خبرنامہ

ایم ایم اے کا مثبت کردار۔۔الیکشن کائونٹ ڈائون….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ایم ایم اے کا مثبت کردار۔۔الیکشن کائونٹ ڈائون

قیامت کی گھڑی سر پہ ہے، پوری دنیا میں الیکشن ایک نئے دور کی علامت سمجھا جاتا ہے، پاکستان مین بھی الیکشن کے تقدس کا نظریہ موجود ہے، کچھ جماعتیں الیکشن اور جمہوریت کو لازم و ملزوم سمجھتی ہیں ، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ الیکشن کو کس طریقے سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور جمہوریت کو کس طرح فسطائی ہتھکنڈوں کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔ اب کی بار بھی الیکشن ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر اس میں ایم ایم اے حصہ نہ لے رہی ہوتی تو میںہر روز لوگوں کو اس الیکشن سے دور رہنے کی تلقین کرتا۔ میرے نزدیک ایم ایم اے سکون کا باعث ہے، راحت کا باعث ہے، ایک آس کی مانند ہے کہ شاید ہم خلفائے راشدین ؓکے دور کی جھلک دیکھ لیں ،۔ ایسا دور جس میں بقول سراج الحق گھر کا چوکیدارا ور گھر کا مالک ایک میز پر بیٹھ کر کھانا کھائیں، ایک صف میں کندھے سے کندھا ملا کر نماز ادا کریں۔ ایسا دور جس میں خلیفہ وقت اپنے کندھوں پر آٹے کی بوریاں لاد کر بیوائوں کے گھر سپلائی کرے۔جس میں خلیفہ وقت کا بھرے مجمع میں کوئی بھی شخص احتساب کر سکے۔ایسادور جس میں خلیفہ وقت بلا جھجک قاضی کی عدالت میں پیش ہو۔ایسا دور جس میں خلیفہ وقت آرمی چیف کو اس کے منصب سے سبکدوش کر سکے ا ور آرمی چیف چپکے سے گھر بیٹھ جائے اور نئے آرمی چیف کے حکم پر ساری عمر جہاد میںمصروف رہے ۔ ایسا دور جس میں خلیفہ وقت کو ذاتی کاروبار کی ممانعت ہو اور وہ سرکاری وظیفے کی رقم کے اندر زندگی بسر کرے، ایسا دور جس میں پیغمبرؐ بھی کہیں کہ اس کی بیٹی چوری کرے گی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیئے جائیں گے۔ ایسا دور نہیں جس میں کوئی پارٹی چیف اپنے کسی صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے منہ پہ تھپڑ دے مارے۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ یہ جو ایم ایم اے کے مولوی ہیں ، وہ خلفاء کا دور کیسے واپس لا سکتے ہیں، میرا جواب ہے کہ یہی مولوی آپ کے ماں باپ کا نکاح پڑھاتے ہیں، یہی مولوی آپ کو قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے ہیں۔ آپ کا جنازہ پڑھاتے ہیں تو یہ سب کام کرنے والے حکومت کیوں نہیں چلا سکتے۔ آج ان میں کوئی خامی ہے تو جس طرح آپ لوگ اس ملک میں بدتریں جمہوریت کو بھی گوارا کر لیتے ہیں اور آپ یہ امید دلاتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بد ترین جمہوریت بہتریں جمہوریت بن جائے گی تو مولوی کی حکومت بھی وقت کے ساتھ ساتھ خلفائے راشدین کے دور کی مثال کیوں نہیں بن سکتی۔ سراج الحق آج بھی کرپشن نہیں کرتا۔ ساجد میر آج بھی کرپشن نہیں کرتا۔ امیر العظیم بھی کرپشن نہیں کرتا۔ انہوںنے کبھی نا انصافی نہیں کی، کسی کا حق نہیں مارا، کسی کی جائیداد پر قبضہ نہیں جمایا۔ اگر کسی اور مولوی کے کردار پر کوئی دھبہ ہے تو ذمے داریوں کا احساس اسے ان بشری کمزوریوں سے پاک صاف ہونے پر مجبور کر سکتا ہے۔
میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ مولوی کی حکومت طاقت کے بل پر قائم ہو بلکہ میں اس نظریئے کا حامی ہوں کہ وہ آپ کے ووٹ کے ذریعے حکومت میں آئیں۔ اور مجھے وہ وقت نزدیک نظرا ٓ رہا ہے۔ مولوی مجھے حکومت میں شامل ہوتے نظر آ رہے ہیں ، صرف دو دن باقی ہیں، میری توقع ہے کہ اس الیکشن میں کسی بڑی پارٹی کو اکثریتی مینڈیٹ نہیں ملے گا تو حکومت سازی کے لئے لازمی طور پر کسی کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ میدان میں آزاد امید وار بھی موجود ہوں گے مگر وہ برائے فروخت ہوں گے، وہ اپنی قیمت لگوائیں گے اور پھر اگلے پانچ سال تک اپنی اس حیثیت کے بل بوتے پر میر ا اورا ٓپ کا خون چوستے رہیں گے۔ ان کے بجائے اگر کوئی لارجسٹ پارٹی ایم ایم اے کی طرف ہاتھ بڑھائے تو یقینی بات ہے کہ وہ پیسے لے کر کسی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔وہ بھیڑ بکریوں کی طرح فروخت ہونے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ اور وہ اتحادی حکومت میں آ کر وہ لوٹ مار نہیں کریں گے کہ ان کے اکاٗونٹس بیرونی بنکوں میں کھلیں اور ان کے راز پانامہ لیکس سے کھلیں۔ ایم ایم اے والے اپنے اتحادی کو بھی مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ عوام کی خدمت کو شعار بنائیں۔ خدمت ، خدمت اور خدمت، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔
