خبرنامہ

ترک صدر کو لائن آف کنٹرول پر لے جایا جائے۔۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
ترکی کے صدر فوجی بغاوت سے بچنے کے بعد پہلی بار پاکستان آ رہے ہیں۔ ان کے عوام نے بڑی دلیری سے مسلح افواج کے ٹینکوں کا رستہ روک کر جمہوریت کے قلعے کی حفاظت کی ہے، ترک عوام با لکل نہتے تھے، انہیں علم نہ تھا کہ ٹینکوں کا راستہ روکنے کے لئے وہ سڑکوں پر چاروں طرف ٹینکر کھڑے کر سکتے تھے یا چھاؤنیوں سے آنے والی سڑکو ں کو کھود کر فوج کی نقل و حرکت کو نا ممکن بنا سکتے تھے ۔
عمران خاں نے ترک صدر کا والہانہ ا سقبال نہیں کیا اور پارلیمنٹ کے اس اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا ہے جس سے ترک صدر کو خطاب کرنا ہے۔ اگر ترک صدر کو معلوم ہوتا کہ یہاں بھی انکے ساتھ وہی سلوک ہونا ہے جو گھر میں ہورہا ہے تو شاید وہ سفر پر نکلنے سے پہلے سو بار سوچتے۔ ترک پارلیمنٹ میں اپوزیشن پارٹی نے ان دنوں اجلاس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
پاکستان ا س وقت مچھلی منڈی بنا ہوا ہے، پانامہ کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، ایک قطری شہزادہے کو مدد کے لئے عدالت میں اترنا پڑا ہے،دوسری طرف پاکستان دہشت گردی کی ایک نئی اور سفاک لہر کا شکار ہے اور کوئٹہ میں دو روز پیشتر پچاس سے زاید لوگ ایک خانقاہ پر دھمال ڈالتے ہوئے شہید کر دیئے گئے ہیں۔ تیسری طرف لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج پاکستانی شہریوں اور پاک فوج کے جوانوں کو بے دردی سے شہید کر رہی ہے، ہم نے بھمبر سیکٹر سے آٹھ کڑیل جوانوں کی لاشیں اٹھائی ہیں، چوتھی طرف مقبوضہ کشمیر کو بھارتی فوج نے عقوبت خانے میں تبدیل کر دیا ہے، کہاں بڑی عید کا دوسرا دن ، جب برہان وانی جیسے ابھرتے نوجوان کو شہید کیا گیا، اس کے بعد سے وادی کشمیر کرفیو کی زد میں ہے، کرفیو نہ بھی لگتا تو بھی کشمیری تاجروں، دکانداروں ، طالب علموں اورا ساتذہ نے معمولات زندگی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، بھارتی فوج اندھے فائر مار رہی ہے اوربپیلٹ گنوں سے لوگوں کی آنکھوں کا نشانہ لیتی ہے جس سے پانچ سو کم سن بچے،، خواتین ا ور نوجوان بینائی سے محروم ہو چکے ہیں، لاشیں تو گننے میں ہی نہیں آتیں، منگل کے روز بھی کشمیریوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ترک صدر کشمیریوں اور پاکستانی شہریوں اور فوجی جوانوں کی شہادت کے ساتھ ا ظہار یک جہتی کے لئے پارلیمنٹ کے اجلاس کے بعد ایک ہیلی کاپٹر میں بیٹھیں اور شکر گڑھ کی ورکنگ باؤنڈری سے ہوتے ہوئے پوری کنٹرول لائن کا دورہ فرمائیں، آخر ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں جن کے بزرگوں نے خلافت کی بقاکے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، بولی اماں محمد علی کی ، جان بیٹا خلافت پہ دے دو، کیا جذبہ تھا جو ہمارے ا سلاف نے ترکی کے لئے دکھایا، اب ترکی کی باری ہے کہ وہ ا سی جذبے کا اظہار کرے اور بھارتی فوج کی بربریت کا نشانہ بننے والے کشمیریوں، پاکستانیوں اورپاک فوج کے شہید اور زخمی جوانوں کے ساتھ کھڑے ہو کر دکھائے۔ہمیں یہ طریقہ نہ سکھائے کہ اپنی فوج کا رستہ کیسے روکنا ہے، ہماری فوج ، ترک فوج کی طرح اقتدار کی طرف نہیں دیکھ رہی، جنرل راحیل اس وقت گھر کا رستہ دیکھ رہے ہیں،ا سلئے ترکی ہمیں بھارتی فوج کا رستہ روکنے کا ہوالشافی نسخہ بتائے۔
بہر حال صدر ترک جمہوریہ کی مرضی ہے کہ وہ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں ، ترکی اس وقت عالمی معاملات اور تنازعات میں فعال کردار ادا کر رہاے، پچھلے پندرہ برسوں سے ترک افواج ہمارے ہمسائے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے شانہ بشانہ موجود ہیں اور پچھلے چندبرسوں سے ترک فوج نے اپنے ہمسائے شام میں بھی بشارا لاسد کے خلاف بھر پور کردارا دا کیا ہے۔ ترکی یہ نہیں چاہتا کہ اس کے ملک میں اس کی اپنی فوج حکومت کا تختہ۰ الٹے،مگر فوج کی مدد سے شام کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنا ترکی نے فرض عین تصور کرلیا ہے۔
