خبرنامہ

بلوچستان کی خوش بختی کے دن آ گئے … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

بلوچستان کی خوش بختی کے دن آ گئے … اسد اللہ غالب

کل کو جب بلوچستان کہے گا کہ پورا ملک اس کی کمائی پر پل رہا ہے تو خدا لگتی کہئے کیسا محسوس ہو گا آپ کو۔ آج تک ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ پورا ملک کراچی کی کمائی کھا رہا ہے، مگر اب دن بدلنے والے ہیں اور دن بلوچستان کے بدلیں گے۔ کہا تو یہی ہے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے۔

وہ گزشتہ روز ڈیرہ بگتی پہنچے، یہ علاقہ پس ماندہ ہے، سارا بلوچستان ہی پس ماندہ ہے مگر ڈیرہ بگتی کی قسمت پڑیا نکل آئی ہے، ایک نہر ہے کچھی کینال جو اس علاقے کی بہتر ہزار بنجر اراضی کوسیراب کرے گی، گل و گلزار میں بدل دے گی، اس نہر کامنصوبہ نوازشریف نے پچھلے دور حکومت میںبنایا، پھر مشرف اور زرداری دونوںنے اسے کھٹائی میں ڈالے رکھا، نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو اس کے لئے فنڈ جاری ہوئے، وقت گزرنے کے ساتھ اخراجات کا تخمینہ بڑھ گیا تھا، اسی ارب روپے۔کچھ مخالفت بھی تھی اس منصوبے کی مگر یہ مکمل ہو کے رہا،یہ بین الصوبائی تحفہ ہے، اس لئے کہ تین سو کلو میٹر یہ پنجاب سے گزر کر ڈیرہ بگتی پہنچتی ہے۔
تو یہ سن کر دل شاد ہوا ناں۔
اس ملک پر ڈیرہ بگتی کا زبردست احسان ہے۔ سوئی کی قدرتی گیس سے سارا ملک مالا مال ہوا، اب ہم قرض چکا رہے ہیں۔
اور یہ قرض پورے بلوچستان کاہے جسے ہم دیانت داری اور نیک نیتی سے چکا رہے ہیں۔صوبے میں انتیس یونیورسٹیاں بن رہی ہیں۔ اور455 ارب سے سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا ہے، یہ موٹر ویز کے معیار کی ہیں۔پندرہ ارب سے ہرضلعی ہیڈ کوارٹر کو سوئی گیس فراہم کی جائے گی۔پچیس ارب سے بجلی کے نئے منصوبے زیر عمل ہیں۔اور ایک گوادر کا ذکر کیا، یہ تو سی پیک سے جڑا ہوا ہے اور سی پیک بجائے خود دنیا کے ایک عظیم منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ ہے جو تین بر اعظموں سے بلوچستان کو ملا دے گا۔
تو آئی سمجھ کہ بلوچستان کل کو کیسے کہے گا کہ وہ ملک کا امیر ترین صوبہ ہے۔
وزیر اعظم نے کوئی خوش کن خواب نہیں دکھایا، ایک حقیقت بیان کی ہے، یہ حقیقت زمین پر نظر آ رہی ہے، بند آنکھوں کو بھی نظر آ رہی ہے۔ اسی لئے وزیر اعظم نے پیش کش کی ہے کہ ناراض بلوچ بھائی قومی دھارے میں شامل ہو جائیں،کیونکہ لڑنے بھڑنے کا وقت گزر گیاا ور اب تو پھل کھانے کا وقت آیا ہے۔
بلوچستان کی یہ ترقی صوبے اور ملک کے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، چنانچہ دہشت گردی پھیلا کر سارا منصوبہ تتر بتر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،ایک دہشت گرد کل بھوشن تو پکڑا گیا، پتہ نہیں قطار میں کتنے کل بھوشن لگے ہیں اوراودھم مچانے کا سوچ رہے ہیں۔مگر خاطر جمع رکھئے اب انہیں مقامی آلہ کار دستیاب نہیں ہو سکیں گے، کسی کی مت تو نہیںماری گئی کہ خوش حالی ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے اور وہ ناحق جانیں کیوں ضائع کریں گے۔
وزیراعظم نے ڈیرہ بگتی پر نوازشات کی بارش کر دی ہے، میںنے ناحق نوازشات کہہ دیا یہ تو بگتیوں کا حق ہے۔دس کروڑ کی لاگت سے پچاس بیڈ کا ایک ہسپتال ، گیارہ کروڑ کی لاگت سے ایک ریسکیو سنٹر، ایک کروڑ روپے ڈیرہ بگتی کے ساٹھ ہونہار طلبہ کے وظائف کے لئے۔ اور چار کروڑ روپے سے انٹر کالج کو ڈگری کالج بنانے کے لئے۔وزیر اعظم نے واضح اعلان کیا کہ ہم ماضی کی غلطیوں کا اعادہ نہیں ،ازالہ کریں گے اور صوبے کو ملک کے باقی علاقوں کے مساوی لانے کے لئے دن رات ایک کر دیں گے۔
