خبرنامہ

بھارتی جارحیت سے خطرہ کس کو ہے۔۔اسداللہ غالب

سوچے بغیر جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارتی عتاب کی زد میں ہیں اور اب آزاد کشمیر میں کنٹرول لائن پر آباد دیہات بھی بھارتی توپوں، مارٹروں اور مشین گنوں کی زد میں ہیں، بھارت کا دعوی ہے کہ اس نے یہاں ایک سرجیکل اسٹرائیک بھی کی ہے۔
بھارت وزیر اعظم کی دھمکیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بھارت سے بلوچستان اور گلگت بلتستاں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔
مگر کیا ہمارے وزیر اعظم کو بھی بھارت سے کوئی خطرہ ہے، ہونا تو نہیں چاہئے مگر ہمارے جو لیڈر پیر کے روز وزیر اعظم کے پاس ایک میٹنگ کے لئے تشریف لے گئے ان سب نے کہا کہ ہم وزیر اعظم کے ساتھ ہیں، کسی نے ان کی یو این اوو الی تقریر کی تعریف کی، ان کی سب کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں جیسے وزیر اعظم ہاؤس پہلے کبھی نہ دیکھاہو اور وزیر اعظم کا تپاک بھی دیدنی تھا جیسے وہ اس موقعے کے انتظار مں تھے۔ سب نے کہا کہ وہ باہمی اختلافات بھلا کر و زیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہیں۔وزیر اعظم کے ساتھ کھڑا ہونا اچھی بات ہے، باہمی سر پھٹول سے عوام بیزار ہو چکے مگر وزیر اعظم بھی تو بتاتے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں، ہر سیاسی لیڈر نے میٹنگ کے بعد اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا ،مگر لوگوں کے کان وزیر اعظم کی بات سننے کے منتظر ہی رہ گئے، انہیں بھی تو بتانا چاہئے تھا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔وزیر اعظم کی جگہ ان کا کوئی ترجمان بھی بول سکتا تھا، ٹی وی چینلز پر وزیر اعظم کی طرف سے بولنے والوں کی ایک قطار لگی ہوتی ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ سبھی یہ کہتے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں ا ور کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔
ا سوقت اصل جھگڑا کشمیر کا ہے، یہ طے ہو جائے تو بھارت اور پاکستان میں امن کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ مگر ھارت اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے آمادہ ہی نہیں، اب تو عالی مرتبت مودی صاحب نے یہ فرما دیا ہے کہ انہوں نے کسی ملک پر حملہ نہیں کیا، ظاہر ہے بھارت کشمیر کو اٹوٹ انگ سمجھتا ہے، یعنی اپنا جغرافیائی حصہ تو آزاد کشمیر پر سرجیکل اسٹرائیک اس کا اندرونی مسئلہ ہوئی۔بھارت اول تو کشمیر پر بات چیت کرنے کے لئے تیار ہیں نہیں ہوتاا ور اگر دنیا کے دکھاوے کے لئے مذاکرات کی میز پر بیٹھ بھی جائے تووہ بسم اللہ ہی ا س بات سے کرتا ہے کہ کشمیر اس کا داخلی مسئلہ ہے، اس موقف کی تعبیر وہ شملہ معاہدہ میں تلاش کرتا ہے جس میں لکھا ہوا تو یہ ہے کہ کشمیر پر دونوں ملک اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے تمام جھگڑے دو طرفہ بات چیت سے طے کیا کریں گے۔ بھارت پہلے فقرے کو نہیں پڑھتا اور یہ نہیں بتاتا کہ اپنے اپنے موقف سے مراد کیا ہے، یہی ناں کہ کشمیر پر دونوں ملک دعویدار ہیں اور اقوام متحدہ نے یہ مسئلہ استصواب رائے سے طے کرنے کے لئے کہا تھا۔ یہ قرارداد تب منظور کی گئی جب بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو یہ مسئلہ لے کر اقوا م متحدہ گئے تھے ، وہ دن اور�آج کا دن، بھارت استصواب کی طرف آنے کا نام ہی نہیں لیتا، کبھی کہتا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے ا ور کبھی کہتا ہے کہ کشمیر میں مسلسل ہونے والے ریاستی انتخابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیری ا سکے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، مگر اب تو کشمیر بند پڑا ہے، بھارت کی بندوقیں بھی کوئی ایک شہر،قصبہ یا گاؤں نہیں کھلوا سکیں۔بھارت نے جبر کا ہر ہتھکنڈہ آزما کر دیکھ لیا ، وہ کشمیری نوجوانوں کو چن چن کر شہید کر رہا ہے، اپنے تئیں ا س کاخیال ہے کہ اس کے خلاف جدو جہد کرنے والی نسل کاخاتمہ کر دیا گیامگر ایک ا ور نسل سامنے سینہ تان کر کھڑی ہو جاتی ہے اور اب جو نوعمر لڑکے میدان میں ہیں ، وہ برہان وانی کے پرستارا ور پیرو کار ہیں۔ وہ اس کے خون کا انتقام بھی لینا چاپتے ہیں ا ور�آزادی بھی مانگتے ہیں، آزادی مانگنے والے یقینی طور پر بھارت کا اٹوٹ انگ ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔ خود بھارت کی کئی پارٹیوننے ایک زمانے میں انگریز کے خلاف آزادی کی تحریک چلائی تھی، اس تحریک کا ایک کردار بھگت سنگھ بھی تھا جسے انگریز سرکار نے دہشت گرد کہہ کر پھانسی دی تھی،یہ پھانسی آج کے شادمان چوک میں لگی جس مناسبت سے ہمارے کچھ لوگ بے قرار ہیں کہ ا اس چوک کو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کیا جائے مگر بھگت سنگھ جو کہ انگریز کی نظر میں ایک دہشت گرد تھا جیسے کشمیری حریت پسند بھارت کی نظر میں دہشت گرد ہیں، اس بھگت سنگھ کی لاش کا کریاکرم میرے گاؤں کے سامنے قیصر ہند پر کیا گیا، بھارت نے یہاں اس کی یادگار تعمیر کر رکھی ہے تو بھارت کے نزدیک وہ ہیرو ہوا،ا سی طرح کشمیری بھی ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں ا ور اگر میں ہندی کا لفظ استعمال کروں تو برہان وانی کو اوتار کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔اسی وانی کا نام یو این او کے اجلاس عا م میں ہمارے وزیر اعظم نے لیا ورا سی وجہ سے بھارت کو آگ لگ چکی ہے اور وہ مودی جو وزیر اعظم نوازشریف کے گھر کا نمک چکھ چکا ہے، وہ آپے سے باہر ہوا جا رہا ہے۔اور ویزر اعظم کے الفاظ کی سزا کشمیرکو بھی دے رہاہے ا ور پاکستان کو بھی دینا چاہتا ہے۔
تو نتیجہ وہی نکلا کہ خطرہ کشمیریوں کو ہے اور ممکنہ طور پر پاکستان کو ہے مگر ہمارے وزیر اعظم کی ذات کو نہیں، اس لئے براہ کرم ہمارے سیاسی راہنما آئندہ کہیں اکٹھے ہوں تو پاکستان اور کشمیر کودرپیش خطرات کی بنا پر پاکستان اور کشمیر کا ساتھ نبھانے کا تو عہد کریں ، وزیر اعظم کا ساتھ تب نبھائیں جب ان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق ہو یا جمہوری نظام کو کوئی خطرہ لاحق ہو، اس خطرے کی گھنٹی بجانے کا فریضہ جناب اچکزئی بخوبی انجام دیتے ہیں اور ان کی تقلید میں خورشید شاہ بھی لنگر لنگوٹ کس لیتے ہیں۔ان دونوں کی دیکھا دیکھی باقی ساری جماعتیں بھی جمہوریت کی چیمپیئن بن جاتی ہیں، اللہ ان کی جمہوریت کوسلامت رکھے مگر پہلے ہمیں پاکستان کی سلامتی کی فکر کرنی چاہیئے جس کے لئے اچکزئی یا خورشید شاہ نے روایتی گھن گرج کا مظاہرہ نہیں کیا۔
میری کسی رائے سے اتفاق نہ ہو تو براہ کرم یہ طے کر لیں کہ خطرہ کسے ہے اور بچاناکسے ہے۔