خبرنامہ

بجٹ اجلاس میں ہنگامہ اے خدا کیا ہے!!….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بجٹ اجلاس میں ہنگامہ اے خدا کیا ہے!!
30 اپریل 2018

پارلیمنٹ کے ایوان میں مہذب اور شائستہ رویے کا اظہار ضروری ہے۔ پاکستان ایک مملکت خداداد ہے۔ یہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر تخلیق کیا گیا۔ ہمیں اپنے مذہب کی روایات اور رسول خدا ﷺ کے اخلاق حسنہ کو اپنانا چاہئے، قائد اعظم نے تحریک پاکستان کی قیادت کی، ہمیں ان کے شعار کی پیروی کرنی چاہئے ، مگر بجٹ اجلاس کے دوران شدید بد نظمی، شورو غل اور ہنگامے کی کیفیت پیدا ہوئی، اس رویے کی کسی صورت ستائش نہیں کی جا سکتی بلکہ ہر جمہوریت پرست شہری اس کی مذمت میں پیش پیش ہو گا۔
بجٹ اجلاس میں فنانس بل پیش کرنے کے سوا کوئی ا ور بزنس نہیں ہو سکتا ۔ یہ بات اپوزیشن لیڈر اور شاہ محمود قریشی کو خوب معلوم ہے۔ مگر دونوںنے تقاریر جھاڑنے کے لئے اصرار کیا۔ اپوزیشن لیڈر تو کسی استحقاق کا مطالبہ کر سکتے ہیں مگر شاہ محمود ایوان کے ایک عام رکن ہیں ، وہ اپنی پارٹی کے نہ تو پارلیمانی سربراہ ہیں ، نہ پارٹی کے لیڈر۔ نہ پارٹی کے چیف ہیں۔ نجانے وہ کس بل بوتے پر تقریر کرنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ پارلیمنٹ کا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔
فنانس بل پیش کرتے ہوئے کوئی اور بزنس کیوںنہیں رکھا گیا، اس کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کے فناس بل پوری قوم کے ایک ایک فرد کے لئے اہم ہوتا ہے اور عوام کاا ستحقاق یہ ہے کہ وہ بجٹ کی ہر تفصیل سے بر موقع آگاہ ہوں اورا سکے سیاق و سباق سے بھی آشنا ہوں۔ اس بجٹ میں خصوصی دلچسپی تاجروں اور صنعتکاروںاور درآمد و برآمد کنندگان کو بھی ہوتی ہے،یہ جاننا ان کا حق ہے کہ کہ بجٹ ان کے کاروباراور صنعت پر کیااثرات مرتب کرتا ہے۔ بجٹ کو چونکہ لائیو نشر کیا جاتا ہے ، اس لئے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنے والے بیرونی شہری بھی اسے غور سے سنتے ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی اس امر کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ بجٹ ان کے لئے کس حد ساز گار ماحول تشکیل دیتا ہے۔ بجٹ میں ایک دلچسپی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی ہوتی ہے جو سارا سال اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لئے کثیر زرمبادلہ بھیجتے ہیں، وہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے لئے نئے قواعد کیا مرتب کئے گئے ہیں اور انہیں کیا نئی سہولتیں دی گئی ہیں ۔
مگر بجٹ تقریر کے دروان ہنگامے ، شورو غل، ہاتھا پائی اورکوٹھے ٹپنی کے مظاہرے سے سب کچھ ستیا ناس ہو گیا ، خود بجٹ تقریر کرنے والا اس قدر پریشان ہو جاتا ہے کہ ا سکے لئے تقریر جاری رکھنا ممکن نہیں رہتا۔