اتناکچھ دے کر وزیر اعظم کو یہ کہنے کا حق پہنچتا تھا کہ اب اس ملک اور اپنے صوبے کی ترقی کا فیصلہ آپ نے کرنا ہے، اگرا ٓپ ان لوگوں کوووٹ دے کر کامیاب کریں گے جو عوام کی بھلائی اور خوشحالی کے منصوبے مکمل کر رہے ہیں تو آپ خود بھی اپنی ترقی کے راستے پر گامزن رہیں گے، اس لئے ترقی اور خوش حالی یا پس ماندگی اور غربت کا فیصلہ خود عوام کے ہاتھ میں ہے۔
بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جسے پاکستان نے ہمیشہ نظر انداز کئے رکھا لیکن ایک دنیا کی نظریں اس پر مرکوز رہیں، روس کی زار شاہی دور سے خواہش تھی کہ وہ بلوچستان کے ساحلوں پر قبضہ جمالے، اس خواہش کی تکمیل میں سوویت روس پارہ پارہ ہو گیا۔اب جو چین نے سی پیک شروع کیا اور گوادر کو ترقی دینے کے عمل کا آغاز ہوا تو کئی ممالک کی دوڑ لگ گئی کہ کون چین کو گوادر پہنچنے سے روکتا ہے۔امریکہ اور بھارت چین کی اس حرکت سے ناخوش تھے، امریکہ تو نہیں چاہتا کہ ایک برابر کی سپر پاور معاشی سپر پاور بھی بنے اور عالمی تجارت پر حاوی ہو جائے، بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان پھلے پھولے چنانچہ بھارت نے کل بھوشن کو دہشت گردی پر مامور کر دیاا ور امریکہ تو اپنی افواج ہی کو افغانستان لے آیا، وہ بلوچستان کے سر پہ بیٹھا ہے اور چین اور پاکستان کی ہمت ہے کہ اس قدر مزاحمت کے باوجود سی پیک کے منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہیں، اب کوئی وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ عالمی تجارتی قافلے گوادر سے آنے جانے لگیں گے، تو بلوچستان کی قسمت جاگ اٹھے گی۔
بلوچستان کی علیحدگی کی بات جس طرح بھارتی وزیر اعظم مودی نے کی ہے بلکہ آزاد کشمیرا ور گلگت کے لئے بھی کی ہے، اس طرح پاکستان کاکوئی وزیر اعظم بھارت کی ریاستوں کو علیحدگی کی ہلہ شیری دیتا تو اب تک پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دے دیا جاتا اور پاکستان کو اقتصادی ا ور دفاعی پابندیوںکا سامنا کرنا پڑتا، مگر مودی سے کسی نے باز پرس نہیں کی، کون کرتا، جو طاقتیں اسے شہہ دے رہی ہیں ، وہ اس سے کیا باز پرس کریں گی۔ دوسری طرف بلوچستان کے گمراہ عناصر نے پاکستان کے خلاف ڈنڈا اٹھا رکھا ہے۔پاکستان ان کی سرکوبی کے لئے کارروائی کرتا ہے تو اپنے ہی ملک کے انسانی حقوق کے علم بردار ڈنڈا اٹھا لیتے ہیں۔ کوئی مسنگ پرسنز کا رونا روتا ہے۔کوئی صوبے کی پس ماندگی کے طعنے دیتا ہے۔ مگر اب پاکستان کو بھی چین کی پشت پناہی میسر آ گئی ہے اور یہ بھی شیر ہو گیا ہے اور شیر کی طرح دھاڑ رہا ہے ۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی ڈنکے کی چوٹ پر کہا ہے کہ اب وہ وقت قریب ہے جب بلوچستا ن ملک کا امیر ترین صوبہ ہو گا۔اس سے ثابت ہوا کہ دشمن ہمیں ڈرا دھمکا نہیں سکے، ان کی چالیں ناکام ثابت ہو گئیں۔
ایک وقت تھا کہ بلوچستان کے اسکولوںمیں طلبہ و طالبات کو قومی ترانہ پڑھنے کی اجازت نہ تھی، نہ صوبے کے کسی شہر میں قومی پرچم لہرایا جاسکتا تھا بلکہ اسے جلانے والے بہت تھے۔مگر اب فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز کی طرف سے ایک آپریشن جاری ہے جس کے نتیجے میں شر پسندوں کے حوصلے ٹوٹ گئے ہیں اور محب وطن افراد سینہ چوڑا کر کے کھلے عام گھوم پھر سکتے ہیں آج کراچی سے گوادر تک مکران ہائی وے دن رات کھلی ہے اور اس پر بلا جھجک سفر کیا جاسکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبے کے عوام کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں جاری رکھی جائیں۔بین الصوبائی وزارت سرگرم کردار ادا کرے اور نجی شعبہ بھی قومی ہم آہنگی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔
وزیر اعظم کے حالیہ دورے اور ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات سے صوبے کے عوام کو جو خوشی ملی ہے،اس پر ہم سب بھی خوش ہیں۔خدا کرے ان کی خوشیاں دوبالا ہوں۔وہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کریں۔