یہ تو رہا ترکی کا معاملہ، مگر ہمیں خود بھی دیکھنا ہے کہ بھارتی بربریت سے اپناا ور کشمیریوں کا دفاع کیسے کرنا ہے، ظاہر ہے زبانی کلامی بیانات سے تو دفاع کرنا ممکن نہیں، ممکن ہوتا تو ہمارے روزانہ کے بیانات بھارتی مشین گنوں اور توپوں اور پیلٹ گنوں کو ناکارہ بنا سکتے تھے، وزیر اعظم کا بیان سفارتی لحاظ سے اچھا ہے کہ ہماری امن پسندی کو کمزوری پر نہ محمول کیا جاے مگرمصیبت یہ ہے کہ بھارت جو ڈکشنری استعما ل کرتا ہے،ا س میں امن پسندہ کا مطلب کمزوری کے علاوہ کچھ نہیں اور وہ یہی مطلب نکال کر اپنی جارحیت میں اضافہ کئے چلا جارہا ہے، بیس کروڑ کی قوم میں سے اکیلے حافظ محمدسعیدنے کہا ہے کہ اگر ہم نے بھارت کو کرارا جواب نہ دیا تو وہ خون بہانے کا سلسلہ بند نہیں کرے گا، واقعی! کیوں کرے گا، اگر بھارت کو کسی مزاحمت کا سامانا ہی نہیں، نہ سفارتی سطح پر، نہ دفاعی سطح پر تو وہ یہی کرے گا جو کر رہا ہے ا ور کرتا چلا جائے گا۔
پاکستان کے لوگ حیران ہیں کہ کارگل اور سیاچین میں ہمارے فوجی اور مجاہد،بھارت کی جارحیت کا نشانہ بنتے رہے اور اب کنٹرول لائن پر سے ہم لاشیں اٹھا ٹھا کر اپنے کندھوں میں چک پڑوا چکے۔مگر ہم جسے ڈیٹرنس کہتے تھے، وہ کسی کام نہیں آرہا، چودھری شجاعت نے ایک بار چیزا لیا تھا کہ ہمارے ایٹم بم شادی بیاہ پر پٹاخے چلانے کے لئے نہیں ہیں، بالکل نہیں ہیں مگر ان کاکوئی اور مصرف نظر بھی نہیں آ رہا۔
بھارت جو اسٹرائیک کررہا ہے ہم اسے سرجیکل ا سٹرائیک نہ مانیں، جوبھی اسٹرائیک ہو رہی ہے، اس کا جواب کس نے دینا ہے یا ہمارا یہی منتر کام آئے گا کہ ہماری امن پسندی کو کمزوری پر محمول نہ کیا جائے، میں نے کہا ناں کہ یہ موقف برحق ہے ،عالمی سطح پر پسندیدہ ہے مگر بھئی!یہ دورٹرمپ کا ہے، مودی کا ہے، ان کی زبان کا لوہا مانا جاتا ہے،اور ان کی جارحیت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ امن پسندی والا دور چلا گیا ، نائن الیون کے بعد سے اقوام عالم نے امریکی کمان میں امن پسندی کو خدا حافظ کہہ دیا ہے، اب تو ہر طرف مارا ماری ہو رہی ہے، دہشت گرد بھی مارنے سے باز نہیں آتے ا ور عالمی طاقتیں بھی جواب میں مارنے کاکھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صدام حسین نہتا تھا مارا گیا ، اسامہ نہتا تھا مارا گیا، الزام دونوں پر تھا کہ وہ ایٹم بموں سے مسلح ہیں، صدام کے بارے میں برطانوی انٹیلی جنس نے جھوٹ گھڑا ور اسامہ کے بارے میں ہمارے ایک اعلی پائے کے انگریزی اخبار نے جھوٹ گھڑا۔مگر بھارت کے بارے میں کوئی سچ جھوٹ گھڑنے کی ضرورت نہیں، وہ جو کرتا ہے، ڈنکے کی چوٹ پر کرتا ہے،ا س کے وزیر اعظم نے طمطراق سے کہا کہ بلوچستان میں مداخلت کرے گا،آزاد کشمیرمیں مداخلت کرے گا، گلگت میں مداخلت کرے گا۔اور وہ اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنا رہا ہے، اس کے وزیر دفاع نے کہا کہ بدلہ لیں گے ، وقت ا ور مقام کا تعین خود کریں گے ا ور وہ یہی کچھ کر رہے ہیں۔کوئی ہے جو اسے روکے، کیا عمران خان بائیکاٹ چھوڑ کرپارلیمنٹ جائیں گے اور ترک معزز مہمان سے دست بستہ عرض کریں گے کہ حضور ! اپنی افغانستان میں مورچہ زن فوج کو کنٹرول لائن پر ہی متعین کر دیں ۔
پاکستان کے بارے میں مودی نے کہا کہ اسے تنہا کردوں گا، ہمارے وزیر اعظم کو جوابی تقریر میں ترک صدر سے درخواست کرنی چاہئے کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ ہماری تنہائی کا تاثر ختم ہو۔