خبرنامہ

برطانوی وزیر خارجہ کا بھاشن۔۔اسداللہ غالب

برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہمینڈ نے پاکستان کے دورے میں کہا ہے کہ پاک بھارت مذاکرات کو کشمیر کے ساتھ مشروط نہ کیا جائے اور مذاکرات کا عمل کسی تعطل کے بغیر جاری رکھا جائے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کرنے والے عناصر افغانستان سے آ رہے ہیں۔
دنیامیں ہرکسی کو اپنی رائے رکھنے کی آزادی ہے مگر برطانیہ جیسا ملک جس نے بر صغیر میں اپنے استعمار کے خاتمے کے بعد کشمیر کا مستقل تنازعہ کھڑا کر دیا،اس کا وزیر خارجہ تو اس امر کا مکلف ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرانے میں اپنا اخلاقی کردار ادا کرے، کجا یہ کہ وہ یہ بھاشن دینا شروع کردے کہ کشمیر کو مذاکرات سے مشروط نہ کیا جائے۔ یہ تو سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ موصوف تاریخ سے بے خبر ہوں گے خاص طور پر جب انہوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان بھی سنبھال رکھا ہو۔
مجھے تعجب وزیر موصوف کے بھاشن پر نہیں بلکہ ان لاکھوں پاکستانیوں اور کشمیریوں کے کردار پر ہے جو برطانیہ میں مقیم ہیں اور اپنے ووٹوں سے ایسے لوگوں کو برطانوی پارلیمنٹ کے لئے منتخب کرتے ہیں، برطانوی پارلیمنٹ کے پاکستانی نژاد ارکان کی بے حسی کا بھی ماتم کیا جانا چاہئے جن میں سے بیشتر کے پاس دوہری شہریت بھی ہے۔مگر وہ کشمیر کے مسئلے کی سنگینی واضح کرنے میں ناکام رہے ہیں۔مجھے پاکستان کی قومی کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کا بھی ماتم کرنا ہے جس کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن شاید ہی بیرون ملک جا کر کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے کی زحمت گوارا کرتے ہوں ۔مجھے ان دعووں پر بھی شک ہے کہ برطانوی پارلمینٹ میں کشمیر کاکس تشکیل دے دی گئی ہے۔ چودھری محمد سرور ایک زمانے میں برطانوی ارکان پارلیمنٹ کو کشمیرا ور پاکستان کے دورے پر لایا کرتے تھے، مگر ان دورں کا نتیجہ کیا نکلا، کیا یہ کہ پاکستان کشمیر کو بھول جائے۔
کشمیر کو بھول جانے کا درس ہمیں ایک قریبی ہمسایہ دوست چین بھی دیتا ہے،ا س کا کہنا ہے کہ اس نے ہانگ کانگ کو ایک گولی چلائے بغیر حاصل کیا، صرف پچاس برس تک صبر کیا اور ہانگ کانگ پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں آن گرا، اب وہ تائیوان کی واپسی کے لئے مزید پچاس برس تک انتظار کر سکتا ہے، یہ مشورہ دیتے ہوئے چین بھول جاتا ہے کہ ہانگ کانگ اور تائیوان پر بھارت جیسے عیار دشمن کا قبضہ نہیں تھا۔ چین کے لئے ایسی باتیں کرنا کسی عیاشی سے کم نہیں کیونکہ وہ بہت خوش قسمت ہے کہ ا س نے ایوب خان دور میں کشمیر کا بڑا حصہ پاکستان سے اینٹھ لیا۔جب چین کو گھر بیٹھے بٹھائے سب کچھ مل جاتا ہے تو ظاہر ہے وہ پاکستان سے بھی یہی کہے گا کہ کشمیر کو فی الوقت بھول جاؤ اور بھارت سے دیگر روابط کو آگے بڑھاؤ۔چین یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہانگ کانگ یا تائیوان میں کوئی غیر ملکی فوج روزانہ قتل عام نہیں کرتی اور نہ عفت مآب خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کرتی ہے۔اور نہ ان ملکوں نے چین کا پانی روک رکھا ہے۔
