خبرنامہ

بجٹ سازی کا استحقاق…………..،،،،،اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بجٹ سازی کا استحقاق
29 اپریل 2018

بجٹ پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ کیا موجودہ حکومت کو اپنی ٹرم کے آخری دنوں میں پورے سال کا بجٹ بنانے کا حق حاصل ہے اور کیا پارلیمنٹ سے باہر کا شخص وزیر خزانہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بجٹ اجلاس کے آغاز میں اعتراض اٹھایا کہ حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔، اور وہ اگلی پارلیمنٹ کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالے جو تین چار ماہ بعد ہی وجود میں آنے والی ہے۔ سید خورشید شاہ کا اگلا عتراض یہ تھا کہ جس شخص کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا ہے، وہ نہ سینٹ کا ممبر ہے نہ قومی اسمبلی کا، اس لئے پیپلز پارٹی اس غیر آئینی شخص کے پیش کردہ بجٹ کے عمل کا حصہ نہیں بن سکتی۔ یہ کہہ کر پیپلز پارٹی بجٹ اجلاس سے واک آئوٹ کر گئی۔ اپوزیشن لیڈر کو پرائم منسٹر ان ویٹنگ کہا جاتا ہے، ایسے شخص کو آئین اور پارلیمانی روایات کا مکمل خیال رکھنا اور ان کا علم ہونا ضروری ہے ۔ مگر یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ بجٹ اجلاس میں کوئی ا ور بزنس نہیں ہو سکتا، اپوزیشن لیڈر نے لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی اور اس میں بے بنیاد نکتے اٹھادئے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مفتاح اسماعیل کو آئین کے تحت وزیر خزانہ کا حلف دیا گیا، اپوزیشن لیڈر اگر وزیر اعظم کی طرف سے صدر مملکت کو لکھے گئے خط کا مطالعہ کرنے کی زحمت فرما لیتے تو انہیں پتہ چل جاتا کہ مفتاح اسماعیل ایوان کے لئے اجنبی شخص نہیں تھے۔و زیر اعظم نے صدر کو لکھے گئے خط میں آئین کے آرٹیکل 92(1) اور آرٹیکل 91(9) کے حوالے سے وزیر خزانہ کی تقرری کی درخواست کی تھی ۔ اب یہ آرٹیکلز بہت پہلے سے آئین کا حصہ ہیں اور اپوزیشن لیڈر کے علم میں ہونے چاہیئں تھے۔ان کے تحت کسی بھی غیر رکن پارلیمنٹ کو چھ ماہ کے لئے وفاقی وزیر مقرر کیا جا سکتا ہے۔اس واضح گنجائش اور جوازکے باوجود اپوزیشن لیڈر کا اعتراض برائے ا عتراض ہی سمجھا جائے گا، بجٹ کے موقع پر اپوزیشن کو عام طور پر ہلہ گلہ مچانے کی عادت ہوتی ہے، پیپلز پارٹی تو اجلاس کا بائیکاٹ کر کے باہر نکل گئی مگر تحریک انصاف نے خوب اودھم مچایاا ور پارلیمنٹ کے تقدس کا مذاق اڑیا ، ویسے تحریک انصاف اس پارلیمنٹ کا کیا احترام ملحوظ رکھ سکتی ہے جس پر اس کے لیڈر عمران خان کھلے جلسے میں لعنت بھیج چکے ہوں ۔ ان کا توکہنا تھا کہ وہ اس سے سخت الفاظ استعمال کرنا چاہتے تھے۔ اب جیسا لیڈر ویسے اس کے پیرو کار ۔
رہا یہ سوال کہ کیا جانے والی حکومت پورے سال کا بجٹ پیش کر سکتی ہے۔اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ حکومت ا پنے ا ٓخری دن تک حکومت ہوتی ہے اور وہ ہر آئینی کام کر سکتی ہے،بجٹ بنانا اس کے فرائض میں شامل ہے کیونکہ یکم جولائی کے بعد پاکستان کا نظام بہر حال چلنا ہے، حکومت کا پہیہ رک نہیں سکتا کہ انتخابات ہو جائیں، نئی حکومت آجائے ا ور کہیں چار پانچ ماہ بعد سرکاری ملازموں کو تنخواہیں ملنی شروع ہوں، ہسپتالوں میں ادویہ کی خریداری ہو سکے، ریلوے ا ور ہوائی جہازوں کے لئے تیل خریدا جاسکے۔ ملک کے روز مرہ کے امور کے لئے پیسہ ہر لمحے درکار ہوتا ہے اور وہ بجٹ سازی کے بغیر کہیں سے نہیں مل سکتا۔
