خبرنامہ

ترک صدر کیا لائے، کیا لے گئے۔۔اسداللہ غالب۔۔۔اندا زجہاں

بسم اللہ
اس دورے سے یہ تاثر قطعی نہیں ملا کہ ایک سربراہ مملکت، کسی دوسری مملکت کے دورے پر تشریف لائے تھے۔بس یوں لگا کہ انہیں نواز شریف ا ور شہباز شریف اور ان کے اہل و عیال سے ملنا تھا، ، ان سے ملے اور چلے گئے، کہا گیا تھا کہ ہمارے صدر کی دعوت پر آئے ہیں مگر ایوان صدر میں کوئی خاس معاملہ ہوا نہیں، دونوں صدور کے سامنے دونوں ملکوں کے وفود نے کسی معاہدے اور یاد داشت وغیرہ پر دستخط نہیں کئے۔
ایک تاثر یہ ملا کہ پاکستان سکڑ کر لاہور تک محدود ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں یہ بے چاری پارلمینٹ درمیان مں کیسے آ گئی، اسے کھود کر لاہور نہیں لایا جاسکتا،ا سلئے یہ مجبوری بن گئی اور ترک صدر کو ہماری پارلمنٹ سے خطاب کیلئے اسلام آباد جانا پڑا۔ اس اجلاس میں تحریک انصاف نہیں آئی، ترکی میں بھی اپوزیشن نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ک ررکھا ہے۔
ہماری پارلیمنٹ میں تقریروں کا شیڈول آخری وقت پر تبدیل کر دیا گیا، اپوزیشن لیڈر ہمیشہ جوابی تقریر کیا کرتا ہے مگر خورشید شاہ کے بارے میں شاید یہ یقین نہیں تھا کہ وہ کیا بولیں گے ، اسلئے ان کا پارلیمنٹ میں ہونا نہ ہونا برابر کر دیا گیاا ور انہیں تقریر کا موقع نہ دیا گیا۔ خورشید شاہ سوچتے ہوں گے کہ عمران خان کی طرح انہیں بھی بائیکاٹ ہی کر دینا چاہیئے تھا۔
عمران خاں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ترک صدر انہیں کہیں اور بلائیں تو وہ ملنے جا سکتے ہیں، مجھے یاد ہے کہ بنگلہ دیش میں میاں نواز شریف سارک کانفرنس کے کے لئے گئے تو واپسی پر ہوائی ا ڈے کے لاؤنج میں اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کو ملاقات کے لئے بلا لیا تھا۔ بھارت میں کوئی بیرونی سربراہ دورے پر جائے تو وہ سونیا گاندھی سے الگ سے ملتا ہے۔پاکستان میں بھی یہ رواج رہا ہے کہ بیرونی مہمان ہمارے اپوزیشن لیڈروں سے الگ ملتے رہے ہیں مگر ترک صدر شاید اپنی آزاد مرضی کے مالک نہ تھے۔
ترک صدر نے دہشت گردی کی مذمت کی مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ کس اصول کے تحت شام میں امریکہ کے ساتھ مل کر داعش کی سرپرستی فرما رہے ہیں اور ایک ہمسایہ ملک میں بشارالاسد کی حکومت کا تختہ کیوں الٹنا چاہتے ہیں۔ اپنا تختہ توو ہ کسی کو الٹنے نہیں دیتے۔
بھلا ہو اسپیکر قومی اسمبلی کا جنہوں نے اپنے استقبالیہ کلمات میں کشمیریوں پر بھارتی فوج کی دہشت گردی کا ذکر کیاا ور ترک صدر نے بھی کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی مگر بھارت نے انکی سنی ان سنی کر دی ا ورا سی روز بھمبر سیکٹر میں کنٹرول لائن پر پھرفائر داغ دیئے۔میرے ایک دوست نے فون پر مجھ سے کہا کہ مودی نے اردوان کو سلامی پیش کی ہے، خدا کی پناہ، پاکستان اور ترکی اگر دل سے اکٹھے ہوں تو کیا مجال ہے کہ بھارت کی کہ وہ کنٹرو ل لائن پر بری نظر بھی ڈالے۔
