خبرنامہ

بغاوت کو خود ترک فوج نے کچلا۔۔۔۔اسداللہ غالب

وقت نیوز کے پروگرام میں لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی نے ترکی کے حالیہ واقعے پر تبصرہ کیا، یہ ایک نئے زاویئے سے تجزیہ تھا، میں نے انہیں فوری فون کیا کہ آپ سے مل کر مزید معلومات لینا چاہتاہوں، اتوار کی صبح کو انہوں نے گھر آنے کی دعوت دی، ابھی ان سے مل کرآ رہا ہوں اور میں نے اپنے کچے پکے ذہن میں جو کچھ اندازے قائم کئے تھے، ان سب کی تصدیق ہو گئی۔
جنر ل صاحب شرح صدر سے بات کرتے ہیں، لگی لپٹی رکھے بغیر تجزیہ کرتے ہیں اور کڑی سے کڑی ملا کر اپنے تھیسس کو پایہ ثبوت تک پہنچاتے ہیں۔
پہلے اہم نکات سن لیجئے۔
یہ ایک بچگانہ کوشش تھی،ترک ا فواج سے کسی سطح پر اس کا کوئی تعلق نہیں تھا،انفرادی طور پر کسی گروپ نے یہ پلاننگ کی، جو کتابی اصولوں کی رو سے بھی ناقص تریں تھی۔اسے فوجی بغاوت یا مارشل لا کے نفاذ کی کوشش کہنا فضول بات ہے، ترک فوج نے اسے خود ناکام بنایا اور لوگ اس وقت نکلے جب انہوں نے دیکھا کہ باغی قطعی طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔پورے آپریشن میں کسی ایک جگہ بھی باغی فوجی کو مسلح حالت میں نہیں دیکھا گیا، ایک فوجی کو جب عوام نے پیٹنا شروع کیا تو اس پر بھی اس نے اپنی جان بچانے کی خاطر فائرنگ نہیں کھولی،تو لگتا یہ ہے کہ وہ گھر سے مار کھانے ہی نکلا تھا، اور بغاوت کی بات صرف شو شا تک محدود تھی، آخری تجزیئے میں شک گزرتا ہے کہ ساری سازش خانہ ساز تھی، اس کے ذریعے وقؤی طور پر صدر اردوان نے مخالفین کا نمدا کسنے کا منصوبہ پورا کیا ہے ا ورجس سرعت سے تین ہزار فوجیوں اور تین ہزار ججوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ صدر اردوان نے یہ فہرستیں پہلے سے مرتب کرر کھی تھیں ، بس کسی موقعے کا انتظار تھا جو یا تو کسی کی بیو قوفی سے پید اہو گیا یا اس کے لئے بھاڑے کے ٹٹو استعمال کئے گئے ا ور بغاوت کا ڈرامہ رچایا گیا۔
جنرل غلام مصطفی منگلا سٹرائیک کور کو کمان کر چکے ہیں ،انہیںیہ کریڈیٹ جاتا ہے کہ انہوں نے آرمی اسٹریٹجیک فورسز کمانڈ کی داغ بیل ڈالی۔انہیں حکومت پاکستان نے ہلال امتیاز (ملٹری) س ے نوازا۔
اس پس منظر کے ساتھ جنرل صاحب کوئی ہلکی بات نہیں کر سکتے۔ ان کے تجزیئے کے پیچھے گہرا اور وسیع تجربہ جھلکتا ہے۔ سنئے وہ کیا کہتے ہیں۔
فوجی بغاوت کے پہلے مرحلے میں سرکاری ریڈیو اور ٹی وی کو بند کیا جاتا ہے۔ ٹیلی فون اور موبائل سروسز منقطع کر دی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا سے عالمی رابطہ کاٹ دیا جاتا ہے، صدر، وزیراعظم کے دفاتر پر قبضہ کیا جاتا ہے، حکمران پارٹی کا ہیڈ کوارٹر سیل کیا جاتا ہے۔اور پورے ملک کو ایک لحاظ سے منجمد کر دیا جاتا ہے، عام آدی کو کچھ پتہ ہی نہیں چلنے دیا جاتا کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے، ان تما م کاموں کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ بغاوت کی کمان اعلی تریں فوجی قیادت کے ہاتھ میں رہے۔
ترکی میں جن لوگوں نے یہ ڈرامہ رچایا ، وہ ان میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کر سکے۔اس لئے آرمی چیف، ایئر چیف ا ور انٹیلی جنس چیف کی گرفتاری کے باوجود مواصلات اور میڈیا کانظام جوں کا توں چلتا رہا تو لوگوں کواندازہ ہوگیا کہ کوئی بلف کھیل رہا ہے اور وہ گھروں سے باہر نکل آئے، جس ٹینک پر لوگ چڑھے ہوئے ہیں ، اس کی بیرل آسمان کی طرف ہے، اگر یہ ٹینک باغیوں کے استعمال میں ہوتا تو اس کی بیرل شعلے اگل رہی ہوتی اور کوئی شخص اس کے قرب وجوار میں پھٹکنے کی جرات ہی نہیں کر سکتا تھا۔جس ٹینک کو کسی شخص نے روک رکھا ہے، وہ بڑے سکون کے ساتھ لیٹا ہوا ہے ا وراس کی نظریں پیچھے کے منظر پر مرکوز ہیں۔ یہ چونڈہ کی ٹینکوں کی جنگ نہیں تھی جس میں کہا جاتا ہے کہ ہمارے جوان بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے۔گمان یہ ہے کہ ٹینک کے سامنے لیٹ کر بنائی گئی تصویر سیلفی ہو اور شوقیہ کھینچی گئی ہو۔