دنیا بھر میں بجٹ سالانہ بنیاد پر بنتا ہے، کوئی حکومت ایک ماہ، تین ماہ یا چھ ماہ کا بجٹ منظور نہیں کرتی۔بجٹ اگر منظور ہو گا تو پورے سال کے لئے ہو گا نہیں تو نہیں ہو گاا ور کار حکومت کو روکنا پڑے گا، افراتفری اور انتشار کو دعوت دینا ہو گی۔
میں دور نہیں جاتا۔ پچاسی کے بعد سے بات کرتا ہوں ۔ پچاسی سے لے کر ننانوے تک کوئی حکومت اپنی آئینی ٹرم پوری نہیں کر سکی۔ کوئی تین سال کام کر سکی،کوئی ڈیڑھ سال کوئی اڑھائی سال ۔ مگر اس دور میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی حکومت کے بجٹ سازی کے استحقاق پر سوال اٹھایا گیا ہو۔ ہر حکومت نے سالانہ بنیاد پر بجٹ تیار کیا اور اس حکومت کے گھر چلے جانے کے بعد جو نئی حکو مت ا ٓئی ، اس نے پچھلی حکومت کے منظور کردہ بجٹ کے تحت ہی کام چلایا، اس عرصے میں دو مرتبہ پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور دو مرتبہ ہی مسلم لیگ ن کی مگر کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو نے پیش رو حکومت کے بجٹ کو مسترد نہیں کیا۔ پتہ نہیں یہ حقائق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ جیسے جہاندیدہ پارلیمنٹرین کی نظروں سے اوجھل کیوں ہو گئے۔
اب میں ایک سنجیدہ نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہوں ،۔ پیپلز پارٹی نے اکہتر میں اقتدار سنبھالا ۔ یہ اقدام سراسر غیر آئینی او غیر قانونی اور غیر اخلاقی ا ور غیر سیاسی تھا، اس لئے کہ مسٹر بھٹو کو ایک آرمی چیف جنرل گل حسن نے اپنی صوابدید اور اپنے سیاہ و سفید اختیارات کے تحت سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طورپر حکومت میں بٹھایا تھا۔ دنیا کی جمہوری مملکتوں میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کوئی سویلین شخص مارشل لاایڈمنسٹریڑ بن کر مسلط ہو جائے۔نہ بھٹو سے پہلے ایسا ہوا، نہ بعد میں ایسا ہوا، اس اقدام کو زیادہ سے زیادہ نظریہ ضرورت کے تحت جائز سمجھا جا سکتا ہے مگر یہی پییلز پارٹی نظریہ ضرورت کے خلاف پالیسی کا پرچار کرتی ہے مگر خود اس نے اسی نظریہ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے اقتدار سنبھالا۔ویسے بھی ستر کے انتخابات آل پاکستان بنیاد پر منعقد ہوئے تھے، ان کا کوئی مقصد پاکستان کو دو ٹکڑے کرنا نہیں تھا کہ ایک حصے میں ایک پارٹی حکومت پر قابض ہو جائے اور دوسرے حصے میں دوسری پارٹی قبضہ کر لے۔ آئینی طور پر پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بقیہ پاکستان میں نئے الیکشن کاا نعقاد ضروری تھا تاکہ جو ملک پاکستان کے نام سے بچ گیا تھا، اس کے عوام نئے حالات میں اپنے مینڈیٹ پر نظر ثانی کرتے۔اس لئے کہ ستر کا الیکشن مغربی اور مشرقی پاکستان پر مشتمل ملک کے اقتدار کا فیصلہ کرنے کے لئے منعقد ہوا تھا۔ مشرقی پاکستان میں اگر عوامی لیگ اورا سکے بنگلہ بندھو شیخ مجیب نے قبضہ جما لیا تووہ اس بغاوت کا تیجہ تھا جو مشرقی صوبے کے عوام نے وفاق پاکستان کے خلاف برپا کی تھی۔ مغربی صوبے میں اس بغاوت کا صلہ پیپلز پارٹی کو کیسے مل گیا، اس پر آئین اور قانون کے ماہرین کو دوبارہ غور کرنا چاہئے۔
پاکستان میں آئین اور قانون کی حاکمیت کی صورت حال مثالی نہیں اور جو حلقے اس کے مبلغ بنے ہوئے ہیں ، ان کا اپنا ماضی داغدار ہے تاہم موجودہ حکومت نے پورے سال کا بجٹ پیش کر کے کوئی غیر آئینی کام نہیں کیا بلکہ ایک آئینی فریضہ ادا کیا اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے اسٹیٹس پر بھی اعتراض کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ، یہ محض غل غپاڑہ ہے اور میںنہ مانوں کی ضد، جس کی تائید نہیں کی جا سکتی۔!