کہا جاتا ہے کہ ترکی پاکستان کی بہت سے شعبوں میں مدد کر رہا ہے، ان میں ایک کوڑا اٹھانے کا منصوبہ ہے، یہ کام ہم صدیوں سے کرتے چلے آئے ہیں، ابھی بھی جہاں ترک کمپنی کے اہل کار نہیں جا سکتے ، وہاں کھوتی ریڑھیاں یہ کام بخوبی انجام دے رہی ہیں، ویسے یہ تو پتہ چلے کہ کوڑاا ٹھانے میں کونسی ایٹمی ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے اور گر ہوتی بھی ہے تو ترکی اس ٹیکنالوجی سے بے بہرہ ہے، ہماری کیا مدد کر سکتا ہے۔
ترکی کی مدد کا ایک شعبہ پبلک ٹرانسپورٹ ہے، میں نے لاہور کی سڑکوں پر کسی ترک کمپنی کے نام کی بسیں دوڑتی پھرتی دیکھی ہیں،میں حیران ہوتا ہوں کہ پاکستان میں نیو خان اور شیر برادرزکی بسوں کی دھوم مچی ہوتی تھی، اب بھی لاہور سے باہر کے اڈوں سے ایسی ایسی گداز اور جدید تریں بسیں دور دراز کے شہروں تک جاتی ہیں کہ ترکی سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ روایتی ٹرانسپورٹروں کو ایک طرف دھکیل دیا گیاہے اور بیرونی کمپنیوں کو شہر کے اندر بسوں کے اڈے فراہم کر دیئے گئے ہیں ، ایک بیرونی کمپنی تو جناح ہسپتال کے قریب پنجاب یونیورسٹی کی قیمتی زمین ہتھیانے پر تلی ہوئی ہے، بیرونی کمپنیوں کے نخرے ا ور اجارہ داری ہو جائے تو یہ ملکی ٹرانسپورٹر کا گلا گھونٹے کے مترداف ہے۔
اور ترکی نے کیا کیا ہے، گوادر تو چین نے بنا کر دی ہے، شاہراہ رشم بھی چین نے بنا کر دی ہے یاا س میں ہمارے فرنتیئر ورکس کے شہیدوں کا خون رچا بسا ہے ا ور ہم نے ترکی کو پیش کش کر دی ہے کہ وہ آئے ا ور سی پیک کے ثمرات سے دل بہلائے۔ایک بار مشرف روس گیا توا س نے اپنے میزبانوں سے کہا کہ وہ گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے ناحق فوج کشی کرتا رہا ہے، مگر اب گوادر کی گرم پانیوں کی بند ر گاہ تیار ہے، روس کو اس سے فائدہا اٹھاناچا ہئے، مجھے یاد ہے کہ میرے مرشد محترم مجید نظامی ا س پر سخت خفا ہوئے کہ مشقت ساری چین نے کی ا ور گوادر بن گیا تو ہم روس کو اسے سونے کی طشتری میں رکھ کر پیش کر رہے ہیں۔شاید کسی روز ہم مودی سے بھی کہہ دیں کہ بھائی جان ، آپ بھی اپنے مال بردار جہاز بندرگاہ میں لائیں اور یہاں سے سامان ٹرکوں پر لاد کر وسط ایشیا لے جائیں، چین لے جائیں یا روس لے جائیں۔خدا کی پناہ !ہم سے کچھ بعید نہیں۔اپنے سب کے بچے بھی باہر، شوکت عزیز نے اقتدار چھوڑا، سیدھا امریکہ واپس، مشرف کی جان کڑکی سے چھوٹی تو سیدھا امریکہ، گورنر سندھ نے چودہ سال بعد کرسی چھوڑی تو سیدھا باہر، شاید یہ لوگ کپڑوں کے سوٹ کیس بھی ساتھ نہیں لے جاتے، باہر کافی ڈھیر لگاہو گا، ہمارے حکمرانوں کا اپنا سارا کاروبار باہر، اور ترکی کو کہتے ہیں کہ یہاں آ کر سرمایہ کاری کرو۔ کون مانے گا۔
