خبرنامہ

بھارت میں کشمیر یوں کے حامی بھی غدار۔۔اسداللہ غالب

کشمیری حریت پسندوں کے ساتھ تو انسٹھ برس سے غداروں اور باغیوں والا سلوک کیا جا رہاہے، آٹھ لاکھ بھارتی فوج ان کے سر سے آزادی کا خمار نکالنے میں مصروف عمل ہے۔
مگر اب بھارت میں کشمیریوں کی حمائت کے لئے کوئی آواز اٹھتی ہے ، تواسے بھی قابل تعزیز بنا دیا گیا ہے۔
جواہر لال یونیورسٹیٰ دہلی میں ہے، اندرا گاندھی نے ا سے بڑے ا رمانوں سے بنایا تھا، مگر اسے یونیورسٹی میں قدم رکھنے کی توفیق نہ ہوئی، اس یونیورسٹی پر بائیں بازو والوں کا غلبہ ہے، جیسے کراچی یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی پر دائیں بازو کا غلبہ رہا ہے۔ بھارت میں ہر سیاسی پارٹی نے جواہر لال یونیورسٹی سے بائیں بازو کے عناصر کا توڑ کرنے کی ناکام کوشش کی مگر پاکستان میں بھٹو ، ضیااور نواز شریف نے کراچی اور پنجاب یونیورسٹی میں دائیں بازو کا کچومر نکال دیا۔
یہ ایک الگ بحث ہے۔
جواہر لا ل یونیورسٹی یونین کے صدر نے ایک بیان دیا کہ بھارتی پارلیمنٹ حملے میں افضل گورو کو پھانسی ایک عدالتی قتل کے مترادف ہے۔
ایک طوفان کھڑا ہو گیا، ججوں نے کہا کہ ان کی توہین ہو گئی، کسی نے کہا کہ بھارت سے غداری کا جرم سرزد ہو گیا، کسی نے اس طالب علم پر باغی ہونے کالیبل چسپاں کر دیا۔
بھارت تو کشمیریوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں، ان کی مسلسل نسل کشی میں مصروف ہے جیسے ہٹلر پر الز ام ہے کہ اس نے یہودیوں کی نسل کشی کی ، جیسے یہودی آج فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہے ہیں، جیسے القاعدہ ،بوکو حرام اورداعش پوری دنیا میں مسلمانوں کی کر رہے ہیں۔اس روش پر چلنے والا ملک بھارت کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے والے کو ٹھنڈے پیٹوں کیسے بر داشت کر سکتا ہے، بھارت کے طو ل وعرض میں ایک طوفان ہے جو جواہر لال یونورسٹی کے طالب علم رہنماؤں کے خلاف برپا پے، انہیں گرفتار کیا جاچکا ہے، ان کے ساتھ کشمیری طالب علموں کو بھی جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے اور بیک آواز پورا بھارت چلا کر کہہ رہا ہے کہ انہیں بھی افضل گورو کی طرح پھانسی دو کہ یہ ملک کے غدار اور باغی ہیں۔
اس سے ایک نئی بحث یہ بھی چھڑ گئی ہے کہ غدارا ور باغی کون ہوتا ہے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حکومت اور انتظامی اداروں پر تنقید غدای اور بغاوت کے جرم میں نہیں آتی، ہمارے ہاں جنرل پرویز مشرف پر غداری کا ایک کیس چل رہا ہے،اس میں بھی پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ غداری ہوتی کیا ہے۔ لا محالہ کسی حکومت کا تختہ الٹنا غداری کیسے سمجھ لیا گیا، یہ کام تو ساری دنیا میں جاری ہے ا ور جب ایک فوجی انقلاب یا عوامی انقلاب عوامی پذیرائی حاصل کر لے تو پھر اس کے جواز اور عدم جواز کی بحث از خود ختم ہو جاتی ہے، پاکستان میں توہر مارشل لا کو پارلیمنٹ نے معافی تلافی دی یا پھر عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت اس پر مہر تصدیق لگا دی، ایوب خان، یحی خان، بھٹو اور ضیا کا مارشل لا جائز تھا اور مشرف کا بھی پہلا مارشل لا جائز تھا تو محض ایمرجنسی پلس پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ کیسے چل سکتا ہے ، بہر حال یہ ایک دلچسپ بحث ہے جو پاکستانی عدالتوں ا ور میڈیا میں پہلے سے چل رہی ہے ا ور اب بھارت بھی ا س کی لپیٹ میں ہے اور ظاہر ہے اس بحث کاکوئی تو نتیجہ نکلے گا۔
