خبرنامہ

بریفنگ پر بریفنگ، کس کی سنیں کس کی نہ سنیں….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بریفنگ پر بریفنگ، کس کی سنیں کس کی نہ سنیں….اسد اللہ غالب

پانچ سال تک قوم نے عمران خان کی تقریریں سنیں۔ اب عمران خان کے ساتھی چپ رہنے کی اگلی پچھلی کسریں نکال رہے ہیں۔ ایک نہیں دو دو بولنا شروع ہو جاتے ہیں اورا س اثناء میں تیسرا بھی منہ کھول لیتا ہے۔ ٹی وی ایڈیٹر کو سجھائی نہیں دیتا کہ کس کی ا ٓواز سنائیں اور کس کی بند رکھیں۔
پانچ ستمبر کو اس قدر شور محشر برپا ہو اکہ ٹی وی چینلوںکے پا س کیمرے کم پڑ گئے۔ کوئی بھی پشاور اور لاہور کے نئے گورنرز کی حلف برداری لائیو نہ دکھا سکا۔
عام حالات میں امریکی وزیر خارجہ پاکستان آئے تو ٹی وی کیمرے نور خان ایئر پورٹ پر کئی روز پہلے ہی فوکس ہو جاتے ہیں ، پہلے ہم انگریز وائسرائے کے ماتحت تھے ، اب امریکی وائسرائے سے تھر تھر کانپتے ہیں اور ہانپتے ہوئے اس کا استقبال کرتے ہیں۔ ایک امریکی وزیر خارجہ کی آمد کا ایونٹ ہوتا تو برداشت کیا جا سکتا تھا اور اس پر قوم فوکس بھی کر سکتی تھی۔ مگر اسی روز کابینہ کی میٹنگ بھی تھی۔ اس میٹنگ کے دوران سے ا ٹھ کر کوئی صاحب بریفنگ دینے کے لئے کیمروں کے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ان سے کوئی ضروری سوال کیا جاتا تو کہہ دیتے کہ اس کا جواب وزیر اطلاعات دیں گے جو وفاقی کابینہ کے اجلاس سے فارغ ہو کر آتے ہی ہوں گے۔ میڈیا کے کان کھڑ ے ہو جاتے کہ ابھی فواد چودھری کو بھی سنناپڑے گا۔ انہیں بھی پانچ برس سے سنتے چلے ا ٓئے ہیں اور ان کے پاس اب کوئی نئی بات نہیں۔ خان صاحب کی پرانی باتیں دہراتے ہیں۔ ان سے جو نئی بات جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے ٹال دیا کہ اس کی تشریح وزیر خارجہ کریں گے۔اف خدایا! ابھی ان کے پاس کہنے کو کیا رہ گیا ہو گا۔ ٹی وی کیمرے امریکی وفد کے تعاقب میں تھے۔ فارن آفس میں جھٹ پٹ ایک اجلاس ہوا ور چالیس منٹ کے بعد ختم شد۔ یا اللہ! اس کے لئے جی ایچ کیو نے آٹھ گھنٹوں کی بریفنگ دی تھی، چالیس منٹ میں اس کا خلاصہ بیان نہیں کیا جاسکتا تھا، ٹی وی والے ہلکان ہو رہے تھے کہ امریکی وفد نے اب وزیر اعظم ہائوس کا رخ کر لیا تھا جہاںدونوں حکومتوں کے مابین وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے تو پھر فارن آفس میں کیا ہوا اور یہاں سے فراغت ملی تو کیمروں کا رخ جی یچ کیو کی جانب مڑ گیا، حکومت نے تو اعلان کیا تھا کہ اب خارجہ پالیسی فارن آفس میں بنے گی مگر یہ اعلان کرنے والے وزیر خارجہ ہی نے یہ اعلان کیا جو کچھ دفاع سے متعلق تھا،ا س پرا ٓخر فوجی جرنیلوں کے فوجی جرنیلوں ہی سے مذاکرات ہونے تھے مگر امریکی وزیر خارجہ کب سے جرنیل بن گئے۔لو جی اب جو وزیر خارجہ کی بریفنگ شروع ہوئی تو شروع ہی رہی، یہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی، کھایا پیا کچھ نہیں گلا س توڑا، بل بارہ آنے والا حساب تھا۔ نہ امریکیوںنے ڈو مور کا مطالبہ کیا ، نہ پاکستان نے ڈو مور کے لئے جھولی پھیلائی۔ تو مطلب یہ تھا کہ ایک دوسرے کی منہ دکھلائی کی رسم پوری کی گئی۔ویسے اتنے سادہ نہ بنیئے حضور ! امریکی وزیر خارجہ نے واشنگٹن روانگی سے قبل یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان سے جوکچھ کہنا تھا، وہ ہمارے دو جر نیل کہہ چکے ہیں اور انہوںنے کہہ دیا ہے کہ کچھ لینا ہے تو کچھ کر کے لو۔
