خبرنامہ

بھارت کی گردن کڑکی میں۔۔اسداللہ غالب

پاکستان کے صبر وتحمل اور ذمے دارانہ رویئے نے بھارت کو دنیا کی نظروں میں اس قدر جھوٹا ثابت کر دیا ہے کہ اب خودبھارتی عوام بھی اپنی حکومت اور فوج کے دعووں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ بھارتی رائے عامہ بری طرح تقسیم ہو چکی ہے اور ذرا سا بھی ہوشمند بھارتی شہری الٹا یہ سوال پوچھنے لگا ہے کہ آخر سرجیکل ا سٹرائیک کہاں ہوئی اورا وڑی میں گوناں گوں قسم کی سیکورٹی کے باوجود اٹھارہ بھارتی فوجی کیسے مرگئے اور اگر وہ آگ لگ جانے سے مرے تو پھر اس کا الزام پاکستان پر دھر کربر صغیر کو ایٹمی دوزخ میں تبدیل کرنے کا جنون بھارتی حکومت ا ور افواج کے سر پر کیوں سوار ہے۔۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت میں بے صبری ہی نہیں، پاگل پن کا مظاہرہ بھی کیا جارہا ہے، اوم پوری جیسے مہان فنکار بھی بھارت کو کھٹک رہے ہیں اور انہیں غداری کے الزامات کا سامنا کرناپڑ رہا ہے، ان کا کیا قصور ہے، یہی نا کہ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تین چار فنکاروں کو تو دیس نکالا دیا جاسکتا ہے مگر بھارت کے پچیس تیس کروڑ مسلمانوں کو سرحدوں سے پار کیسے دھکیلا جاسکتا ہے، اوم پوری نے یہ بھی کہا کہ اگر ایسی کوئی کوشش کی بھی گئی تو یہ کروڑوں مسلمان اس ملک کے ہندووں کی گردنیں مروڑ کر رکھ دیں گے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اوم پوری کا انٹرویو کرنے والا کل کا ایک چھوکرا جس کی شاید مسیں بھی نہیں بھیگی ہوں گی ،ا سنے اوم پوری سے سخت بد تمیزی کا مظاہرہ کیا۔
یہی کچھ دلی کے وزیر اعلی کیجریوال کے ساتھ پیش آ رہا ہے،انہوں نے تو صاف صاف طور پر حکومت سے سوال کیا کہ سرجیکل اسٹرائیک کا کوئی ایک ہی ثبوت مہیا کرو، کیجریوال کامنہ کالا کر دیا گا۔اور انتہا نپسند ہندووں نے یہاں تک کہا کہ جسے حکومت پر اعتبار نہیں ، وہ بھارت چھوڑ کر پاکستان چلا جائے۔
میرا خیال ہے کہ بھارت کا یہ رویہ پاکستان کی اخلاقی اور سفارتی فتح کا بین ثبوت ہے۔
پاکستان کی یہ جیت ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔اس کا اصل کریڈٹ فوج اور حکومت کوجاتا ہے جو انتہائی نا مساعد حالات میں بھی باہم متحد دکھائی دیئے، عرف عام میں وہ ایک پیج پر اکٹھے دکھائی دیئے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس کا سہرا وزیر اعظم نواز شریف ا ور آرمی چیف جنرل راحیل کی حب الوطنی اور پاکستان کے لئے درد مندی کو جاتاہے۔بھلا کس نے ان دونوں کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی کوشش نہیں کی، اس کوشش میں بھی بھارت پیش پیش رہا، اس کے میڈیا میں نواز شریف کی تعریفیں اور راحیل شریف پر تنقید دیکھنے میں آئی۔آج بھی بھارتی میڈیا راحیل شریف کے خلاف پاگل ہو کر اور ہاتھ دھو کر پیچھے پڑا ہوا ہے۔مگر آفرین ہے کہ ان دو راہنماؤں کی سوچ میں کبھی کوئی فاصلہ پیدا نہ ہو سکا، یہ بھارت کی ہزیمت کا ایک بین ثبوت ہے۔
