خبرنامہ

ایس ایم ظفرا ور خورشید قصوری کا بھارت کوانتباہ۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ….عجیب بات ہے کہ پہلے یہ بات خورشیہد قصوری صاحب نے کی ا ور پھرایس ایم ظفر صاحب نے تائید مزید کی۔
دونوں نے کہا کہ بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہونیوا لاہے، خورشیہد قصوری نے اس کی وجہ بی جے پی کی حکومت بیان کی اورظفرصاحب نے ا سکی وجہ کشمیر میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قرار دیا۔دونوں اصحاب کو آپ متعصب یا روائتی بھارت دشمن نہیں کہتے ، نہ سمجھتے ہیں۔ قصوری صاحب تو بھارت یاترا پرجاتے رہتے ہیں ، اب بھی وہ وہاں سے ہو کر آئے ہیں، انہوں نے اپنی کتاب زندگی لکھی تو اس کی مہورت بھارت میں کی اگرچہ یہ وجہ نزاع بن گئی اور متعصب ہندووں پہلے تونائیکاٹ کی دھمکی دی اور پھر ان کے میزبان کلکرنی صاحب کے منہ پر کالک بھی پھیر دی ، اس بد سلوکی نے تو قصوری صاحب کو بھارت سے بد ظن نہیں کیا لیکن بی جے پی کی غیر سیکولر اپروچ سے وہ نالاں ہو چکے ہیں اور اسے بھارت کے لئے زہر قاتل قرار دیتے ہیں۔اس موغوع پر ان سے تفصیلی گفتگو ضرور کروں گا تاکہ یہ جان پاؤں کہ پاکستان میں بھارت کی دہشت گردانہ کار وائیوں کو وہ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور آیاا س کی وجہ سے بھی وہ بھارت کے وجود اور اس کی یک جہتی کومتاثر ہوتے دیکھتے ہیں۔ ایس ایم ظفر صاحب نے البتہ کشمیر میں ھارت کی بے رحمانہ روش کی پر زور الفاظ میں مذمت کی ۔اور کشمیری نوجوانوں ، بوڑھوں اور عورتوں کی استقامت کو خراج تحسین پیش کیا، انہوں نے کہا کہ کشمیر کی موجودہ نسل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ثابت قدم ہے اور اس کا اب یہ نظریہ نہیں رہا کہ بندوق کو دھوپ میں رکھ دو،، خود ہیں ٹھس کر دے گی یعنی دھوپ کی تپش سے خود ہی فائر ہو جائے گا۔ یہ نظریہ اب ماضی میں کہیں دفن ہو چکا ۔ اب تو کشمیر کے چپے چپے پر شجاعت کا رزم نامہ دہرایا جا رہا ہے، سات آٹھ لاکھ بھارتی فوج کشمیریوں کے جذبوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے ۔
ان اصحاب کو یہ باتیں کہنے کا بہانہ اس تقریب کی وجہ سے میسر آیا جو بیگم مہناز رفیع کو خراج رحسین پیش کرنے کے لئے منعقد کی گئی تھی۔بیگم صاحبہ کی زندگی ایک کھلی اورر وشن کتاب کی طرح ہے، اللہ نے انہیں اخلاقی حسن سے مالا مال کیا ہے ، انہوں نے ساری عمر جدو جہد کی، سیاسی محاز پر انتھک کام کیا، انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کی پاسداری کے لئے وہ سیسہ پلائی دیوار بنی رہیں ، انہوں نے قیدو بند کاٹی۔ان کی سیاسی اننگز کا آغا زاصغر خان کی تحریک استقلال سے ہوا۔ اس پارٹی نے ایک زمانے میں سیاست کی نرسری کا کردار ادا کیا۔قصوری صاحب نے کہا کہ قائد اعظم کے بعد وہ اصغر خان کو مدبر اور سیاستدان سمجھتے ہیں۔ایس ایم ظفر نے گرہ لگائی کہ بات تو درست ہے مگر یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اصغر خان اپنی منزل سے ہمکنار کیوں نہ ہو سکے، ظاہر ہے یہ خرابی عوام میں تھی جو ان کے ساتھ نہ چل سکے ۔
