خبرنامہ

تفسیرِ لاہوری، نسخۂ حقانیہ…. اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

تفسیرِ لاہوری، نسخۂ حقانیہ…. اسد اللہ غالب

حضرت مولانا احمدعلی لاہوری تحریکِ آزادی کے بے باک مجاہد مولانا عبیداللہ سندھی کے شاگردرشید تھے اور دہلی میں درس قرآن دیا کرتے تھے ۔ لوگ جوق درجوق اس میں شریک ہونے لگے، غاصب و ظالم انگریز سامراج کے خلاف نفرت کے جذبات ابھرنے لگے اور بیرونی آقائوں کے قلعہ اقتدار میں دراڑیں پڑنے کا خطرہ پیدا ہوگیا اور خادمِ قرآن اوران کے حواری لرزہ براندام ہونے لگے تو انھوں نے اس کا اثرکم کرنے کے لیے حضرت کو دہلی بدر کرنے کا فیصلہ کیا، انگریزی فوج نے اپنی تحویل میں لے کر دہلی سے نکالا اورلاہور لاکر چھوڑ دیا ، لاہور میں نہ کوئی جان پہچان تھی، نہ ہی حلقہ احباب تھا، آپ اللہ کا نام لے کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور درس ِ قرآن شروع کردیا ۔ حلقہ درس بڑھنے لگا اور رفتہ رفتہ حضرت ایک غیرمعروف مسجد میں منتقل ہوگئے(جو لائن والی مسجد کہلاتی تھی اور شیرانوالہ گیٹ سے متصل تھی) یہاں نہایت یکسوئی اور اہتمام کے ساتھ درس قرآن شروع کیا ۔ حضرت کے اعمال میں پابندی اور استقامت پر پورا عمل ہوتا تھا۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے دروس کو تحریری شکل میں پیش کرکے قرآنی فکر کو عام کیا جائے تاکہ معاشرے کے اندر ایک فکری وسعت اور کشادگی پیدا ہو اور حضرت لاہوری کے علوم و معارف تک ہر عام وخاص کی رسائی ہو۔ چنانچہ اس تشنگی اور ضرورت کومحسوس کرتے ہوئے مولانا احمد علی لاہور ی کے مایہ ناز شاگرد مولانا سمیع الحق شہید نے اس تفسیر کو مرتب کرنے کا عزم کیا۔ مولانا سمیع الحق شہید نے 1958ء میں مولانا احمد علی لاہوری سے دورہ تفسیر پڑھا تھا، دوران درس آپ کے تفسیری افادات کو جمع کرتے رہے جو ایک مجموعہ کی شکل میں محفوظ ہوگئے۔ حسب ضرورت مولانا احمد علی لاہوری کے مطبوعہ علمی افادات سے رہنمائی بھی لی گئی ، اس طرح محنت شاقہ کا یہ ثمردس جلدوں پر مشتمل ہے، جسے شاہ ولی اللہ دہلوی کے افادات سے آراستہ اور امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی کے حواشی سے معمور ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے ۔
آیات کریمہ کے ترجمہ و تفسیر میں مولانا سمیع الحق شہید کا اسلوب یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ مکمل رکوع کاعربی متن لکھ کر رکوع میں موجود تمام آیات کا ترجمہ بین السطور حسن ترتیب سے لگاتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ ترجمہ بھی خودمولانا لاہوری کا ہے۔ اس کے بعد اس رکوع کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور نیچے ماخذ لکھتے ہیں۔ پھر ہر آیت پر معنی خیز اور جامع عنوان لگاکر ہر ایک آیت کا ایک جامع خلاصہ اس عنوان میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آیات کے ذیل میں بعض مرتبہ تفصیلی مباحث اور بعض علمی اور مبینہ نکات اور باتیں بھی مستقل اور جامع عنوان کی متقاضی ہوتی ہیں تو وہ اس پر مستقل عنوان لگاتے ہیں۔ چونکہ مولانا لاہوری کا ماخذ شاہ ولی اللہ ہیں، اس لیے جہاں جہاں حضرت لاہوری نے شاہ صاحب کی کتابوں خصوصا حجۃ اللہ البالغہ کا ذکر یا اس کی کوئی عبارت بیان فرمائی ہے تو وہی مولانا سمیع الحق شہید نے نہایت خوش اسلوبی سے لگاکر حسن تالیف میں اضافہ کردیا ہے۔ تفسیر لاہوری کی تیاری ان مسودات سے کی گئی جو مولانا سمیع الحق شہید نے حضرت لاہوری سے ساٹھ پینسٹھ برس قبل لکھے تھے، لہٰذا ان مسودات کے بعض صفحات بوسیدہ ہوچکے تھے ، بعض مقامات پر اگر کہیں ابہام کی صورت پیش آتی تو ابہام کو دورکرنے کے لیے آپ دوسری تفسیر ی کاپیوں سے موازنہ کرکے حل کرنے کی بھرپور کوشش فرماتے ۔
مولانا سمیع الحق شہید 12رجب1355ھ 3ستمبر1936ء کو شیخ الحدیث مولانا عبدالحق بانی جامعہ حقانیہ کے گھر اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے ۔ 1959ء سے تدریس کا آغاز کیا اور2018ء تادم شہادت جامعہ حقانیہ میں بخاری شریف اور ترمذی شریف کی تقریباً70برس تک درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ اکتوبر1956ء کوآپ نے دارالعلوم حقانیہ سے ماہنامہ ’الحق‘ کا اجراء کیا جو57برس سے علم وادب اور اشاعت ِ اسلام میں مؤثر کردار ادا کررہا ہے ۔آپ نے دارالعلوم میں اسلامی تحقیق وریسرچ کے لیے شعبہ ’مؤتمرالمصنفین‘کی بنیاد رکھی، اس ادارے سے اہم موضوعات پر معرکۃ الآرا کتابیں شائع ہورہی ہیں۔ تفسیر لاہوری بھی اسی شعبہ کے تحت نہایت خوبصورت مرقع اندازمیں 10جلدوں میں شائع کی گئی ہے ۔
تفسیر لاہوری قرآن پاک کی تفاسیر کے سلسلے میں ایک نادم اور قیمتی اضافہ ہے، کئی عشروں سے اسے عوامی مقبولیت کا اعزاز حاصل ہے۔ حالیہ دنوں میں جامعہ حقانیہ اکوڑا خٹک کی طرف سے اس کا نیا ایڈیشن شائع کیا گیا ہے۔ میں جامعہ حقانیہ کی نئی انتظامیہ کا بے حد مشکور ہوں انھوں نے تفسیر لاہوری کا ایک مخصوص نسخہ مطالعے کے لیے ارسال فرمایا ہے۔
میں اپنے بچپن میں مولانا احمد علی لاہور کے ہفتہ وار جریدے خدام الدین کا باقاعدگی سے قاری رہا ہوں۔ مولانا لاہوری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کے خصوصی شاگردوں میں شامل تھے۔ اسی طرح مجھے بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی باقاعدگی سے میرے والد بزرگوار میاں عبد الوہاب کی میزبانی سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ دراصل ہمارے گائوں فتوحی والا میں تحریک جہاد کے ایک سرخیل صوفی ولی محمد قیام پذیر تھے جن سے نیاز حاصل کرنے کے لیے مولانا عبیداللہ سندھی کے علاوہ خورشید محمود قصوری کے خاندانی بزرگ محی الدین قصوری اور معین الدین قصوری بھی ہمارے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔ میرے بڑے بھائی کا نام بھی مولانا عبیداللہ سندھی کا تجویز کردہ ہے جو ان کی ہمارے گائوں میں موجودگی کے دوران پیدا ہوئے اور انھوں نے نو مولود کا نام محمد تجویز کیا ۔ میرا نام اسد اللہ غالب بھی مولانا عبید اللہ سندھی کا عطا کردہ ہے