باغیوں نے اس دن کاروائی کی جب صدر اردوان تفریحی چھٹیوں پر تھے، صاف ظاہر ہے کہ جس شخص کا تختہ الٹا جانا مقصود ہے ، وہ تو ہاتھ ہی نہیں آسکتا تھا، دوسرا اہم تریں حکومتی عہدیدار وزیراعظم تھا، جسے چھونے کی کوشش ہی نہیں کی گئی اور اس نے صدر کی غیر حاضری میں احکامات دینے کا فریضہ سنبھال لیا، کیا بغاوت کے دوران کسی کو اس قابل چھوڑا جاسکتا ہے کہ وہ مزاحمت کر سکے۔
ترکی کے اس واقعے کا پاکستان سے تقابل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جنرل صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اب تک جتنے بھی فوجی انقلاب رونما ہوئے، وہ آرمی چیف کے ہاتھوں ہوئے، مشرف کی مثال الگ ہے کہ وہ ملک میں موجود نہیں تھا مگر وہ ایسا انتظام کر کے باہر گیا تھا کہ اگر فوج سے چھیڑ چھاڑ کی جائے تو جی ایچ کیو نے کیا اقدامات کرنے ہیں اور اسی انتظام کی رو سے ملک کے ہر کور کمانڈر نے اپنی اپنی جگہ پر ضروری کاروائی کر کے مشرف کی واپسی ممکن بنائی اور مارشل لا کا اعلان اس وقت کیا جب فوج پورے ملک کو کنٹرول کر چکی تھی،ا س کوشش میں رات کا آخری پہر شرو ع ہو چکا تھا۔ایوب خان کے مارشل لا کی کسی نے مزاحمت نہیں کی، جنرل یحی خاں نے ان سے کمان اپنے ہاتھ میں لے لی اور لوگ خاموش رہے حالانکہ ایوب خان کے خلاف ایک عوامی تحریک عروج پر تھی، ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد تو مٹھائیاں تقسیم کی گئی اور حلوے کی دیگیں چڑھائی گئیں۔ بھٹو کی پھانسی پر کوئی رد عمل سامنے نہ آیا۔ضیا کی شوری میں آج کے سارے سیاستدان بیٹھے ہوئے تھے،خواجہ صفدر تو اس شوری کے چیئر مین تھے، راجہ ظفرالحق ضیا کے اوپننگ بیٹس مین کہلاتے تھے، نواز شریف، شجاعت، پرویز الہی، حامد ناصر چٹھہ، جاوید ہاشمی سبھی ضیا کے ا قتدار میں شریک تھے۔جنرل مشرف کی تشکیل کردہ پارلیمنٹ میں سبھی جغادری سیاستدان شامل ہوئے، اچکزئی بھی وہیں تھا، اور کبھی مشرف کے خلاف نہیں بولا،پیپلز پارٹی کی قائد بے نظیر نے عالمی کرداروں کی مدد سے مشرف کے ساتھ این آر او کیا اور جلاوطنی ختم کی، نواز شریف تو ان کے پیچھے پیچھے چلا آیا۔آج نواز شریف کے بیشتر ساتھی مشرف کے ساتھی رہے۔دھرنے کے دوران جنرل راحیل نے مداخلت کر کے حکومت کی مدد کی اور اسے مذاکرات کا رستہ دکھایا۔تین برس سے حکومتی ٹیم جنرل راحیل اور فوج کوکڑوی کسیلی سنا رہی ہے، ترکی میں بغاوت کی آڑ میں بھی فوج کو للکارا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ہوسکتا ہے۔
جنرل مصطفی کہتے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف کی واپسی پر انہیں چند ضروری نکات لکھ کر ارسال کئے تھے ا ور ان کے ذاتی فون پر ایس ایم ایس بھی کیا تھا، اس کی گواہی گوجر خان کے چودھری ریاض دے سکتے ہیں جن میں پہلا نکتہ یہ تھا کہ وہ ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھیں، ننانوے کے سانحے پر تنہائی میں غور کریں کہ ا ن کے ساتھ کس نے کیا کیا۔دوسرا نکتہ یہ تھا کہ میثاق لندن کو میثاق پاکستان میں تبدیل کریں اور وسیع تر اتحاد تشکیل دیں، تیسرے ،ن لیگ کے قائد بننے کے بجائے قومی مصالحت کار،کا رول ادا کریں اورملک میں لیڈر شپ کا خلا پر کریں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ نواز شریف نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا، وہ اب بھی کسی موقع کی تاک میں ہیں اور ان کی جماعت ا ور باقی اتحادی ترکی کے واقعے پر بغلیں بجا رہے ہیں تو وہ یہ جان لیں کہ اس بغاوت کے نتیجے میں صدر اردوان ذاتی حیثیت میں کمزور پڑ جائیں گے، وہ جس انتقام کے رستے پر چل نکلے ہیں،اس میں پھسلن ہی پھسلن ہے( جاری ہے )