بد قسمتی سے عمران خاں اور شیخ رشید کی عوامی تقریروں نے پارلیمنٹ کے تقدس کو اس قدر مجروح کر دیا ہے کہ ایوان کی کاروائی چلانا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔جب عمران خان خود یہ کہہ رہے ہوں کہ وہ اس پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے ہیں تو ان کے مراد سعید سے کس رویئے کی توقع کی جا سکتی ہے،نتیجہ وہی نکلا جو ان کے لیڈر چاہتے ہیں کہ یہ ایوان نہ چلے اور بجٹ تقریر کے موقع پر ہنگامہ آرائی ا سکی پہلی مثال اور کوشش نہیں۔ جیسے ہی گزشتہ الیکشن ہوئے عمران نے دھاندلی کی تحریک چلا دی اور ایک شخص کینیڈا سے آن نازل ہوا ۔ دونوں نے مل کر جلوس نکالے اور ملک کے دارالحکومت میں مہینوں تک دھرنا دیا۔ اسلام آباد کے مکینوں کے لئے نقل و حرکت ممکن نہ رہی، وفاقی سیکرٹریٹ ، غیر ملکی سفارت خانے اور سپریم کورٹ تک میں روزمرہ کے معمولات متاثر ہوئے اور بالآ خر اس ہجوم نے قومی ٹی وی کی بلڈنگ پر قبضہ جما لیا ، جہاں سے انہیں نکالنے کے لئے کمانڈو طلب کرنا پڑے ، دھرنے والوںنے پارلیمنٹ کے احاطے پر بھی خیمے گاڑ دیئے اور عملی طور پر پارلیمنٹ محصور ہو کر رہ گئی۔ یہ طرز عمل اختیار کرنے والے اپنے آ ٓپ کو جمہوریت کا چیمپیئن قرار دیتے ہیں ۔ ان میں سے ایک بیرونی شخصیت تو دھما چوکڑی کا شوق پورا کر کے واپس کینیڈا کا رخ کرلیتی ہے مگر عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کا ہنگامہ ہاﺅ ہو سارا عرصہ جاری رہا اور موجودہ پارلیمنٹ کے آخری بجٹ اجلاس میں تو وہ غل غپاڑہ مچایا گیا کہ خدا کی پناہ ! دیکھنے والوں کے سر شرم سے جھک گئے،۔ پاکستان دنیا کی مہذب اور متمدن اقوام کے سامنے شرمسار ہوا۔
جن لوگوںنے یہ اعتراض داغا کہ موجودہ حکومت کو بجٹ پیش نہیں کرنا چاہئے اور اگلی پارلیمنٹ کے حق پر ڈاکہ نہیں ڈالنا چاہئے، ان معترضین سے میرا ایک سوال ہے کہ فرض کیجئے موجودہ حکومت کا آخری روز ہے اور بھارتی فوج جارحانہ یلغار کرتے ہوئے پاکستان کے انٹرنیشنل بارڈر کو تہس نہس کر دیتی ہے تو کیا وہ حکومت جو چند گھڑیوں کی مہمان ہے ، ملک کو بچانے کے لئے مسلح افواج کو حکم جاری کر سکتی ہے یا اس معاملے کو تین ماہ بعد نئی منتخب ہونےو الی پارلیمنٹ کی صوابدید پر چھوڑ کر گھر چلی جائے، اور پاکستان کو بھارتی افواج کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ میرا یہ بھی سوال ہے کہ ایک آپریشن تھیٹر میں کسی مریض کی جان بچانے کے لئے ہنگامی طور پر دماغ یا دل کا کوئی آپریشن جاری ہے اور ا س دوران آپریشن میں مصروف ڈاکٹروں کی ٹیم کی چھٹی کا وقت آن پہنچا ہے تو کیا مریض کا کھلا بھیجہ یا کھلا سینہ چھوڑ کر ڈاکٹروں کی اس ٹیم کو گھر کی راہ لینی چاہئے تا کہ اگلی شفٹ جانے اور مریض جانے۔
واہ جی کیا دلیل ہے کہ حکومت جا رہی ہے اور سالانہ بجٹ پیش کر رہی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ حکومت گھر جائے اور ملک میں مالیاتی بحران پیدا ہو جائے، ا سلئے کہ بجٹ کے بغیر یکم جولائی کے بعد کوئی سرکاری کام جاری نہیں رکھا جاسکتا ۔ان کاموںمیں ایک کام نئے الیکشن کا انعقاد بھی ہے، اب نہ بجٹ ہو گا، نہ الیکشن ہو گا ، نہ نئی پارلیمنٹ آئے گی ۔بس دما دم مست قلندر ہو گا۔ شاید یہ نیا پاکستان ہو گا۔ ایک نیا پاکستان بھٹو کے ہاتھوں تشکیل پایا جس میں قائد اعظم کاآدھا پاکستان نہیں تھا، اب نئے پاکستان کا ناک نقشہ اور جغرافیہ کیا ہوگا۔ یہ سوچ کرکلیجہ منہ کو آتا ہے۔