خبرنامہ

ایڈمرل آصف سندھیلا کے معاون کا سفر۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

میں پاکستانی بحریہ کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں، اس کے ایک نیک نام سربراہ ایڈمرل احسن کا نام سنا تھا، وہ مشرقی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے مگر نیک نامی کے ساتھ مستعفی ہو کر واپس آ گئے۔
میرے ایک دیرینہ دوست پروفیسر مسرور کیفی اکثر ایڈمرل آصف سندھیلا کا ذکر کرتے ہیں جو کیڈٹ کالج کوہاٹ میں ان کے شاگرد تھے۔ کیفی صاحب کے شاگرد پاکستان ا ور دنیا پھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور تاجدار عالم ہیں، حسن نواز اور حسین نواز بھی ان کے شاگردوں میں شامل ہیں، ایچی سن کالج میں وہ پڑھا رہے تھے تو ان سے تعارف ہوا جو برادرانہ رشتے میں بدل گیا، میں نے سوچا کہ ان کے توسط سے ایڈمرل صاحب سے ملاقات کی سبیل نکل آ ئے۔ایک اور دوست عبدالوحید چودھری بھی مدد کو آئے ، وہ گل شاہ فورم کے مدارا لمہام ہیں جس کی نشست تو ماہانہ بنیاد پر ہونی چاہئے مگر چودھری صاحب ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں، اس لئے چند اجلاس ہی ہوسکے،ا ن میں سے ایک اجلاس تو بہت یافگار رہے گا جب انہوں نے بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب غوث بخش باروزئی کے ساتھ ایک طویل نشست کا اہتمام کیا ، اس میں بلوچستان کی کئی گتھیوں کو سلجھانے میں مدد ملی۔ ایڈمرل صاحب کے ساتھ نشست برپا کرنے کے لئے بھی انہوں نے اپنا پلیٹ فارم مہیا کیا۔ یہ نشست کئی اعتبار سے یادگار بن گئی۔
پیاس تو یہ تھی کہ پاک بحریہ کے بارے میں معلومات حاصل کریں مگر ایڈمرل صاحب نے شروع ہی میں معذرت کی کہ دو سال قبل جب انہوں نے اپنا منصب چھوڑا تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ بہت پیچھے مڑ کر دیکھا تو انہیں اپنے گاؤں کی وہی خستگی نظر آئی جس کو بچپن میں انہوں نے خیرباد کہا تھا۔ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح ان کے ذہن میں لہرایا کہ انہوں نے بحیرہ عرب کے پانیوں کی بے باک موجوں کو تو تسخیر لر لیا مگر یہ کیا کہ ان کاا پنا گاؤں وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے، کی مثال بنا ہوا ہے۔گاؤں کے رشتے دار ان کے پاس اپنے بچوں کی نوکریوں کے لے آتے رہے مگر وہ ان کی کیا مدد کرتے، اور اب ریٹائر منٹ کے بعد انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ان بچوں کو ایسے ہنر سے آراستہ کیا جائے جس کے بعد انہیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی حاجت محسوس نہ ہو۔یہی وہ لمحہ تھاجب معاون جیسا مثالی فلاحی ادارہ تخلیق کیا گیا۔ انہوں نے گاؤں کے اسکول کی سرپرستی کے لئے پنجاب حکومت سے درخواست کی، فائلوں کے سرخ فیتوں کی طغیانی سے لڑتے بھڑتے وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو گئے، وہی ا سکول جس میں بچے تو تھے مگر استاد نہیں تھے اور جو استاد تھے، وہ پڑھانے کے لیے تیار نہیں تھے، اسکول میں گرمی سردی سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں تھا، ا سکی چار دیواری تک نہ تھی اور شدید گرمی میں جب بچے پیاس سے پلکتے ہیں تو پینے کو پانی دستیاب نہ تھا، سو سب سے پہلے پانی کا انتظام کیا گیا، پھر اللہ نے مدد کی اور اسی اسکول میں ووکیشنل ٹریننگ کی کلاسیں شروع ہو گئیں۔بچیوں کو اس طرف راغب کرنا مشکل تھا کہ شام کو وہ گھر سے نکل نہیں سکتی تھیں اور ان کے دیہات دور دور تھے، مگر ایڈمرل صاحب نے ہمت نہ ہاری، لوگوں کے اندر جذبہ پیدا کیا، کئی بچیاں شام کو پندرہ میل سفر کر کے اسکول آتی جاتی تھیں ، اب ان کے لئے سواری کا بندو بست بھی کر دیا گیا جس سے زیر تربیت طالب علموں کی تعداد اچانک دگنی ہو گئی۔تنگ دامانی کا علاج یہ تھا کہ مزید اسکولوں میں ایسے مراکز قائم کئے جائیں، سرخ فیتے کی لعنت سے بچنے کے لئے ایڈمرل صاحب نے براہ راست پنجاب کے وزیر اعلی سے رابطہ کیا۔ وہ تو جیسے ا س نیک کام کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار بیٹھے تھے، کہنے لگے جتنے مرضی ا سکول ایڈاپٹ کر لیجیئے، اس طرح چراغ سے چرغ جلتا چلا گیا اور اب اسکولوں کا سلسلہ یونین کونسل کی حدوں سے باہر نکل گیا ہے اور تحصیل اور ضلع کی سطح کو چھو رہا ہے۔
