خبرنامہ

بلدیاتی اداروں کی اصلاح کی سوچ… اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بلدیاتی اداروں کی اصلاح کی سوچ… اسد اللہ غالب

حکومت نئی ہے۔ اس کی سوچ بھی نئی ہے۔ یہ ہر شعبہ زندگی میں اصلاحات چاہتی ہے۔ اس نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور اس تبدیلی کا آغاز وہ حکومت کی سب سے نچلی سطح سے کرنے کی خواہاں ہے۔ اس مسئلے پر ابھی سوچ بچار جاری ہے۔ مشاورت کا عمل مکمل ہو تو اس کی تفصیلات منظرعام پر لائی جائیں گی اور پھر اس پر عملدرآمد کامرحلہ شروع ہو گ

بنیادی طور پر حکومت یہ چاہتی ہے کہ گاﺅں کی سطح پر ایک کونسل منتخب کی جائے جسے مقامی مسائل کے حل اور ترقیاتی سکیموں کےلئے براہ راست فنڈز دیئے جائیں اور ان سے اوپر تحصیل یا ضلع کی بنیاد پر ایک بڑا منتخب ادارہ ہو۔ ان کے چیئرمین براہ راست منتخب کئے جائیں اور انہیں تحصیل اور ضلع کی حد تک کام مکمل کرنے کا مکمل اختیار ہو۔ ان کاموں کےلئے ماضی میں ایم پی اے اور ایم این اے کو فنڈز ملتے تھے۔ جو اپنے حلقے میں سکیموں کی سفارش کرتے تھے اور حکومت کی طرف سے منظوری ملنے کے بعد ان سکیموں کو افسر شاہی مکمل کراتی تھی مگر ٹھیکوں میں ارکان اسمبلی مداخلت کرتے تھے۔ یا تو ان کی اپنی خانہ ساز کمپنیوں کو ٹھیکے دیئے جاتے تھے یا ارکان اسمبلی اپنے چہیتے ٹھیکیداروں کو کام دلواتے تھے اور فنڈز کا بڑا حصہ کمشن میں وصول کر لیتے تھے۔ اس نظام میں ایک خرابی یہ تھی کہ زیادہ تر ترقیاتی سکیمیں حکومتی ارکان کی مرضی سے تیار ہوتی تھیں اور وہ انہی دیہات پر نوازشات کی بارش کرتے تھے جہاں سے انہیں اکثریتی ووٹ ملتے تھے۔ اپنے مخالف ووٹروں کے علاقے کے لوگوں کو ترقی کی برکات سے محروم رکھا جاتا تھا۔ مجھے اپنے گاﺅں فتوحی والہ میں لڑکیوں کے پرائمری سکول کو مڈل سکول کا درجہ دلوانا تھا۔ مقامی ایم پی اے نے میری ایک نہ سنی تو میںنے سیکرٹری تعلیم مرحوم ظہورالحق شیخ سے کہا کہ وہ مدد کریں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ا س سال کی منصوبہ بندی تو مکمل ہو چکی۔ اگلے سال میرا وعدہ ہے کہ آپ کا سکول اپ گریڈ ہو جائے گا ۔ بس آپ کسی کو اس کےلئے اراضی کا عطیہ دینے پر رضامند کر لیں۔ یہ کام تو ہو گیا مگر میں صحافی نہ ہوتا یا ظہورالحق شیخ میرے کلاس فیلو نہ ہوتے تو میرے گاﺅں کی بچیاں آج بھی رل رہی ہوتیں مگر بعد میں تمام تر کاوشوں کے باوجود میں اسے ہائی سکول نہیں بنوا سکا کیونکہ ایک بار پھر یہی رکن اسمبلی چالیس برس سے میرے راستے میں حائل ہیں۔

پاکستان میں بلدیاتی ادارے اتارچڑھاﺅ کا شکار رہے۔ جو سیاسی جماعتیں جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں‘ ان کے دورحکومت میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات شاذ ہی ہوئے اور اگر ہوئے بھی تو انہیں کوئی اختیار نہیں دیا گیا جیسا کہ شہبازشریف کے دونوں ادوار میں ان اداروں کے لئے مختص رقوم لاہور، پنڈی اور ملتان جیسے بڑے شہروں میں لگا دی جاتی تھیں اور بلدیاتی ادارے منہ دیکھتے رہ جاتے تھے۔

یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ بلدیاتی ادارے ہمیشہ فوجی آمروں کے دور میںپھلے پھولے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ فوجی آمروں کو مقامی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے عشق تھا بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان فوجی آمروں کو عوامی حمایت درکار تھی جس کے لئے یونین کونسلوں کا نظام ہی ان کی دستگیری کرسکتا تھا۔ سب سے پہلے ایوب خان نے یہ ادارے بنائے اور انہیں بنیادی جمہوریت کا نظام قرار دیا۔ میں ان دنوں سکول کا طالبعلم تھا اور مجھے یاد ہے کہ بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے حق میں نامور ادیبوں اور سکالروں سے کتابچے لکھوائے جاتے تھے۔ ایک کتابچہ مولوی عبدالحق نے بھی لکھا۔ نجانے کس مجبوری میں لکھا کیونکہ اگر انہیں اندازہ ہوتا کہ فوجی ا ٓمر نے آگے چل کر صدارتی الیکشن بھی لڑنا ہے اور اس کے لئے یونین کونسلوں کے اراکین کونسٹی چیونسی بنانا ہے تو شاید وہ کبھی اس نظام کی برکات پر قلم نہ اٹھاتے۔ فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان نے صدارتی الیکشن میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دینے کے لئے یہ حربہ استعمال کیا کہ مغربی پاکستان کے تمام کونسلروں کو ایک ماہ پہلے ہی اغوا کر لیا ور انہیں چھوڑا تب جب ان سے اپنے حق میں مہریں لگوا لیں۔ اس طرح ایوب خان بھاری اکثریت سے مغربی پاکستان میں تو جیت گئے مگر مشرقی پاکستان نے ان کے خلاف ووٹ دیا۔ یہیں سے پاکستان کے دونوں حصوں میں دوری پیدا ہو گئی جسے اگلے فوجی آمر یحییٰ خان نے درجہ کمال تک پہنچا دیا اور جس سے پاکستان دولخت ہو گیا۔ ایوب کے بعد تیسرے فوجی آمر جنرل ضیا کو بھی بلدیاتی اداروں کی اشد ضرورت پیش آئی اور اس نے ان اداروں کو کھل کر پیسے دیئے جن سے فارم ٹو مارکیٹس روڈز کا نظام پورے ملک میں پھیلا۔ فارم سے مراد قانون میں تو گاﺅں ہی تھا مگر ضلعی چیئرمینوں نے اپنے کھیتوں تک یہ سڑکیں بنوا لیں۔ جنرل ضیا کے بعد محترمہ بے نظیربھٹو اور نوازشریف باری باری وزرائے اعظم بنے مگر کیا مجال کہ انہوں نے بھولے سے بھی بلدیاتی اداروں کو زندہ کیا ہو۔ چوتھے فو جی آمر جنرل پرویزمشرف نے بھی عوامی مقبولیت کے لئے بلدیاتی اداروں کا سہارا لیا۔ اس طرح پاکستان کی ابتدائی ساٹھ برس کی تاریخ میں مقامی حکومتوں کا نظام اپنی اصل روح کے مطابق کام نہ کر سکا۔ جنرل ضیا نے ایک ہتھکنڈا اور بھی استعمال کیا کہ ارکان اسمبلی اور سینٹ کو بھاری ترقیاتی فنڈز الاٹ کئے جسے انہوں نے کلہ فنڈ کا نام دیا۔ لاہور میںاتفاق ہسپتال کی افتتاحی تقریب میں انہوں نے اعلان کیا کہ ارکان اسمبلی ترقیاتی فنڈز کو اپنا کلہ مضبوط کرنے کے لئے استعمال کریں تاکہ وہ اگلے الیکشنوں میں بھی جیت کو یقینی بنا سکیں، اس طرح ترقیاتی فنڈ کا نام کلہ فنڈ پڑ گیا، دنیا میں مقامی بلدیاتی ادارے صحیح معنوں میں نچلی سطح پر حکومت کے اختیارات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔علاقے میں ہرا دارہ ان کی ماتحتی میں کام کرتا ہے۔ میںنے گلاسگو میں دیکھا کہ شوکت بٹ سٹی کونسلر تھے ا ور ایک چھوٹی سی دکان بھی چلاتے تھے تو ٹریفک پولیس والے سارے چالان ان کے پاس لاتے تھے، یہی شوکت بٹ سٹی کونسل میں ترقیاتی کمیٹی کے سربراہ تھے اور اس حیثیت میں وہ ہر نقشے کی منظوری دیتے تھے۔ انہوںنے مجھے بتایا کہ چودھری یعقوب نے اپنی کیش اینڈ کیری ختم کر دی ہے اور اب وہ اس کے لئے نیا نقشہ منظور کروانا چاہتے ہیں، یہی کام پاکستان میںکسی نے کرنا ہوتا تو وہ اربوں کی رشوت لے سکتا تھا مگر کیا مجال کہ شوکت بٹ کے ذہن میں چودھری یعقوب سے چائے یا کافی کا کپ بھی پینے کا خیال آیا ہو۔ میں ان دنوں تین ہفتوں کے دورے پر گیاہوا تھا اور میں نے راچڈیل میں برطانیہ کے تمام قابل ذکر پاکستانی کونسلروں کا ایک نوائے وقت فورم بھی کیا جس کی تفصیلی روداد واپس آکر ایک صفحے پر چھاپی۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ لوگ مقامی سطح پر ہر کام کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اسی طرح ناروے سے ایک صاحب ا ٓیا کرتے تھے۔ ان کے سیاسی مضامین بھی نوائے وقت میں چھپتے تھے ا ور وہ بھی اپنے ملک میں سٹی کونسل کے رکن تھے۔انہیں بھی ہر طرح کے اختیارات حاصل تھے ۔اس نظام کا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے حکومتی وزرا کے پیچھے نہیں بھاگنا پڑتا، آپ کا ہر کام آپ کے محلے کی کونسل ہی حل کر دے تو سوچیں کہ آپ کی کتنی پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ پاکستان میں یہی پریشانیاں ہمیں بلڈ پریشر اور شوگر جیسے موذی امراض کا شکار بنا دیتی ہیں۔

خدا کرے کہ موجودہ حکومت جلد از جلد بلدیاتی اداروں کو ان کی اصل روح کے مطابق استوار کرے اور ہم بھی حقیقی جمہوریت کے سفر پر گامزن ہو سکیں۔ وعدہ عمران خان کا ہے تو توقع یہی ہے کہ یہ وعدہ ایفا ہو گااور یہی نظام حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا