خبرنامہ

ایک فون کال کی ڈھمکیری……اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
ایک گپ چل نکلے تو انسان مستقل طور پر گپ باز بن جاتا ہے۔وہ طوطا مینا کی کہانیاں بیان کرتا ہے۔ الف لیلی کے قصے دہراتا ہے،افسانے گھڑتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ خبریں ہیں ان پر یقین کرو۔
مگرامریکی بڑی ستم ظریف قوم ہے، اسامہ بن لادن کے ایک من گھڑت انٹرویو پر صرف اس لئے یقین کر لیا کہ اس میں اسامہ نے اپنی زبان سے اقرار کیا تھا کہ اس کے پاس ایٹمی، جراثیمی اورکیمیاوی اسلحے کا ذخیرہ ہے۔اورا س من گھڑت خبر کی بنیاد پرا س نے تورا بورا کے پہاڑوں کو سرمہ بنا کے رکھ دیا، پتہ نہیں اسامہ بچ کر ایبٹ آباد کیسے پہنچا۔
انہی امریکیوں نے نواز شریف اور ٹرمپ کی فون کال کی خبر پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔
پاکستان میں نیوز ڈیسک کے پاس جب کوئی بڑی خبر نہ ہو تو اخبار میں چاشنی بھرنے کے لئے وہ خود کوئی خبر گھڑ لیتے ہیں، منو بھائی اسے ڈھمکیری کہتے ہیں۔یہ لفظ بجائے خود بے معنی ہے ، آپ اس کا ترجمہ من گھڑت ، افسانہ، الف لیلی، طوطا کہانی کر سکتے ہیں۔من گھڑت خبر صرف خبر ہی نہیں ہوتی بلکہ اس میں اتنی لمبی چھوڑی جاتی ہے کہ اسے پڑھنے والا ششدر رہ جاتا ہے۔
جب یہ روائت مستحکم ہو گئی کہ من گھڑت خبر بھی سچی سے زیادہ سچی ہوتی ہے تو قومی سلامتی کونسل کی ایک خبر گھڑی گئی اورا سے ایک انگریزی اخبار میں چھپوا دیا گیا۔ کور کمانڈر کہتے ہی رہ گئے کہ پانچ دن کے اندر خبر گھڑنے والے کا سراغ لگایا جائے مگر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے، نقار خانے کی جگہ آپ ترکی اسٹائل جمہوریت کا لفظ بھی استعمال کر سکتے ہیں، ترکی میں فوج کوئی الٹی پلٹی حرکت کرے تو اسے عوامی شاہراہ پر پیٹھ ننگی کر کے اسی کی پیٹی سے کوڑے مارے جاتے ہیں۔
قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کی خبر من گھڑت تھی ، فوج کا یہی کہنا تھا، وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب نے بھی اسے جھوٹ قرار دیا مگر اخبار کا اصرار تھا کہ بالکل سچی ہے،ہر معیار پر جانچ پڑتال کے بعد اسے شائع کیا گیا ہے۔
خبر تو یہ بھی سچی ہی تھی کہ ٹرمپ نے ہمارے وزیر اعظم کو فون کیا اور ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے۔
ایساہو ایا نہیں ، لیکن ہمارے وزیر اعظم کے حاشیہ برداروں نے سوچا کہ اگر قومی سلامتی کونسل والی خبر جادو اثر ثابت ہو سکتی ہے تو کیوں نہ ٹرمپ کی فون کال کی من گھڑت خبر چلا دی جائے ا ور یہ خبر چل گئی، مگر اس نے ایک دنیا کا دماغ چکرا دیا۔
میڈیا کے لئے جو خبر جاری کی گئی، وہ اردو میں تھی ، انگریزی میں ا سکا بعد میں ترجمہ کیا گیا ، اب کون کہہ سکتا ہے کہ ٹرمپ نے اردو اور وہ بھی فصیح و بلیغ اردو میں گفتگو کی ہو گی۔میں اس گفتگو کے نکات اپنے ہی ا خبار نوائے وقت کی یکم دسمبر کی اشاعت سے نقل کرتا ہوں:
نواز شریف سے ٹرمپ نے کہا کہ آپ کی شہرت بہت اچھی ہے۔( کیا پانامہ تحقیقات کی زد میں آنے والے وزیرا عظم کے ساتھ یہ مذاق نہیں )۔آپ شاندار انسان ہیں اور بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔میں آپ سے ملاقات کامنتظر ہوں۔مجھے محسوس ہو رہا ہے جیسے میں ایک عرصے سے آپ کو جانتا ہوں۔آپ کا ملک شاندار ہے۔پاکستانی بہت ذہین لوگ ہیں، اگرآپ چاہتے ہیں کہ آپ کے دیرینہ تصفیہ طلب مسائل حل ہو ں تو میں مدد کے لئے تیار ہوں۔یہ میرے لئے اعزاز ہو گا۔آپ سے جلد ملاقات کا خواہاں ہوں ( اس فرمائش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے طارق فاطمی کو واشنگٹن بھیج دیا گیا ہے)۔آپ مجھ سے جب مرضی فون پر گفتگو کر سکتے ہیں۔پاکستان جیسے خوبصورت ملک کا دورہ کرنا پسند کروں گا( اوبامہ آٹھ سال میں ایک مرتبہ بھی نہیں آئے، کابل گئے، دلی گئے)۔آپ لاجواب انسان ہیں اورحیران کن کام کر رہے ہیں۔
