خبرنامہ

برہان وانی کی شہادت کا ایک سال .. اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

برہان وانی کی شہادت کا ایک سال

بھارتی میڈیا، اسرائیلی میڈیا، امریکی میڈیا، یورپی میڈیا حتی کہ پاکستان کے پٹھو میڈیا نے برہان وانی کا تعلق لشکر طیبہ یا جماعت الدعوہ سے نہیں جوڑا،۔ کسی نے اسے مقبو ضہ کشمیر کی حریت پسند تنظیموں سے وابستہ نہیں کیا، بس وہ ایک عام سا کشمیری نوجوان تھا، اس کے بھائی کو بھارتی دہشت گرد فوج نے گولیوں سے بھون دیا تھا، اس کا باپ ایک اسکول ماسٹر تھا، وہ بھی بچوں کو درسی کتابیں پڑھاتاا ور گھر آجاتا، برہان وانی کے بھائی کو اس کی آنکھوںکے سامنے بھارتی فوج نے گولیوں سے شہید کیا تو اس کا خون کھول اٹھا، وہ گھنے جنگلوں کی طرف نکل گیا۔

برہان وانی خالی ہاتھ تھا مگر اس نے اپنے دیس کی آزادی کے لئے سوشل میڈیا کا محاذ چن لیا، وہ ا ٓزادی کا پرچار کرتا تھا،یہ آزادی ا س کا بنیادی حق تھا، اس حق کو امریکہ نے بھی استعمال کیاا ور برطانوی استعمار کو مار بھگایا، اس حق کو نیلسن منڈیلا نے بھی استعمال کیا اور سفید فام استعمار اور استبداد سے نجات پائی، اس حق کو یاسر عرفات نے بھی استعما ل کیاا ور وہ اسرائیل کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا رہا۔الجزائرا ور انگولا نے آزادی کی تحریک چلائی تو میں نویں جماعت میں تھا اور فیض احمد فیض کا لیل و نہار پڑھتا تھاجو ان ممالک کے حریت پسندوں کے حق میں آواز بلند کرتا تھا۔
برہان وانی نے آزادی کے حق میں آواز بلند کی، اس کے ہاتھ میں اسلحہ نہیں تھا مگر پوری وادی کشمیر کے نوجوان اس کے پیغام پر عمل پیرا ہونے کے لئے آمادہ ہو گئے تھے، بھارت نے اس آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کرنے کے لئے جنگلوں کا محاصرہ کیا اور برہان وانی کو شہید کر دیا۔ برہان وانی غیر مسلح تھا جبکہ بھارتی فوج دہشت گردی کے لئے ہر ہتھیار سے لیس تھی، مسئلہ شہادت پر رکا نہیں، ا س کی لاش کو سری نگر کے بازاروں میں گھمایا گیا اور ٹی وی اسکرینوں پر بار بار د کھایاگیا، بھارت کا پیغام یہ تھا کو جوکوئی برہان وانی کے نقش قدم پہ چلے گا، اس کے خلاف اسی قسم کی دہشت گردی کی جائے گی۔
مگر بھارتی فوج کے اندازے غلط ثابت ہوئے، وہ کشمیری نوجوانوں کو خوف زدہ کرنے میںناکام رہی،پہلے تو برہان وانی اکیلا تھا، اب وادی کشمیر کے سبھی نوجوان سروں پہ کفن پہن کر باہر نکل آئے، تاجروںنے دکانیں بند کر دیں، سرکاری ملازمین نے دفاتر کا بائیکاٹ کر دیا، ایک سری نگر کیا، کشمیر کے سارے شہر اور قصبے سنسان ہوگئے، صرف بھارتی فوج کے بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی تھی۔یا گولیوں کی تڑ تڑاہٹ۔
اور پھر سار اکشمیر اچانک ابل پڑ ا، اور آزادی، آزادی کے نعروں سے گونج اٹھا، بھارتی فوج نے اس احتجاج کو دبانے کے لئے نیا حربہ استعمال کرنے کا فیصلہ لیا ، وہ پیلٹ گنوں سے فائر کرنے لگاجس سے تین سالہ بچی سے لے کر نوجوانوں اور بوڑھوں تک کی آنکھیں ضائع ہونے لگیں، کشمیر کے سارے ہسپتالوں کے برآمدے ان زخمیوں سے بھر گئے۔یہ سب کشمیری تھے۔
کشمیر ی حریت پسندوں کو اس حربے سے بھی دھمکایا نہ جا سکا۔آزادی کے نعرے گونج رہے تھے اور بھارتی فوج کے حوصلے پست ہو رہے تھے،اسنے بزدلوں کی طرح غیر مسلح اور بے گناہ کشمیریوں کو سیدھی گولیوں کا نشانہ بنایا۔
برہان وانی کی شہادت کو ایک سال ہونے والا ہے، سات جولائی کو اس کا یوم شہادت ہے اور کشمیریوں کے جذبے ہمالہ کی چوٹیوں کی طرح بلند وبالا ہیں۔ سات جولائی سے تیرہ جولائی تک شہیدوں کی یاد منانے کا اعلان کیا گیا ہے، تیرہ جولائی کا دن بھارتی بربریت کے دن کے طور پر برسوں سے منایا جا رہا ہے، اس روز بھارتی فوج نے پہلی مرتبہ کشمیریوں کے سینے چھلنی کئے تھے اور سڑکوں پر شہیدوں کی لاشوں کا ڈھیر لگ گیا تھا۔
برہان وانی کی شہادت سے جنم لینے والی تحریک کو بھارت بیرونی تحریک نہیں کہہ سکا ۔ اس تحریک کا کوئی تعلق آل پارٹیز حریت کانفرنس ے بھی نہیں ہے مگر سبھی لیڈر خواہ علی گیلانی ہوں ، یا میر واعظ یا مسرت عالم یا آسیہ اندرابی، سبھی نے شہیدوں کے کفن کو پرچم بنا لیا ہے ۔
