خبرنامہ

بات ٹینکوں کے آگے لیٹنے سے آگے نکل چکی ہے۔۔اسداللہ غالب

فوج کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے کا شاخسانہ یہ سامنے آیا ہے کہ کراچی میں عوام نے فوج کی ایک گاڑی پر فائرنگ کر کے دو اہل کاروں کو شہید کر دیا ہے۔
ترکی میں عوام نے ٹینکوں کو روکا یا نہیں مگر ہمارے ہاں ڈنکا بج گیا کہ اگر ترکی کے عوام مارشل لا کے نفاذ کو روکنے کے لئے ٹینکوں کے آگے لیٹ سکتے ہیں تو پاکستانی عوام بھی مستقبل میں یہ کر گزریں گے۔
میں کہتا ہوں کہ جس روز مارشل لا کے نفاذ کے لئے پہلا ٹینک کسی چھاؤنی سے باہر نکلا تو میں پہلا شخص ہوں گا جو اس ٹینک کے آگے لیٹ جاؤں گا۔
مگر کون کافر کہتا ہے کہ پاکستان میں مارشل لا لگ رہا ہے، لگ سکتا ہے یا لگے گا۔
بھئی جس دن مارشل لا لگانے کی کوشش کی گئی تو اس وقت عوام کو گھروں سے باہر نکلانے کیلئے آپ کے پاس پاکستان اور بھارت کے ایک سو کے قریب ٹی وی چیلنلز ہوں گے، سوشل میڈیا ہو گا ۔ضرور روکئے گا اس مارشل لا کو مگر آئے رواز ایک ایسامکروہ پروپیگنڈہ کیوں کیا جارہا ہے جس سے عوام کے ذہنوں میں فوج کے خلاف زہر بھرا جا رہا ہے۔
بغاوت ترکی میں ہوئی اور ہمارے ایک اینکر جھٹ چھلانگ لگا کر کرسی پر بیٹھ گئے ا ور لگے لتاڑنے پاک فوج کی مارشل لا لگانے کی کوششوں کو، انہوں نے ترکی کے بہادر عوام کو سلام کیا اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کی۔
اصل میں یہ ایک منظم اور سوچی سمجھی بلیم گیم ہے جس کے ذریعے فوج کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔
اور یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے، بد قسمتی سے کچھ سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جنہیں دن میں بھی مارشل لا کے ڈراؤنے اور بھیانک خواب نظر آتے ہیں۔
کچھ مذہبی اور سیاسی جماعتیں تشدد کی حامی ہیں ، فرقہ ورانہ تعصبات نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے اور وہ انتہا پسندوں کی پیٹھ ٹھونکنے کو عین کار ثواب سمجھتی ہیں۔انہی نے کہا تھا کہ طالبان ہمارے بچے ہیں، یہی ہیں جنہوں نے مسجدوں میں مورچہ لگایا، یہی ہیں جنہوں نے سوات میں ریڈیو چلاکر فوج کے خلاف جذبات بھڑکائے، یہی ہیں وہ جو کہتے تھے کہ پاک فوج کے شہیدوں کو شہید نہیں مانتے، انہی میں کسی نے کہا تھا کہ امریکی ڈرون سے کتا بھی مرجائے تو وہ شہید ہو گا، یہی ہیں وہ جنہوں نے کہا تھا کہ امریکی فوج کاساتھ دیتے ہوئے پاک فوج کے سپاہی اور افسر مریں گے تو انہیں شہید نہیں سمجھیں گے۔ یہی ہیں جو کہتے تھے کہ قبائلی بڑے غیرت مند ہیں،یہی ہیں جنہوننے ڈرون حملوں کے خلاف جلوس نکالے تھے اور ان کا مقصد صرف پاک فوج کو بدنام کرنا تھا کہ ڈرون حملوں کی اجازت وہ دے رہی ہے۔یہی ہیں وہ جو طالبان سے مذاکرات کے لئے کمیٹیوں پر کمیٹیاں قائم کر رہے تھے جبکہ طالبان کے ذہنوں میں زہر بھرا جا چکا تھا اور وہ فوجی چھاؤنیوں، فوجی اسکولوں اور فوجی تنصیبات پر حملے کر کے اورین اور ایواکس طیارے تباہ کر رہے تھے، کیا اورین اور ایواکس طیارے مارشل لا کے نفاذ میں کہیں کام آتے ہیں۔
اصل میں پاک فوج کے خلاف نفرت کی مہم بھارت کے مکروہ اور مذموم عزائم کو بڑھاوا دینے کے لئے چلائی جا رہی تھی، ورنہ اورین اور ایواکس کو تباہ کرنے کی منطق کیا تھی، یہ تو سیدھے سیہدھے بھارت کا مطلب پورا کیا جارہا تھا۔
مارشل لا کے خلاف نعرے بازی نرا ایک ڈھکوسلہ ہے، اصل میں بھارتی عزائم کی تکمیل مقصود ہے۔