قارئین، ایک بہت بڑے انسان نے ایک چھوٹا سا کام کیوں شروع کیا، معاف کیجئے ، یہ چھوٹا کام نہیں ،بنیادی کام ہے، یہ پاکستان کی بنیاد کو مضبوط بنانے کی طرف پہلا قدم ہے اور اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے ارد گرد کو ٹھیک کرنے کی تگ ودو میں لگ جائے تو دیکھتے ہی دیکھتے پیارا وطن قوموں کی برادری میں سرفراز نظرآنے لگے گا۔
معاون تنظیم کسی سے چندہ نہیں مانگتی، وسائل بھی نہیں مانگتی صرف حرکت اور جذبہ اور لگن مانگتی ہے۔ اور ہراس شخص یا ادارے کا ہاتھ بٹانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے جو تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کی فراہمی کے لئے کوشش کرنا چاہتا ہے، ایڈمرل صاحب نے ایک ماڈل سیٹ کر دیا، اب اس کی نقل کرنی ہے، ا س نقل کے لئے عقل ایڈمرل صاحب کی استعمال کی جا سکتی ہے۔ڈاکٹر فرخ حسنین معاون کے معاون کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں اور گرم جوشی کا مظاہرہ کرر ہے ہیں، وہ اپنے گاؤں کے اسکول کی حالت بھی بدلنا چاہتے ہیں مگر علاقے کی افسر شاہی اس کی حالت بدلنے میں آڑے آ رہی ہے، اگر یہ سطور چیف منسٹر پنجاب کی نظر سے گزریں تو وہ ایک بار ضرور اس سوال پر غور کریں کہ ان کے زیر نگیں ہر ضلعے میں کم وبیش پینتیس محکمے ہیں جن کا عملہ بھی موجود ہے،اس عملے کو تنخواہ بھی ملتی ہے اور وہ دیگر مراعات بھی اینٹھتا ہے، محکمے کو فنڈز بھی فراہم کئے جاتے ہیں جو یا تو خرچ نہیں ہوتے یا خورد برد کر لئے جاتے ہیں ، ایڈمرل صاحب نیک اور شریف بلکہ بھولے بھالے انسان ہیں ، وہ کہتے ہیں میں کسی پر الزام تراشی نہیں کرنا چاہتا، ہر ایک نے ا س دنیا میں نہیں تو اگلی دنیا میں اپنا حساب خود دینا ہے اور میں نے اپنا حساب دینا ہے، میں تو اپنے خالق کے سامنے پیش ہونے سے پہلے پہلے اس سوال کا جواب تیار کر رہا ہوں کہ تمہیں عقل عطا کی، عزت دی، شہرت دی، اثرو رسوخ دیا، ا سکے بدلے میں میری مخلوق کے ساتھ کیانیکی کی۔
ایڈمرل صاحب پاک بحریہ کے معاملات پر گفتگو کے لئے تیار نہ تھے، ان کی دلیل معقول تھی کہ میں آج کی صورت حال کو نہیں جانتا ،لیکن جب تک میں پاک بحریہ میں تھا تو ا سکی روشنی میں یہ یقین دلا سکتا ہوں کی اللہ کے فضل سے پاک بحریہ ملک کے ساحلوں کی حفاظت کا فریضہ بطریق احسن انجام دے سکتی ہے۔یہ اکہتر نہیں، اب دشمن کے ہر بم کے جواب میں ایک بم تو ہم بھی ماریں گے، آج پاک بحریہ کی آنکھیں بھی ہیں، کان بھی ہیں اور جسم میں قوت بھی ہے۔ ہماری نظر دشمن کی ایک ایک نقل وحرکت پر ہے،ہم اس کی سرگوشیوں کو سن سکتے ہیں اور وقت سے پہلے جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں۔
میری آنکھوں میں اس محفل کا سحر ابھی تک بلیوں اچھل رہا ہے، باتیں وہاں کئی اور بھی ہوئیں، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اخبار نویس کے سامنے کوئی بولنے سے گرئز کرے، جناب آصف سندھیلا بولنے پر آئے تو کھل کو بولے، چاہ بہار سے گوادر تک، اورماڑہ سے پورٹ قاسم تک، شنگھائی سے کراچی تک اور عدن سے راس کماری تک کاا حوال انہوں نے اشاروں ہی ا شاروں میں کھول کر رکھ دیا۔ یہ تفصیل ادھار رہی۔
مجھے جناب سندھیلا کی یہ بات کبھی نہیں بھولے گی کہ جب وہ ریٹائر ہوئے تو وزیر اعظم نے روایت کے مطابق ان سے استفسار کیا کہ وہ آ ئندہ کونسی ملازمت کے خواہاں ہیں، کسی ملک میں سفیر لگنا چاہیں گے یا کسی ادارے کو سنبھالنا چاہتے ہیں تو اس بے غرض انسان نے جو جواب دیا وہ تاریخ میں زندہ رہے گا کہ میں نے اپنی راہ متعین کر لی ہے، مجھے اب کوئی سرکاری نوکری نہیں چاہئے ، میں انسانوں کی نوکری کروں گا۔ اور انسانیت کی خدمت کا یہ سفر معاون کے پلیٹ فارم سے جاری ہے، یہ سفر ہر کوئی اپنے اپنے طور پر بھی شروع کرسکتا ہے۔یہ سفر وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے آپ نے اپنی زندگی کے سفر کاآغاز کیا تھا، فرق یہ ہے کہ پہلے آپ نے اپنی زندگی سنواری ،اب خلق خدا کی زندگیوں کو سنوارنا ہے۔