسلے میں ان سے کیا کوتاہی ہوئی۔ کیا یہ کہ وہ ان کا سراغ نہیں لگا سکے یا یہ کہ انہوں نے اسامہ کوخود پناہ دے رکھی تھی۔ پتانہیں ایبٹ آبادکمیشن رپورٹ میں ان پر کیا الزام عائد کیا گیا ہے مگر میں اس قوم سے پوچھتا ہوں کہ کتنے لوگ ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ جنرل کیانی کو اسامہ کا سراغ لگا کر اسے امریکہ کے حوالے کر کے اربوں ڈالر کا انعام حاصل کر لینا چاہیے تھا، آخر اسامہ کے سر کی قیمت لگائی گئی تھی، کئی اور لوگوں کے سروں کی قیمت بھی لگائی گئی تھی اور جنرل مشرف نے ان میں سے بیشتر کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا اور ڈھیر سارے ڈالر اینٹھے۔ مگرقوم کے کسی ایک فرد نے مشرف کے اس سودے کو پسند نہیں کیا تو اگر جزل کیانی ایسا کرتے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ پوری قوم اس فعل کو نا پسند کرتی تو پھر کونسا جرم ہے جسے میڈیا میں بار بار اچھالا جارہا ہے۔
میڈیا کی بات کیا کرتے ہیں، یہی میڈیا تھا جس نے لال مسجد میں کارروائی نہ کرنے پرمشرف کوسخت سست قرار دیا تھا۔ یہاں تک کہا کہ آئی ایس آئی کے صدر دفتر کے سامنے چندگز کے فاصلے پراسلحے کا ڈھیر کیسے لگ گیا، مورچے کیسے تعمیر ہو گئے اور ماہر نشانہ باز لال مسجد اور مدرسے کے میناروں پر کیسے چڑھ کر بیٹھ گئے، ڈنڈا بردارلڑکیاں اسلام آباد میں دکانیں کیسے توڑتی پھریں اور چین جس سانحے کو آج تک نہیں بھولا، چینیوں کے ایک کاروباری مرکز میں چینی خواتین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا اور جب حکومت نے میڈیا کے بار باراکسانے پر آپریشن کیا تو ظلم کی داستانیں بیان کی گئیں اور نوحے پڑھے گئے۔
میڈیا کو شاید یاد نہ ہو کچھ لوگ حرم مکہ پربھی قابض ہو گئے تھے، وہ اس کے تہ خانوں میں مورچے لگا کر بیٹھ گئے مگر سعودی حکومت نے ان کے خلاف آپریشن کیا، میں یہ نہیں بتاتا کہ کسی کی مدد سے کیا لیکن بت خانے میں زہریلی گیس چھوڑی گئی اور یوں حرم کعبہ کو خالی کروایا گیا، اس دوران طواف معطل رہا، یہ ایک الگ سانحہ تھامگر میڈیا کی کسی آنکھ سے حرم کے تہ خانوں میں مورچہ بند لشکر کے لیئے تو ایک آنسو ٹپکا، نہ ان کے نوحے لکھے گئے، نہ ان پرظلم کی داستانیں بیان کی گئیں۔ میڈیا ایک سواسی ڈگری پر گھوم سکتا ہے، اور یہ ایک مخصوص میڈیا ہے جو صرف پاکستان کے مفاد پرضرب کاری لگانے کے فن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حامل ہے، وہ بیرونی دشمنوں کے اشارے پر پاک فوج کو روگ آرمی بھی کہنے سے نہیں کتراتا۔
ایبٹ آباد کاسانحہ ایک کر بلا تھا، اس پر پوری قوم دلفگارتھی اورقوم کے نمائندوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس سانحے پر غور کیا، اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا نے بریفنگ دی، ان کے وزیر داخلہ اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے، ان کے سخت ریمارکس پر جنرل پاشا نے کہا کہ میری کوئی غلطی ہے تو میں مستعفی ہوتا ہوں، ایوان کی کارروائی اس کے ریکارڈ میں موجود ہے کوئی ایک آواز بھی استعفے کے حق میں بلند نہیں ہوئی۔ تواب جنرل پاشا اپنے عہدے سے رخصت ہو چکے، پیٹ پالنے کے لئے کہیں اور نوکری کر رہے ہیں اور جنرل کیانی بھی چند روزہ مہمان ہیں تو یکا یک ان کے خلاف کس کے پیٹ میں مروڑ اٹھا ہے۔