میرے وطن کے لوگو! اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہوئے خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا۔ آپ کے سامنے اچھے اور برے ہر قسم کے امیدوار ہیں۔ جب اول اول پیپلز پارٹی قیادت کے خلاف بیرون ملک دولت جمع کرنے اورمحلات خریدنے کا شور مچا تو میں نے ان دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ امریکہ اور کولمبیا کا سفر کیا،دوران پرواز انہوںنے وقفے وقفے سے جہاز پر موجود صحافیوں سے ملاقاتیں کیں ، جب میری باری آئی تو وہ میڈیا کے خلاف چیخ رہی تھیں۔ میںنے انہیں بتا یا کہ میں نوائے وقت سے ہوں اور اس اخبار نے آپ پر یہ الزامات نہیں لگائے۔ وہاں حامد میر بھی تھے ، میںنے کہا کہ ان کے اخبار نے بھی آپ پر یہ الزامات نہیںلگائے اور جو ایسے الزامات لگا رہا ہے وہ ذات شریف بھی جہاز میں موجود ہے، اس سے ثبوت مانگ لیجیئے ا س کے سامنے اپنا دفاع کر لیجئے۔ مگر ایک بات کروں گا کہ جب ملک کے اندرا ٓپ کا کوئی مرغی خانہ تک نہ ہو تو پھرباتیں تو بنیں گی ۔یہ تو ایسے ہے کہ آپ پاکستان میں صرف حکومت کرنے آتی ہیں۔ یہ تو ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ہوئی، کوئی استعماری حکومت ہوئی۔ پاکستان آپ کا اوڑھنا بچھونا نہیں۔ اس بات کو آج میں دہرائوں تو یہ کہوں گا کہ اب تو ایسے لوگ اس ملک پر حکومت کرتے ہیں جن کی اولادیں پاکستان میں نہیں، جو باہر رہتے ہیں، باہر پڑھتے ہیں اور باہر بزنس چمکاتے ہیں۔ یہ طبقہ پھیلتا جا رہا ہے۔ اس میں بیوروکریسی بھی شامل ہو گئی ہے، ان کی اولادیں بھی باہر ہیں اور وہ خود ہمارے اوپر لاٹ صاحب بنے بیٹھے ہیں۔ آج ہمارے حکمرانوں کا ایمان اللہ سے اٹھ گیا، اور دہشت گرد انہیں باردوی جیکٹوں سے قیمہ بنا دیتے ہیں۔ مودودی کو بھی پھانسی کی سزا ہوئی تھی مگر پاکستان کے حکمرانوں کو ا س پر عمل کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔ دوسری طرف بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی اورساری دنیا کی اپیلوں کے باوجود انہیں رات کے اندھیرے میں پھانسی دے دی گئی۔ عقل کی بات کوئی نہں مانتا۔ نواز شریف سے اللہ کے ایک بندے جنرل حمید گل نے کہا کہ اب سے لے کر حکومت کی ٹرم ختم ہونے تک آپ کوئی نیا کاروبار نہ کریں اور پرانے کاروبار کو توسیع نہ دیں۔ میاں نواز شریف نے جواب دیا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہی بات خلیفہ اول ابوبکر ؓ سے کہی گئی کہ آپ کپڑے کی دکان چلائیں گے تو لوگ آپ کی دکان سے کپڑا خریدیں گے، باقی لوگوں کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فوری طورپراپنی دکان بند کر دی۔ میری رائے میں ایم ایم اے سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ حضرت ابوبکر ؓکی روایات کی پابندی کریں گے۔ اور ایک ایسا ماحول تشکیل دیں گے جس میں ہر شہری کومساوی مواقع ملیں گے۔
اطمینان کی بات یہ ہے کہ ایم ایم اسے کوایک بارخیبر پی کے میں حکومت ملی مگر حالیہ الیکشن میں ایم ایم اے اس پوزیشن میں ہو گی کہ اس کے بغیر کوئی بڑی پارٹی اپنے طور پرحکومت تشکیل نہیں دے سکے گی۔ یہ میرے ملک کے لئے ایک نیک فال ہے۔
مجھے دلی افسوس ہے کہ دہشت گردی نے ایک اور الیکشن امیدوار جناب گنڈا پور کی جان لے لی۔ میں ان کی شہادت کے لئے کسی ادارے ، کسی نگران حکومت کو مطعون نہیں کرتا،اکرم درانی پر ایک بار پھر حملہ کیا گیا ہے۔یہ اللہ کی مشیت ہے۔ رات گئے پنڈی کے حنیف عباسی بھی جیل بھیج دیئے گئے اور عمران کہتا ہے کہ شہباز شریف بھی اڈیالہ جانے کی تیاری کرے۔ نہ جانے یہ سارے فیصلے کہاں ہو رہے ہیں ۔ ہمارے اداروں اور ہماری نگران حکومتوں کے دعوے تو دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں کہ ان پر کوئی دبائو نہیں مگر الیکشن سر پہ ہے اور اداروں کی باہمی جنگ شروع ہو گئی، انہیں اس سے فرصت ملے تو اپنے بنیادی کردار کی طرف توجہ دے سکیں گے۔