مجھے معلوم ہے کہ پاکستان میں جو شخص بے گناہ کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرے گا، اسے حافظ سعید کے انجام تک پہنچا دیا جائے گا، مگر مجھے اس انجام سے کوئی خوف ا ور ڈر نہیں ،ا س لئے کہ میرے مرشد کو کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے سے کوئی خوف اور ڈر نہیں تھا، انہوںنے برملا کہا تھا کہ انہیں ایک ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر جموں میں بھارتی فوج کی چھائونی پر داغ دیا جائے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے مرشد نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کوئی انہیں دہشت گرد سمجھتا ہے تو بڑے شوق سے انہیں گوانتا نامو بے میں لے جا کر پنجرے میں بند کر دے ۔اور مجھے اس وقت زیادہ حوصلہ ملتا ہے جب مجھے یہ یاد آتا ہے کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا، کس کس کو دہشت گرد کہو گے، کہہ لو جس کو بھی کہنا ہے مگر ہم کہتے رہیں گے کہ کشمیر میں دہشتگرسی کی مجرم بھارتی فوج ہے اور بھارتی ریاست ہے، اسے ختم ہونا چاہئے، بر بریت کا یہ سلسلہ ستر سال سے جاری ہے، فرعو ن نے بڑے مظالم کئے، بخت نصر ایک جابر حکمران تھا، ہلاکو اور چنگیز نے لاشوں کے ڈھیر پر تخت سجایا،ہٹلر کو ہولو کاسٹ کا مجرم کہا جاتا ہے مگر بھارت نے جبر اور قہر اور دہشت گردی کے سارے ریکارڈ مات کر دیئے ہیں، اور ساری دنیا بھارت کی اس دہشت گردی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، وزیر اعظم نوازشریف نے یو این او میں بھارت کے اس ظلم کا پردہ چاک کیا مگراس ادارے کے ارکان نے سنی ان سنی کر دی، آج مظلوم کشمیری یکہ و تنہا ہیں۔ کہنے کوپاکستان نعرے بہت لگاتاہے مگر کشمیر میں بھارتی جارحیت کا سلسلہ بدستور جاری ہے، تسلسل سے جاری ہے، کسی وقفے کے بغیر جاری ہے اور واحد مسلم ایٹمی طاقت خاموش تماشائی ہے، صرف خاموش تماشائی ہوتی تو کشمیریوں کی آس پھر بھی باقی رہتی، اب تو پاکستان میںجو شخص کشمیریوں کی اخلاقی حمایت کرتا ہے، اسے حافظ سعید بنا دیا جاتا ہے ۔
مگر یاد رکھیں کشمیر کے بغیر پاکستان نا مکمل ہے، پاکستان میں ایک لفظ کشمیر کا شامل ہے۔ اس لفظ کو شامل کرنے سے بات نہیںبنے گی۔ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانا پڑے گا ورنہ جارحیت اور دہشت گردی پہ مائل بھارت ، مستقل طور پر پانی بند کر دے گا، اب بھی وہ ہماری ضرورت کے وقت پانی بند کردیتا ہے اور جب ضرورت نہ ہو تو ڈیموں کے منہ کھول دیتا ہے ا ور پاکستان کوسیلاب میں غرق کر دیتا ہے، پاکستان یہ نقصان برداشت کرنے کے قابل نہیںمگر آفریں ہے کشمیریوں کی کہ وہ جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں اورا ٓزادی ، آزادی کے نعرے لگا تے ہیں اور کشمیر بنے گا پاکستان کے عزم کو دہراتے ہیں۔ بھارتی لیڈر پاگل پن میں کہتے ہیں کہ ایٹم بم مار کر ان کا قصہ ہمیشہ کے لئے پاک کردو۔کوئی ان کی نسل کشی کے منصوبے پروان چڑھا رہا ہے یہی کچھ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا۔
برہان وانی کی شہادت کو ایک سال بیتنے کو ہے، سات جولائی سر پہ ہے، آئے ہم اس شہید اعظم کو یاد رکھیں۔زبانی کلامی ہی سہی ! اسے خراج عقیدت پیش کریں، اس کے لئے چند آنسو تو بہا لیں ۔ اس نوجوان نے کشمیری تحریک حرہت کو ایک نئی جہت عطاکی، اب اس تحریک حریت کو بیرونی بیساکھیوں ی قطعی طور پر ضرورت نہیں، اب حافظ سعید کو ہم مستقل طور پر بند رکھ سکتے ہیں ۔کشمیری نوجوان حافظ سعید کے پیغام حریت کوحرز جاں بنا چکے ۔
پاکستان کی کل فوج سات لاکھ نہیں، بھارت کی سات لاکھ فوج صرف کشمیریوں کے سروں پر سنگینیں تان کر کھڑی ہے۔
سات جولائی سے تیرہ جولائی تک شہیدوں کی یاد منائی جائے گی۔ کشمیریوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا، کشمیری شہدا کو سلام پیش کیا جائے گا۔جو اپنے بل بوتے پر، اغیار کی مدد کا خیال ترک کر کے سر پہ کفن باندھ کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں، وہ غیر مسلح ہیں، مگر ان کاسب سے بڑا ہتھیار ہی یہ ہے کہ وہ غیر مسلح ہیں۔ وہ بے گناہ ہیںاور بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ان کانعرہ ہے آزادی ، یہ آزادی انہیں ملنی چاہئے۔

عید کے بعد ایک اور خوشخبری…عمران خان کا اعلان