اگر وزیراعظم نے چین کے دورے کی مشقت نہ کی ہوتی تو شاید کوئی انگلی ان کی طرف اٹھتی کہ رازوں کی پوٹلی کھلنے کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے مگر چین کے دورے میں جان مارنے والا وزیراعظم تو چاہے گا کہ آج ملک میں ان کے دورے کو ہائی لائٹ کیا جائے، وہ کیسے چاہے گا کہ اس کی ایک ہفتے کی ساری محنت اکارت چلی جائے اور دو سال پرانے سانحے کی کوئی رپورٹ میڈیا اور سول سوسائٹی میں زبان زد عام ہوجائے، وزیراعظم نے چھ دن یوں ہی ضائع نہیں کیے تھے۔ مگر چین کا دورہ پس پردہ دھکیل دیا گیا اور ہر چینل اور ہر اخبار کی ہیڈ لائین اور گفتگوکا موضوع ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ ہے، نکل گیا ہے سانپ اب لکیر پیٹا کر، جو ہونا تھا، ہو چکا، امریکہ نے اسامہ کو شہید کر دیا، پاکستان کے اقتدار اعلی کو فیتہ فیتہ کر دیا۔ ملک کے آج کے مسائل میں اندھیروں سے نجات کو ترجیح حاصل ہے، بر باد شدہ معیشت کو سنبھالا دینا ہے۔ قوم کے اعتمادکو بحال کرتا ہے اور ایک نئے پاکستان کی تعمیر کے نعرے کو حقیقت کا روپ دینا ہے۔ مجھے ذرہ بھر شک نہیں کہ ایبٹ آبادکمیشن رپورٹ کا افشاوزیراعظم کے دورہ چین کی اہمیت کم کرنے کی ایک گہری اور مجرمانہ سازش ہے۔
جنرل کیانی چند ماہ بعد اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے۔ جنرل پاشا پہلے جا چکے۔ ایبٹ آبادسانحے کے یہ دو کردار تاریخ کے سپرد ہیں لیکن پاک فوج اور آئی ایس آئی یہیں پر ہے۔ پاکستان کو اپنی حفاظت کے لئے ایک فوج کی بہرحال ضرورت ہے۔ اپنی فوج نہیں چاہئے تو سنگاپور، جاپان، سعودیہ، دوبئی کی طرح بیرونی فوج کرائے پر لینا پڑے گی مگر فوج تو بہرحال ہوگی اور جو بھی فوج ہوگی وہ تیرو تفنگ سے لیس ہوگی، سیاستدان کرپشن، اقربا پروری، خاندانی حکمرانی اور بالادستی کے لئے کوشاں ہوں گے تو فوج اپنی طاقت دکھائے گی،خواہ وہ کسی ملک کی فوج ہو۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کی فوج نے کیا ہاتھ دکھایا تھا۔ کیا بھول گئے۔
ہماری فوج ماضی کے جرنیلوں کی بداعمالیوں کے باوجود دنیا کی ایک بہترین پیشہ ور فوج مانی جاتی ہے، یہ ایٹمی اسلحے سے لیس ہے اور اس طاقت کے حصول کے لیئے پوری قوم نے قربانیاں دی ہیں۔ کیا ہم باہم دست و گریباں ہوکر اپنے مشترکہ دشمنوں سے دفاع کے قابل رہیں گے،خدانخواستہ، ہرگزنہیں۔
مجھے جنرل حمید گل کی زبان میں کہنا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن رپورٹ فوج کے خلاف ایک منظم کارروائی ہے۔ میں اس میں اضافہ کروں گا کہ جس کسی نے افشا کی یہ سازش کی ہے، اس نے اپنا ہی منہ کالا کیا ہے۔
(12 جولائی 2013ء)