پانچ گھنٹوں کا پتہ ہی نہ چلا ، اتنی تیزی سے گزر گئے کہ ا س اثناء میں امریکی جہاز کے انجن شاید بند نہ کئے گئے۔کیونکہ اسے شتابی سے نئی دہلی کے لئے پرواز کرنا تھی۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ امریکی وزیر خارجہ ہمارے چند صحافیوں کوساتھ بٹھا لیتے تاکہ وہ بھارت جاکر پاکستان کو جو دو نقط سناتے ، وہ لائیو ہم تک پہنچ جاتا۔ اب اس کے لئے ہمیں انٹرنیٹ پر بھارتی اخبارات سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اتنا تو سنا ہے کہ امریکہ نے بھارت کو سٹرٹیجک پارٹنر کہا ہے۔میں دو ہزار میں امریکی حکومت کی دعوت پر واشنگٹن گیا تو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور پینٹی گان میں یہ سن سن کر کان پک گئے کہ پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں ، بھارت ایک وسیع تجارتی منڈی ہے اور آئندہ سے امریکہ اس کا تجارتی پارٹنر ہے۔ اب یہ راز کون کھولے گا کہ بھارت نے تجارتی سے اسٹریٹیجک پارٹنر بننے تک کیا کیا پاپڑ بیلے۔ایک سبب تو یہ نظر آتا ہے کہ بھارت نے افغانستان میں دہشت گردوں کی تربیت کی اور انہیں پاکستان میں خون کی ہولی کھیلنے کے لئے استعمال کیا۔ دوسرا سبب یہ نظر آتا ہے کہ چین کا گھیرائو کرنے کے لئے امریکہ کو بھارت کی ضرورت ہے۔ پاکستان تو چین کے ساتھ کھڑا ہے اور تن کر کھڑا رہے گا کہ اس کی معاشی بقا اسی میں ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ بھارت روس کا اسٹریٹیجک پارٹنر تھا، روس ہی کی مدد سے ا س نے پاکستان کو دو لخت کیا۔ اس زمانے میں پاکستان امریکہ کا اسٹریٹیجک پارٹنر تھا مگر امریکی بحری بیڑہ آبنائے ملاکا میں پھنس کر رہ گیا اورا س اثناء میں اندرا گاندھی نے دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ امریکہ پر جس نے اعتبار کیا وہ اسی طرح مارا گیا۔
بدھ کے روز جتنی بھی بریفنگز ہوئیں ، ان میں کوئی اسٹریٹیجک نکتہ نہ اٹھایا گیا۔ بس شور ہی شور تھا اور لگتا یہ ہے کہ پاکستانی عوام نئی حکومت کا شورو غل اگلے پانچ سال تک سنتے رہیں گے، ٹاسک فورسیں بنتی رہیں گی، مسائل کو سمجھنے کی کوشش جاری رہے گی۔سادگی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہے گا،چندقیمتی کاروں، اور سرکاری بنگلوں کی نیلامی کی خبریں ہیڈ لائنیں بنتی رہیں گی ۔ میں حساب کتاب کا ماہر نہیں۔ کوئی صاحب کیلکولیٹر پکڑیں اور مجھے بتائیں کہ ساری قیمتی کاریں نیلام ہو جائیں ، سرکاری بنگلے بھی فروخت ہو جائیں اور بیرنی بنکوں میں خفیہ دولت بھی واپس آجائے جو کہ ایک امر محال ہے تو کیا وہ سارا قرضہ ادا ہو جائے گا جس کا اعلان عمران خان نے بار بار کر کے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان ایک مقروض بھک منگا ملک ہے،۔قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک ہے۔ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے نہ کوئی نیا قرض دینے کے لئے تیار ہو گا ، نہ کوئی سرمایہ کارا ٓئے گا، اور نہ گھر بار بیچ کر پرانا قرضہ ہی ادا ہو سکے گا مگر یہ حساب کی بات ہے اور مجھے ابھی اس کے لئے راہنمائی کی ضرورت ہے۔ میں نے ایک روز حساب لگایا تھا کہ بینائی ضائع ہو جانے سے کام کاج کے قابل نہ رہا اور گھر کے سارے اثاثے بیچ کر کتنے ماہ گزارا کر سکتا ہوں ۔ پتہ چلا صرف دو ماہ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ باتیں کم کی جائیں ۔ جو کچھ بریفنگ میں کہنا ہے۔اس کی پریس ریلیز جاری کر دی جائے، چھپنے اور نشر ہونے کے قابل ہوئی تو نیوزایڈیٹر کی نظر لازمی ان پر پڑے گی مگر اس وقت تو عوام تحریک ا نصاف کے لیڈروں کے چہرے دیکھ دیکھ کر عاجز آ چکے ہیں، وہ کیسے ہاتھ جوڑیں کہ بھئی دفتروں میں بیٹھو ، کوئی ہوم ورک تو کیا نہیں ، اب ہی کسی سے مشاورت کر کے پلاننگ کر لو اور پھر اس پر عمل درا ٓمد کے لئے سر جھکا کر جت جائو۔ کچھ کرلو نوجوانو! اٹھتی جوانیاں ہیں، تحریک انصاف کے بارے میں دعویٰ ہے کہ اس میں نوجوان بہت ہیں جی ہاں شاہ محمود قریشی سے لے کر شیخ رشید تک سبھی پچھلے چالیس برس سے نوجوان ہی چلے آرہے ہیں۔ ہاں ہمارے محکمے کے وزیر فواد چودھری کچھ کچھ جوان دکھتے ہیں ،اسی لئے فر فر بولتے ہیں۔ وزیر اطلاعات کوتو بس بولنا ہی ہوتا ہے مگر میں پھرآپ کو واشنگٹن لئے چلتا ہوں۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی روزانہ کی بریفینگ کوئی دس منٹ میں ختم ہو گئی۔ میں حیران تھا کہ ا س میں سے اگلے روز کے اخبارات کی ہیڈلائینیں نکل آئیں۔ جاپان میں فارن آفس کے ترجمان نے بھی کوئی دس منٹ سے زیادہ کی بریفنگ نہ دی۔ میںنے بعض سوال پوچھے تو ہنس کر کہنے لگے ، ابھی مجھے ایک اور میٹنگ میںجاناہے۔ شام کو میرے گھر ڈنر پر تشریف لائیں اور کھل کر بات کریں ، یہ گھر چند مرلے کا بھی نہیں تھا مگر افسر مذکور کادل بہت وسیع تھاا ور رات گئے تک ان سے باتیں ہوتی رہیں۔اب وقت کی کوئی قید نہ تھی۔ وہاں سے تب اٹھے جب میزبان کی ا ٓنکھوں میں نیند بھر آئی۔ جاپانیوں کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کب جاگتے ہیں اور کب سوتے ہیں ۔وہ اپنی نیند زیادہ تر بس اور ریل کے سفر میں پوری کرتے ہیں۔ملائیشیا جانا ہوا اور ان کے ایٹمی پروگرام کے چیئر مین ڈاکٹر غزالی نے دو فقروں میں بریفنگ ختم کر دی کہ ہم پر امن ملک ہیں، ایٹمی پرگرام صرف صحت اور چند دوسرے سماجی شعبوں کے کام آتا ہے۔ یہ کہہ کر انہوںنے دعوت دی کہ اب آپ ہماراا یٹمی ری ایکٹر دیکھ لیں۔ ہمارے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہے۔ واشنگٹن کی سینٹ میں ایک بریفنگ دینے کے لئے ایوان سے اٹھ کر سینیٹر ایلگور ہمارے پاس آئے ، وہ نائب صدر بعد میں بنے،۔ ہمارے وفد میں چوبیس ممالک کے صحافی شامل تھے۔ ایلگور نے کل پانچ منٹ تک گفتگو کی ا ور پندرہ منٹوں تک ہمارے سوالوں کے جواب دیئے۔ جس میں سے دس منٹ انہوںنے میرے ایک سوال کے جواب پر لگا دیئے۔
دنیا کے پاس باتیں کرنے کے لئے وقت بہت کم ہوتا ہے ، ہم باتیں کرتے ہیں۔ دنیا کام کرتی ہے۔