خبرنامہ

بچپن لڑکپن اور بھولپن۔ ہر گھر اور اسکول کے لئے ضروری کتاب..اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب


بچپن لڑکپن اور بھولپن۔ ہر گھر اور اسکول کے لئے ضروری کتاب

بچپن لڑکپن اور بھولپن۔ ہر گھر اور اسکول کے لئے ضروری کتاب..اسداللہ غالب

میرا یہ کالم انتھک کام کرنے والے اور انسانی ہمدری سے لبریز دل رکھنے والے خادم اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کی توجہ خاص کے لئے ہے۔

یہ کالم میں والدین، اساتذہ اور لڑکے لڑکیوں کی رہنمائی کے لئے بھی لکھ رہا ہوں۔
میں ایک زینب کا دادا ہوں، ایک زینب کا دیور، ایک زینب کا کزن اور ایک زینب کا نواسا۔ آپ میرے اندرونی کرب کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔
قصور کی زینب کی کہانی، ایک معصومہ کاا لمیہ نہیں، یہ ہر گھر کی زینب کا المیہ ہو سکتا ہے، خدا پاک اپنا رحم فرمائے۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی ساری عمر کی نیکیاں ایک طرف اور یہ کتاب ایک طرف، یہ کتاب لکھ کر ڈاکٹر صاحب نے انسانیت پر احسان عظیم کیا ہے۔
میں قصور کا سانحہ منظر عام پر آتے ہی اس کتاب پر لکھنا چاہتا تھا مگر مشکل یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب مجھے دستیاب نہیں ہوئے، وہ کلکٹر کسٹمز ہیں اور پچھلے تین چار ماہ سے ایک تربیتی کورس میں پھنسے ہوئے تھے، یہ کورس مکمل ہو گیا تو وہ اس ادھیڑ بن میں ہیں کہ اب ان کا محکمہ انہیں کہاں پھینکتا ہے۔ سرکاری ملازم اور وہ بھی جو بالاکوٹ، آزاد کشمیر، شمالی علاقہ جات، آواران کے زلزلہ زدگان اور پنجاب کے سیلاب زدگان اور تھر کے قحط زدگان اور شام کے افتادگان اور اب روہنگیا کے مظلوموں کی مدد کے لئے دن رات کوشاں رہا ہو، اسے اب یہ فکر لاحق ہو جائے کہ نہ جانے اس کا محکمہ اسے کالے پانی میں بھجوانے کا حکم جاری کر دے گا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کے لئے بڑا کڑا وقت ہے۔ مگر آج صبح میںنے انہیں تلاش کر لیا۔ ان سے مذکورہ کتاب لی، ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی تو میں فوری طور پر اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ کتا ب ہر گھر میں والدین کے پاس ہونی چاہئے، یہ کتاب ملک کے ہر اسکول کی لائبریری میں ہونی چاہئے بلکہ یہ کتاب ہر عمر کے بچوں کے نصاب میں شامل ہونی چاہئے۔ میری یہ آواز خیبر پی کے، بلوچستان، سندھ، آزاد کشمیر یا گلگت اور بلتستان تک کیسے پہنچ سکتی ہے مگر مجھے یقین ہے کہ نوائے وقت مارکیٹ میں آتے ساتھ ہی یہ کالم چیف منسٹر کے سامنے ضرور موجود ہو گا اور مجھے یہ یقین ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کتاب کی افادیت تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے اور وہ اگر مجھ پر اعتبار کرتے ہیں تو بلا تامل اس کتاب کو ہر اس جگہ پہنچانے کے احکامات جاری کریں جہاں اس کتاب کا ہونا ضروری ہے۔
میں ایک زمانے میں ایک اخبار کی پشاور سے اشاعت کی ڈیوٹی پر مامور ہوا تو یہ دیکھ کر غصہ بھی آیا اور حیرت بھی کہ ہر تیسری خبر بچہ بازی کے بارے میں تھی، نیوز ایڈیٹر اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر سے بات کی کہ بھائی کوئی متبادل لفظ استعمال کر لو وہ بھولے انداز میں کہنے لگے صاحب! اس صوبے میں یہی لفظ مروج ہے۔
ملک میں چائلڈ پروٹیکشن بیوروز موجود ہیں، انواع و اقسام کی این جی اوز بھی اس لعنت کے خاتمے کے لئے ڈالر کھرے کر رہی ہیں مگر نتیجہ کیا نکلا کہ ایک قصور میں پہلے تو دو سو بچوں سے زیادتی، پھر اس زیادتی کی وڈیو فلمیں یو ٹیوب پر،۔ اب معصوم زینب کا المیہ سامنے آیا تو کلیجہ منہ کو آ گیا کہ ایک زینب نہیں، ایک درجن زینب کے ساتھ یہی المیہ ہو چکا ہے۔ اف اللہ۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ حیوانوں یا درندوں کا کام ہے، اس لئے کہ حیوان اور درندے اپنے بچوں کو ریپ نہیں کرتے، ان کی وڈیو فلمیں نہیں بناتے اورا نہیں سوشل میڈیا پر عام نہیں کرتے۔ یہ کام اشرف المخلوقات حضرت انسان کا ہے۔