میں قارئین سے ا س طویل اقتباس کے لئے معذرت خواہ ہوں ۔ مگر یہ ایک تاریخی دستاویز ہے، اگر وحی کاسلسلہ بند نہ ہو گیا ہوتا تو اس پریس ریلیز کوآسمانی صحیفہ قرار دیا جاسکتا تھا۔
پاکستانی فوج کے کور کمانڈرز تو خاموش ہو کر رہ گئے کہ آرمی چیف جنرل راحیل کے آخری دنوں میں وہ کوئی متھا نہیں لگا سکتے تھے مگر ٹرمپ کی ٹیم اس پریس ریلز پر خاموش نہیں رہ سکی، اس نے اس کے مندرجات کی تردید کر دی اور اسے سفارتی پروٹوکول کے منافی قرار دے ڈالا، اس پر ہمارے پی ایم ہاؤس کی طرف سے کوئی اصرا نہیں کیا گیا کہ ان کی پریس ریلیز سچی ہے، مبنی بر حقیقت ہے۔ یہ خاموشی صرف وزیرا عظم کے لئے ہی نہیں ، پاکستان کے لئے خفت کا باعث بنی ہے کہ ہمارا لیڈر اس حد تک بھی جا سکتا ہے کہ جو بات چیت ہوئی نہیں ، اسے امریکی منتخب صدر سے منسوب کر دیا مگر خیر ٹرمپ بھی ایک کاروباری شخص ہے، اسے جلد سمجھ آ جائے گی کہ پاکستانی وزیر اعظم معاملہ فہم بھی ہیں اور ان سے معاملات طے کرنا مشکل کام نہیں۔
ابھی ایک خفت سے چھٹکار ا نہیں مل پایا تھا کہ امرتسر سے بری خبر آ نے لگیں کہ ہمارے محترم سرتاج عزیز کی پگڑی اچھال دی گئی ،بھارتی وزیر اعظم اور افغان صدر ( سرتاج عزیز کے کلاس فیلو)نے ان کو جلی کٹی سنائیں اور پاکستان کو دہشت گرد ی کا مائی باپ کہہ ڈالا، سرتاج عزیز تھوڑا سیر سپاٹاکرنا چاہتے تھے، آدمی مکے جائے اور کعبہ میں حاضری نہ دے سکے تو یہی کچھ سرتاج عزیز کے ساتھ ہوا، انہوں نے نجانے گولڈن ٹمپل کو کس تقدس کے درجے کی جگہ سمجھ لیا کہ اس کی زیارت کے لئے بے تاب ہو گئے مگر بھارتی سیکورٹی نے انہیں ہوٹل سے ہلنے نہیں دیا اور ایئر پورٹ کا رستہ دکھا دیا، اور تو اور ہمارے سفیر نے پاکستانی میڈیا ٹیم سے گفتگو کرنا چاہی تو بھارتی سیکورٹی پھر آڑے آ گئی، ہمارے سفیر عبد الباسط محض اس بات پر خوش ہیں کہ ا نہوں نے بھارتی سیکورٹی کو ڈانٹ پلا دی۔ چلئے یہ حساب تو برابر ہو گیا۔
بھارت، پاکستانی مہمانوں سے جس حسن سلوک سے پیش آرہا ہے، اس کا آغاز اسوقت ہوا تھا جب خورشید قصوری اپنی کتاب کی مہورت کے لئے بھاگم بھاگ انڈیا گئے تھے، وہ خود تو بچ گئے مگر ان کے میزبان کا منہ کالا کر دیا گیا،ا س کے بعد سے توہر پاکستانی مہمان کا جیسے داخلہ ہی بند کر دیا گیا ہو، استاد غلام علی کو شوق تھا کہ وہ بھارت جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کریں مگر بھارت نے دھمکیوں سے ان کا دورہ منسوخ کروا دیا، پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو تو کب سے بھارت نے دیس نکالا دے رکھا ہے ۔اس کے باوجود ہمارے ہاں ایک طبقہ ایساہے جو بھارت پر فریفتہ ہے۔وزیرا عظم کہتے ہیں کہ یہ واہگہ کی لکیر کیوں ہے، وزیر اعلی پنجاب کہتے ہیں کہ وہ دن رات واہگہ پر تجارتیٹرکوں کی قطاریں دیکھنا چاہتے ہیں۔ سول سوسائٹی کی ایک ٹولی ایسی ہے جو بھارت کے یوم آزادی پر واہگہ بارڈر جا کر شمعیں روشن کرتی ہے، کچھ لوگ شادمان چوک کو بھگت سنگھ کے نام سے موسوم کرنا چاہتے ہیں،مودی صاحب نے وزیرا عظم کی نواسی کی شادی میں کسی ویزے کے بغیر ایک سو بیس آدمیوں کے وفد کے ساتھ شرکت کی تھی۔
بھارت یا تو ہمارا مخلص دوست ہے یا بدتریں دشمن، اور ٹرمپ کا رویہ کیا ہو گا، وہی جو اس نے انتخابی مہم میں ظاہر کیا، اب ہم اپنی مرضی سے جو چاہیں خبریں جاری کرتے پھریں، اس کا رویہ بدل کیسے سکتا ہے، اگر پریس ریلیزوں، ڈھمکیریوں، افسانوں،طوطا کہانیوں اور الف لیلی سے بدل سکتا ہے توشاباش ،کوشش جاری رکھی جائے۔اس میں ہرج کیا ہے، ٹرمپ بدلے یا نہ بدلے ، اپن کی تو دل پشوری ہو گئی۔