اگر آپ کو یاد ہو کہ ترکی میں فوجی بغات والا واقعہ کتنے ماہ قبل ہوا،تو آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ نواز شریف اور شہبازشریف نے اسی روز فوجی بغاوت کی مذمت بھی کی اور ترک عوام کو سیلوٹ بھی کیا جو اپنے محبوب صدر کو بچانے کیلئے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے توپھر آپ ہی بتائیں کہ اتنے ماہ بعد مشترکہا اعلامیہ میں اس واقعے کا ذکر کیوں ضروری ہو گیا، کیا ترک صدر کو اپنی مقبولیت اور طاقت میں اضافے کے لئے اس اعلامیے کی ضرورت تھی، میرے خیال میں ہر گز نہیں، یہ نکتہ یونہی دل پشوری مشترکہ اعلامیہ میں شامل کر دیا گیا۔
میں نے یہ سوال پہلے بھی اٹھایا تھا کہ ترک صدر کے دورے کی ٹائمنگ قابل غور ہے، جنرل راحیل کا چل چلاؤ ہے، فوج کی عزت افزائی کے لئے ایک جھوٹی خبر کا جھنجھٹ ا بھی ختم نہیں ہوا۔اوپر سے ترک صدر اور ٹینکوں کے سامنے عوام کے لیٹنے کی بین بجائی جا رہی ہے۔ تو کیا معزز مہمان کو بلا کر یہی ڈگڈگی بجانا تھی۔ چلئے یہ مقصد توپورا ہو گیا اور صدر ترکی کا دورہ بھی کامیاب ہو گیا۔
خدا کے لئے پاکستان کو پاکستان سمجھا جائے،اس میں صرف پنجاب نہیں ہے، سندھ ہے، بلوچستان ہے، خیبر پی کے ہے، گلگت بلتستان ہے اور کشمیر کیوں نہیں ،یہ بھی ہے، اس لئے پاکستان کو پاکستان بنایا جائے،ا سے پنجابستان تک محدود نہ کر دیاجائے۔ کوئی بھی بیرونی سربراہ آئے، اسے قائد کے مزار پر لے جایا جائے، باقی دنیا اپنے بے نام شہید کی قبر پر لے جاتی ہے، ہمارے ہیرو بے نام نہیں ہیں، اس لئے مہمان کو قائداور اقبال کے مزار پر لازمی لے جایا جائے،درہ خیبر لے جایا جائے، گوادر لے جایا جائے،اور اگر مہمان میں کچھ جرات اور دلیری ہو تو اسے کنٹرول لائن پر بھی لے جایا جائے۔جہاں اس وقت پھر گولہ با ری شروع ہو گئی ہے۔
ایک امریکہ نے کہا تھا کہ پاکستانی ڈالر کی خاطر ماں بھی بیچ دیتے ہیں۔ہم نے ایمل کانسی بیچا،عافیہ کا سودا کیاا ور مشرف تو اس کام میں اتنی مہارت رکھتا تھا کہا سنے سینکڑوں کے حساب سے بندے بیچے اورامریکہ سے صلہ پایا، ترکی کے صدر کو ہم نے ترک اسکولں کا اسٹاف واپس کر دیا، کیا سودا طے پایا، ان لوگوں کا کیا گناہ تھا، کوئی تھا تو ان کا ٹرائل پاکستان کی عدالتوں مین وہنا چاہئے تھا، ہم نے انہیں اردوانھ کی جیلوں ض کی نذر کر دیا، یہ وقت بھی آنا تھا کہ مذہبی مدرسوں کے بجائے خالص دنیاوی اسکول دہشت گردی کے اڈے قرار پائے۔اسلام کا آغاز اس وحی سے ہوا کہ پڑھ، ہم نے پڑھائی کےء شعبے میں مصورف اسٹاف کو ترک صدر کی آمد سے پہلے پہلے ڈی پورٹ کر دیا۔ یہی کام مشرف کرتا تھا اور یہ کام بند ہو نے میں آتا ۔ پتہ نہیں کس دل جگرے کے ساتھ ہم نے ملا عمرا ور اسامہ بن لادن کو پناہ دیئے رکھی۔مگر ان کی بھی لاشیں ہی واپس گئیں۔ہم پر آئندہ کون ا عتبابر کرے گا اور ہم روتے ہیں کہ دنیا میں تنہا رہ گئے۔مگر ترکی ہمارے ساتھ ہے تو پھر بھی یہ شکایت کیوں باقی ہے۔کیا ترکی ہمارے ساتھ دل سے نہیں ہے۔
لاہورا ور اسلام آباد والوں کو ایک خوشگوار تجربہ یہ ہوا کہ اگر کوئی غیر ملکی مہمان شہر میں آ ٹپکے تواپنے آپ کو دفتر یا گھر میں محدود کر کے وقت گزار لینے ،میں ہی عافیت ہے۔