اس صورت حال پر شاعر کہتا ہے کہ
فعل بد تو خود کریں، لعنت کریں شیطان پر۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی کتاب کی طرف آتا ہوں۔ عام طور پر معاشرے میں بچوں کے ساتھ جذباتی، نازک اور حساس موضوعات پر بات کرنے سے گریز کیا جاتاہے۔ اسے ہم بے شرمی اور بے حیائی پر محمول کرتے ہیں مگر نفسیات کی رو سے بچوں کی تربیت کا کام عمر کے ساتھ ساتھ جاری رہنا چاہئے۔ محاورہ ہے کہ شرع میں شرم کیا۔ اس لئے شرم یا بے شرمی سے بالاتر ہو کر بچوں کی تربیت کا فریضہ والدین اور اسکولوں، کالجوں کی ذمے داری بنتا ہے۔ چھوٹے بچے بچیوں کو بتانا ضروری ہے کہ انہیں کس سے ملنا ہے، کس طرح ملنا ہے اور کس کے ساتھ گھر سے باہر نکلنا ہے، پھر انہیں یہ بھی سمجھانا چاہئے کہ ان کے ساتھ کون سی بری حرکات ہو سکتی ہیں تاکہ وہ کسی رشتے دار یا اجنبی کے قریب پھٹکنے سے اجتناب کریں۔ کسی بھی غیر شخص سے ٹافی یا مٹھائی لینے سے انکار کر دیں کیونکہ اس ٹافی یا مٹھائی میں نشہ ملا کر بے ہوش کر دیا جاتا ہے۔ دینی مدرسوں میں تو ان افعال بد کی نگرانی اور بھی ضروری ہے اور اس سے بھی زیادہ پبلک اسکولوں کے ہاسٹل میں رہنے والے بچوں کا تحفظ ضروری ہے۔ ٹین ایجر کلاس پر تو کڑی نگرانی کرنی چاہیے کہ اس کلاس میں منشیات کی عادت کو فیشن سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے یہ تمام احتیاطیں ملحوظ رکھنے کے لئے بڑی درد مندی سے اپیل کی ہے۔
میں چیف منسٹر کی توجہ ایک گھناﺅنی سازش کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ پہلے میں یہ عرض کر دوں کہ میں بھارت سے قربت کے تعلقات کے خلاف نہیں ہوں مگر چیف منسٹر تحقیق کروا لیں کہ ہمارے ملک کے کاروباری تعلیمی ادارے اس دوستی کے لئے کس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ پاکستان کے طلبہ، بھارت جا کر وہاں کی طالبات کے مہمان بنتے ہیں اور بھارتی لڑکے پاکستان آکر ہماری بیٹیوں کے مہمان بنتے ہیں، دونوں ملکوں میں قربت پیدا کرنے کا یہ تیر بہدف نسخہ کس زرخیز ذہن کی پیداوار ہے، ہماری وزرات داخلہ کو ایسے ویزوں کے اجرا پر نظر رکھنی چاہئے۔ یہ ویزے ہمیں کل بھوشن یادیو کی دہشت گردی سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ایک زمانے میں جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹر نے روشن خیالی اور لبرل ازم کی آڑ میں فحاشی کو عام کیا، چودھری شجاعت نے ایک صوفی تحریک کی سرپرستی کی جس میں سوائے مخلوط ڈانسوں کے کچھ اور نہیں ہوتا تھا۔
قصہ مختصر ہم نے معاشرے میں بگاڑ کے لئے بڑی محنت کی ہے اور اب اسے سدھارنا ہے اور اپنی اپنی زینب کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے اور اس کی لاش کو کچرے کے ڈھیر سے اٹھانے سے بچانا ہے تو بخدا، کچھ کر لیجئے، کچھ اور نہیں ہوتا تو ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی کتاب ہی اسکولوں کی لائبریریوں تک پہنچا دی جائے۔ ڈاکٹر صاحب سے اجازت لے کر اس کتاب کا سستا ایڈیشن بھی شائع کیا جا سکتا ہے، ڈاکٹر صاحب تو دولت لٹانے والے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں انہیں پیسے کی ہوس نہیں، ایک کتاب کی کمائی انہیں نہیں بھی ملے گی تو اللہ کا دیا ان کے پاس بہت ہے، ویسے آپس کی بات ہے کہ میں نے ان سے زیادہ قناعت پسند شخص اور گھرانہ نہیں دیکھا، ڈاکٹر صاحب نے کتاب لکھ کر نیکی کمائی، ہم اس کتاب کو اسکولوں کی لائبریریوں اور والدین کے ہاتھوں تک پہنچا دیں، یہ ہماری نیکی شمار کی جائے گی اور اگر میری یہ بات سن لی جائے تو میں بھی اس نیکی میں حصے دار ہو جاﺅں گا۔
ڈاکٹر صاحب سے عرض ہے کہ وہ اس کتاب کا اردو اور انگلش ایڈیشن خادم اعلیٰ کے نام کوریئر کر دیں اس اجازت نامے کے ساتھ کہ حکومت اسے افادہ عام کے لئے شائع کرنے کی مجاز ہے، خادم اعلیٰ ہر ایم پی اے اور ایم این اے کی ڈیوٹی لگائیں کہ وہ اپنے کلہ فنڈ سے کچھ رقم اس نیکی کے لئے بھی وقف کر دیں۔