بھارتی شردھالووں نے جمہوریت، عوام کی حاکمیت اور سول نظام کی بالا دستی کی اصطلاحیں دھوکے ا ور فریب کے لئے استعمال کی ہیں۔ میں اپنے مرشد نظامی کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے بھارتی شردھالوکی اصطلاح ایجاد کی،ا سے عام کیا۔ میری ان سے جو آخری ملاقات ہوئی،اس میں بھی انہوں نے بعض شردھالووں کا تذکرہ کیا اور مجھے ا ن سے خبردار اور دور رہنے کی تلقین کی۔میں جانتا تھا کہ ان لوگوں نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا جبکہ میرے مرشد نے وزیر اعظم سے کہا تھا کہ دھماکہ نہیں کرو گے تو لوگ حکومت کا دھماکہ کر دیں گے، بھارتی شردھالو ان دنوں امریکہ سے مال بٹورنے کے چکر میں تھے ا ور بھارت کی کشتی میں سواری نہ کرنے کے مشورے دے رہے تھے، مگران کی ایک نہ چلی۔
اس عید کے روز سے بھارتی قابض فوج نے کشمیر میں جبر کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے، اس نے نوجوانوں کو چن چن کر شہید کرنا شروع کر رکھا ہے مگر کیا مجال کہ ہمارے جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کے چیمپیئن ایک لفظ بھی بھارتی فوج کے خلاف لکھیں یا بولیں۔ ایک قندیل بلوچ مری، انہوں نے نسوانی آزادی کا علم بلند کر دیا، ضرور بلند کریں یہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے، مگر کشمیر میں ہر لمحے عفت مآب خواتین کو شہید کیا جا رہا ہے، ان کے حقوق کا خیال ہمارے ہاں کسی کو نہیں۔صرف بھارت میں ایک ناول نگارا ور دانشور خاتون ارون دھتی رائے کشمیری خواتین کی اجتماعی آبروریزی پر احتجاج کر رہی ہے۔
ہمارے دانش وروں ، کالم نویسوں اور اینکروں کو کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم پر کیوں سانپ سونگھ گیا ہے۔
اور ہماری فوج جو مسلسل چودہ برس سے اپنی جانیں ہلکان کر رہی ہے، پانچ ہزار افسرا ور جوان شہید کروا کر اس نے ہمارے سکھ اور چین کی ضمانت فراہم کر دی ہے،ا سے گالیوں سے نوازنا ہم نے مشغلہ بنا لیا ہے۔
اب ترکی میں فوجی بغاوت کیا ناکام ہوئی کہ بلی کے بھاگوں چھینکاٹوٹ گیا، ہمارے کالم نویس، دانشور اور اینکر دن رات کائیں کائیں کرنے لگے کہ اگر ادھر بھی فوج نے آنے کی کوشش کی تو عوام ان ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں گے۔عوام کے ذہنوں میں پہلے سے بھی زہر بھرا ہوا ہے ، ہم ڈھاکہ ٹی وی پر بیٹھ کر مشورہ دیتے ہیں کہ پاک فوج کے جن افسروں اور جوانوں نے بنگالیوں پر نام نہاد مظالم کئے، انہیں نشان عبرت بنا دیا جائے۔
ہمارے ہاں بلوچستان میں کچھ تو بھارت نے فتنہ پھیلا رکھا ہے، کچھ عالمی ریشہ دوانیوں نے کام دکھا رکھا ہے، آج کے بڑے بڑے حکومتی ستارے ا ور اداروں کے سربراہ بلوچستان میں پاک فوج کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔سندھ میں الگ فوج کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے، زرداری کہتا ہے کہ افغانستان کے مہاجرین کو تو پاکستا ن نے پناہ دے دی، مگر پاکستان کے بیس کروڑ مہاجروں کو روئے زمین پر کہیں پناہ نہیں ملے گی، یہ بات ا س نے صدر پاکستان کی حیثیٹ سے کی۔اب وہ یہ کہہ کر ملک سے بھاگ گیا ہے کہ تم نے تین سال رہنا ہے، ہم نے ہمیشہ رہنا ہے، یہ بھی فوج کے خلاف ہی زہریلا اور شر انگیز پروپیگنڈہ ہے۔
اوپر سے ٹینکوں کے آگے لیٹنے کے لئے بھڑکایا جا رہا ہے، دراصل یہی وہ لوگ ہیں اور یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جس نے کراچی میں گزشتہ روز دو بے گناہ فوجیوں کو شہید کیا ہے۔ فوج بے چاری دہشت گردوں کو ڈھونڈھ رہی ہے جبکہ حقیقی دہشت گرد معاشرے میں سب کے سامنے دندنا رہے ہیں۔