بیگم مہناز رفیع نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے ایس ایم ظفر کی تنظیم کا پلیٹ فارم بھی استعمال کیا، مہناز کے شوہرمحمد یحی صاحب ا ور ایس ایم ظفر کلاس فیلو ہیں ، اس طرح دونوں کا رشتہ بڑا قریبی ہے، بیگم صاحبہ کئی بار گرفتار ہوئیں اور ہر بار ظفر صاحب ہی ان کی قانونی مدد کو پہنچے، بیگم صاحبہ کی یہ گرفتاریاں انسانی حقوق کے لئے جدو جہد کی راہ میں ہوئیں ، اور جب ان کا تذکرہ چھڑا اور بھری محفل میں چھڑا ، شاہد رشید نے بھی اس پر مہر تصدسیق لگائی اور دبنگ لہجے میں بات کی۔ فرخ سہیل گوئندی توبے حد جذباتی تھے اور ڈاکٹر پرویں خان اور عارفہ صبح خاں نے بھی خواتین کے حق میں آواز اٹھانے پر بیگم مہناز رفیع کی ستائش کی، نوجوان قلم کار سلمان عابد بھی یہ گواہی دے رہے تھے۔ حتی کہ ہمایوں احسان جیسے سنجدہ فکر انسان نے بھی بیگم صاحبہ کے کرادر کواجالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ تو یہی وہ سبب تھا کہ خورشید محمود قصوری اور ایس ایم ظفر جیسے سینیئر تریں سیاستدانوں کو انسانی حقوق ہی پر بات کرنا پڑی ا ور جب مسئلہ انسانی حقوق کا ہو تو پھر منطقی طور پر بات بھارت تک جا پہنچے گی جو کشمیر میں ظلم و جور کا بازار گرم کئے ہوئے ہے اور جو کشمیریوں کے حقوق کو دن رات بلڈوز کئے چلے جا رہا ہے۔ ایک لاکھ کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جا چکا ہے، ان کی قبریں سری نگر ہی کے قبرستان میں ہیں، کشمیر ی خواتین کی اجتماعی اور جبری آبرو ریزی میں بھارتی فوج ملوث ہے اور اس پرایک بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے کھل کر احتجاج کیا ہے۔جناب ایس ایم ظفر نے کہا کہ میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ کشمیریوں کی اپنی جدو جہد اور مزاحمت کی وجہ سے بھارت کے کئی ٹکڑے ہو جائیں گے۔
خورشید قصوری نے ایک اور اینگل سے بھارت سے سوال کیا کہ وہ کل بھوشن کی پھانسی رکوانے کے لئے تو بھاگم بھاگ عالمی عدالت جا پہنچا ہے مگر وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے نہ عالمی عدالت کو ثالث مانتا ہے ، نہ اس مسئلے پر مصالحت یا ثالثی کے لئے امریکی پیش کش کو قبول کرنے کو تیار ہے۔یہ بھارت کا دہرا معیار ہے جو اس نے پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حوالے سے اپنا رکھا ہے اور جس سے خطے میں سیکورٹی کی صورت حال خطرات کی ہر حد عبور کر چکی ہے۔
محترمہ مہناز رفیع کے حوالے سے تقریب دراصل بھارت اور اس کی کہہ مکرنیوں پر مرکوز ہو گئی، کسی ایک مقرر نے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ذکر نہیں کیا جبکہ بھارت کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بہیمانہ قتل و گارت کی پر زور مذمت کی گئی ۔ بھارت کی دست درازی کا عالم یہ ہے کہ وہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بسنے والوں کی زندگی بھی دن رات کی فائرنگ اور گولہ باری سے اجیرن بنا چکا ہے،۔ دنیا بھر میں سرحدی باشندوں کے جان و مال کا تحفظ کیا جاتا ہے ، اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کااحترام کیا جاتا ہے مگر ایک بھارت ہے جسے کوئی نکیل ڈالنے والا نہیں۔ اس بھارت کے بارے میں ایس ایم ظفر اور خورشید قصوری جیسے جہاندیدہ سیاستدانوں اور وکلا نے جو پیشین گوئی کی ہے، بھارت کو اس پر غور کرنا چاہئے، یہ پیش گوئی حافظ سعید کرتے تو ان کی نظرببدی میں مستقل توسیع ہو جاتی مگر قصوری اور ظفر کا تو حافظ سعید سے دور دور کا تعلق واسطہ نہیں ۔ ان کی بات جذبات پر نہیں دلیل اور منطق اور عالمی قوانین پر مبنی ہے جس کو نظرا نداز کرنے کی شکل میں بھارت کو یقینی طور پر نقصان اٹھاناپڑے گا۔