اب برطانیہ سے ایک وزیر اسلام آباد میں آن ٹپکے ہیں تو وہ بھی کشمیر کو بھول جانے کی بات کرر ہے ہیں۔مگر وزیر موصوف کا حافظہ انتہائی کمزور دکھائی دیتا ہے ،اس لئے کہ پچھلی نصف صدی کے عرصے میں پاکستان ا ور بھارت کشمیر کی وجہ سے چار بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اور اس وقت بھی کنٹرول لائن اور سیاچین جیسے دنیا کے بلندتریں میدان جنگ میں دونوں ملکوں کی ا فواج آمنے سامنے بیٹھی ہیں اور آئے روز گولہ باری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ساری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کسی بھی روز بر صغیر میں ایٹمی تصادم پرمنتج ہو سکتا ہے جس میں ڈیڑھ ارب آبادی چشم زدن میں لقمہ اجل بن سکتی ہے۔ماضی قریب میں ایسے خوفناک تصادم کی نوبت بار بار آ چکی ہے۔ بھارتی افواج کم از کم تین بار پاکستان پر یلغار کی نیت سے سرحدوں پر مورچہ زن ہوئی ہیں اور اگر دنیا مداخلت نہ کرتی تو بھارت اپنی شیطنت سے کبھی باز نہ آتا۔اور یہ خطہ ایٹمی شعلوں کی نذر ہو چکا ہوتا۔
بھارت سے کشمیر پر بات نہ کریں تو اور کس مسئلے پر کریں، کیا بھارت ا س مسئلے پر بات کے لئے تیار ہے کہ ا س کے ہاں سے را کے تربیت یافتہ دہشت گرد افغانستان کے راستے پاکستان میں قتل و غارت میں مصروف ہیں۔ چلئے یہ بڑا مسئلہ ہے، چھوٹا سا مسئلہ لے لیتے ہیں ،کہ پاک بھارت کرکٹ سیر یز شروع ہو مگر اس طرف بھی بھارت آنے کو تیار نہیں، اور وہ ایک کرکٹ اسٹیڈئیم کی حفاظت کی یقین دہانی کرانے کو تیار نہیں ، اور تو اور خورشید قصوری اپنی کتاب کی افتتاحی تقریب کے لئے بھارت جاتے ہیں تو ان کے میزبان کا منہ کالا کر دیا جاتا ہے، استاد غلام علی نے توگائیکی کا فنکشن کرنا تھا مگر انہیں بھی بھارت نہیں جانے دیا گیا۔ عزت مآب برطانوی وزیر خارجہ ہماری راہنمائی فرمائیں اور ایک فہرست تیار کر دیں کہ بھارت کن موضوعات پر بات چیت کے لئے آمادہ ہے، کیا وہ سر کریک پر تیار شدہ معاہدے پر دستخط کر دے گا، کیا وہ سیاچین سے فوجیں ہٹانے کے لئے تیار ہے۔کیا وہ پی ٹی وی کے ڈرامے چلانے پر تیار ہے۔کیا وہ پاکستانی اخبارات کی در آمد کے لئے تیار ے یا صرف اپنے آلو اور پیاز بیچنے کی اسے فکر لاحق ہے۔ عجیب بات ہے کہ پاکستانی کیلا ساٹھ روپے درجن ملتا ہے اورا مرتسر سے آنے والا کیلا تین سو روپے درجن اور وہ بھی مٹھا س سے عاری۔ بھارت اس تجارت کی آڑمیں پاکستانیوں کی صرف کھال اتارنا چاہتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہر مسئلے کا حل مذاکرات کی میز پر ہی نکلتا ہے، بالکل ٹھیک کہتے ہیں مگر بھارت سے کوئی پوچھے کہ وہ بار بار مذاکرات سے پہلو تہی کیوں کرتا ہے، کئی دفعہ مذاکرات کے لئے فضا ہموار ہوتی ہے مگر بھارت ایک بچے کی طرح کسی نہ بہانے روٹھ کر مذاکرات سے راہ فرار اختیار کر لیتا ہے۔ جامع مذاکرات کا سلسلہ جب بھی ٹوٹا، بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ٹوٹا۔
بہتر ہو گا کہ برطانوی وزیر خارجہ نئی دہلی کا رخ کریں اور بھارت سے کہیں کہ وہ سیدھے سبھاؤ مذاکرات کی میز پر بیٹھے تاکہ کشمیر سمیت ہر مسئلے کا حل تلاش کیا جاسکے، بھارت کو شاید امن کی ضروت نہ ہو، پاکستان کو شدت سے ہے،اور ہم اپنے اندرونی مسائل بھی ایک بہتر اور پر امن ماحول ہی میں حل کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