جنرل راحیل اپنے محاذ پر سرگرم عمل رہے ا ور وزیر اعظم نے سیاسی اور سفارتی محاذ سنبھالا۔ایک طرف آرمی چیف مختلف محاذوں کے دورے کر رہے تھے، دوسری طرف وزیر اعظم نے کبھی آل پارٹیز کانفرنس بلائی، کبھی قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا اور جب میں یہ سطور قلم بند کر رہا ہوں تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے، یہ اجلاس ہو لے تو اس پر ضرور تبصرہ کروں گامگرا س میں بھی وزیر اعظم کی تقریر کو میں یو این او کی تقریر سے بھی وزنی سمجھتا ہوں ، اس میں جذبہ تھا،جوش تھا،ولولہ تھا۔اس تقریر کے بعد اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی بول رہے ہیں اور گھن گرج سے بول رہے ہیں۔شاید اور بھی کوئی تقریر کرے یا نہ کرے، میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن مجھے افسوس ہے کہ اگر ہم اتحاد کا ثبوت دینے کے لئے جمع ہوئے ہیں تو پھر یہاں سب کو ہونا چاہئے تھا مگر عمران خان عالی شان کوئی ایک دلیل دیں کہ اگر وہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں جیسا کہ رائے ونڈ کے جلسے میں کہا گیا توپھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س سے انہیں فرار کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہئے تھی،راے ونڈ کے جلسے میں عمران خاں عالی شان نے عالی مرتبت مودی صاحب کو بھی للکارا مگر عمران نے دہشت گردی کی جنگ کے خلاف بھی لمبی چوڑی تقریر کی، انہوں نے کہا کہ مشررف نے وزیرستان میں فوج بھیج کر ظلم کیا، اول تو وزیرستان میں مشرف نے فوج بھیجی نہیں ، صدر زرادری کے دور میں یہ جنرل کیانی تھے جنہوں نے سوات اور جنوبی وزیرستان کو کلیئر کرانے کے لئے آپریشن کیا اور کامیابی سے مکمل کیا اور ان کے بعد شمالی وزیرستان میں نواز شریف دور میں جنرل راحیل نے ضرب عضب کر کے ذریعے یہ علاقہ بھی صاف کیا، آج پاکستان میں امن ہے تو ان �آپریشنوں کا مرہون منت ہے ورنہ یہاں چھپے ہوئے غیر ملکی دہشت گردوں نے تو ساٹھ ہزار پاکستانیوں کی جان لے لی تھی ، ان میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں جنہیں بے دردی سے شہید کیا گیا۔انہی علاقوں سے اٹھ کر دہشت گرد چین میں بھی خود کش دھماکے کرتے رہے، پتہ نہیں عمران خان ان کی دہشت گردی کا کس دلیل کے تحت دفاع کر سکتے ہیں۔ عالی شان نے کشمیریوں کے ساتھ ا ظہار یک جہتی کے لیے منعقدہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی شرکت گورار نہیں فرمائی۔میں یہاں حکومت کو بھی مشورہ دوں گا کہ وہ ملک کی دوسری سیاسی اور پارلیمانی پارٹیوں کو نظر انداز نہ کرے۔شیخ رشیداور چودوھری شجاعت پارلیمانی لیڈر بھی بہیں اور پارٹی لیڈر بھی، ان کو وزیر اعظم ہاؤس کے اجلاس میں ہونا چاہئے تھا۔
خورشید شاہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی گئے ا ور جو اختلافی نکات تھے وہ بھی ایوان کے سامنے رکھ دیئے،وہ فل ٹائم وزیر خارجہ کا مطالبہ کر رہے ہیں، کل بھوشن اور بھارتی دہشت گردی کو نمایا ں کرنے پر زور دے رہے ہیں، یہی اختلاف رائے پارلیمنٹ کا حسن ہے۔ ویسے یہ لطیفہ ہے کہ وہ کل بھوشن یادیو کو کل بھوشن وانی کہہ گئے، اس سے زیادہ وانی شہید کی روح کواذیت نہیں پہنچائی جا سکتی کہ جو نوجوان اپنی شہادت کے بعد بھی نوے روز سے کشمیریوں کی جد وجہد کی علامت بناہو اہے، ہم ا سکانام بھی نہ جانتے ہوں،وزیر اعظم کا شکریہ کہ انہوں نے وانی شہید کا تذکرہ کرنے کا حق ادا کر دیا، میں تو کہوں گا کہ ہمیں وانی شہیدکا نام با وضو ہو کر لینا چاہئے۔
بہر حال پارلیمنٹ کے بھرے پرے ایوان میں اگر عمران خان نہیں گئے تو اس کایہ مطلب نہیں کہ پاکستان کے لوگ کشمیریوں کے ساتھ نہیں ہیں، بالکل ہیں ا ور ہمیشہ رہیں گے۔ بھارت کو ناکوں چنے چبانے والوں کو ہیرو مانتے رہیں گے ،اور کوئی نسیم حجازی پھر سے پید اہو گا جو ان کے شاہنامے لکھے گا اور بھارت کی پستی اور ذلت کے مظا ہرکو آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کرے گا