کشمیریوں کی جدو جہد آزادی اقوام متحدہ کے منشور کے عین مطابق ہے، سلامتی کونسل کی کئی قرار دادیں کشمیریوں کو یہ حق تفویض کرتی ہیں کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں ،ا سکے لئے بھارت کو استصواب کرانا تھا، اس کا وعدہ جواہر لال نہرو نے کیا تھا ، بھارت نے یہ وعدہ ایفا نہیں کیا تو پھر انہیں اپناحق لینے کا دوسرا راستہ اختیار کرنے کاحق ہے جیسے فلسطینیوں نے کیااوراسکے نتیجے میں آزاد فلسطین کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔خود امریکہ نے لڑ کر آزادی حاصل کی، دنیا کی کتنی ہی اقوام ہیں جنہوں نے آزادی کے حصول کے لئے جنگ کا راستہ اختیار کیا، ویت نام طویل عرصے تک امریکہ کے خلاف لڑا،ا ور ہوچی منہ آخر کار سرخرو ہوا،نیلسن منڈیلا کو بھی پہلے تو غدار ہی کہا گیا مگراس کی استقامت کے سامنے دنیا کو سر جھکانا پڑا، پھراسے انسانی حقوق اور آزادی کا چیمپیئن کہا گیا۔ ہتھیار اٹھانا اگر غداری ا ور بغاوت ہے تو پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ہتھیار اٹھانے والوں کے ساتھ باغیوں ا ور غداروں والا سلوک کب کیا گیا۔ فرانس میں جنرل ڈیگال نے مارشل پیٹن پر غداری کا مقدمہ قائم کیاا ورا سے سزا بھی دلوائی مگر جنرل پیٹن کے اس سوال کا ڈیگال کے پاس کوئی جواب نہ تھا کہ غدار میں ہوں جس نے فرانس میں رہ کر جمہوریہ کا پرچم بلند رکھا یا غدار�آپ ہیں جو ملک کو جارح اور قابض جرمنوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر لندن بھاگ گئے ۔
بھارت میں ایک بحث عدالتی قتل کے الفاظ پر بھی چھڑ گئی ہے، پاکستان میں پیپلز پارٹی اٹھتے بیٹھتے بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہتی ہے ا وراس موضوع پر درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔زرداری حکومت نے تو باقاعدہ ایک کیس دائر کر دیا تھا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے مگر اس کیس کی کسی نے پیروی نہ کی ا ور اسے صرف پراپیگنڈے کے لئے ا ستعمال کیا گیا۔زرداری تو یہ تک پتہ نہ چلا سکا یا پتہ لگانے کی کوئی کوشش ہی نہ کی کہ ا س کی بیوی محترمہ بے نظیر بھٹو کو کس نے قتل کیا۔
پاکستان میں غداری کے الزامات عاید کرنا ایک فیشن بن گیا ہے۔یہ الزامات لگتے رہے۔ مقدمے چلتے رہے، ولی خان رہا ہوئے ا ور شیخ مجیب رہا ہو کر بنگلہ دیش کے تخت پر جا بیٹھے ۔ بھارت اب یہ تجربہ کر نے جا رہا ہے مگر اصل میں تو اسے کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کر دینا چاہئے جسے اس نے آٹھ لاکھ فوج کی طاقت سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔اور اس فوج کے کالے کرتوتوں سے ایک بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے پردہ اٹھایا ہے کہ بھارتی فوج کشمیری خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی میں ملوث ہے۔
ویسے کیا ستم ظریفی ہے کہ افضل گورو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہنے والا تو غداری کے مقدمے کاسزاوار ٹھہرا مگر بھارتی فوج کی حرکتوں کوبے نقاب کرنے والی ارون دھتی رائے کا کسی نے بال تک بیکا نہیں کیا، دوسری طرف ایک کشمیری سابق رکن اسمبلی کا نئی دہلی میں منہ بھی کالا کیا گیا۔اور ہمارے ہاں سے خورشید قصوری یہ دعوی لے کر گئے کہ ان کی حکومت کشمیر کی قسمت کا فیصلہ قریب قریب کر چکی تھی، وہ خود تو انتہا پسندوں کے ہتھے نہ چڑھے،ا ن کے میز بان کامنہ کالا کر دیا گیا۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی بحث بھارت کامنہ کالا کرنے کے لئے کافی ہے