خبرنامہ

تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے،،اسداللہ غالب

پاکستان ا ور بھارت آپس میں جنگ نہیں لڑنا چاہتے تو میں نے بھی جنگ کا بھوت اپنے سر سے اتار دیا ہے، میں نے ٹی وی چینلز گھما گھما کر عمران خاں کا رائے ونڈ کا جلسہ دیکھا اون کی پوری کی پوری تقریر سنی، ان کی تقریر کی طرف مجھے میرے بڑے بھائی میاں محمد نے مائل کیا تھا، وہ ریٹائر منٹ کی زندگی گزار رہے ہیں اور چوبیس گھنٹے ایک ٹیبلٹ پر انگلیاں پھیرتے رہتے ہیں ، میرعے لئے وہ بریکنگ نیوز فراہم کرنے کاسورس بن گئے ہیں، انہوں نے چند روز قبل بتایا کہ عمران خاں نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر رشتہ لینے نہیں گئے تھے۔ مجھے اس پر یقین نہیں آیا،اسلئے نہیں آیا کہ پنجاب کے معاشرے میں اسے ننگی گالی سمجھا جاتا ہے۔میر اخیال تھا کہ عمران خان ایچی سن کالج کا پڑھا لکھا بااخلاق شخص ہو گا، چند ورز قبل پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر ہماری ایک محفل میں تشریف لائے، وہاں ایچی سن کالج کے ایک استاد مسرور کیفی بھی موجود تھے، راجہ صاحب نے کہا کہ ہماری کلاس میں ہر ورز کسی مہمان کو بلایا جاتا، کبھی کوئی ٹریفک سارجنٹ سڑک پار کرنے کا طریقہ بتا تا، کبھی کوئی ڈاکٹر چھوٹی موٹی بیماریوں سے پرہیز کا درس دیتا، کبھی کوئی معاشرتی برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتا حتی کہ یہ بتانے والے بھی آتے کہ بوٹوں کے تسمے کس طرح باندھنے ہیں اور ناک میں انگلی نہیں پھیرنی، ایسی درسگاہ سے نکلنے والے عمران خان سے یہ توقع لیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ گالی گلوچ کی زبان استعمال کرے، مگر وہ تو سبھی کو۔۔ اوئے، تو، تم۔۔ سے مخاطب کرتے ہیں، کسی کو دھمکی کا نشانہ بناتے ہیں کہ تمہیں نہیں چھوڑیں گے، غرضیکہ جو ان کے منہ میں آئے بول دیتے ہیں،اس سے تو نہیں لگتا کہ وہ ایچی سن تو کیا ، کسی ٹاٹ اسکول کے نزدیک بھی پھٹکے ہوں مگر یہ کہنا کہ وہ فلاں کے گھر رشتہ مانگنے تو نہیں گئے، یہ بات میں نے ان کے منہ سے خود سن لی، رائے ونڈ والے جلسے میں انہوں نے یہی الفاظ دہرائے تو میں سٹپٹا کر رہ گیا، اخلاقیات کے کسی ضابطے کی رو سے اس طرز گفتگو کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
تحریک انصاف میں جہاندیدہ لیڈر بھی موجود ہیں ، چودھری محمدسرور تو مغرب سے تربیت یافتہ ہیں، اس پارٹی میں خواتین کی بہتا ت ہے، ان سب کو مل کر اپنے چیئر مین کو سمجھانا چاہئے کہ وہ شائستگی کا رویہ اختیار کریں اور بھٹو صاحب کی نقل نہ کریں جو اپنے مخالفین کو مختلف ناموں سے پکارنے کے عادی تھے، کسی کو ڈبل بیرل خان اور کسی کو آلو خان، انہوں نے اقتدار میں آنے سے قبل ہی بزرگ صحافی زیڈ اے سلیری کو فکس اپ کرنے کی دھمکی دی،ا ورا س پر عمل بھی کر دکھایا۔جناب نواز شریف ا ور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ٹھنی تو زبانیں پھر بے لگام ہو گئیں اور اخلاقیات کے سبق دھرے کے دھرے رہ گئے مگر دونوں پارٹیوں نے بالآخر میثاق لندن میں طے کیا کہ وہ باہمی دشنام طرازی سے اجتناب کریں گی، اس پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہو سکا۔ اور میاں شہباز شریف اس میثاق کو کبھی کبھار پس پشٹ ڈال دیتے ہیں۔
میں نے صحافت کا آغاز جس ادارے سے کیا، اس نے بھٹو صاحب کی ذات پر حملے کئے، اور بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو انہوں نے بدلہ لینے کے لئے انہیں جیل ڈال دیا، اس میں نہ میرا ادارہ آزادی صحافت کا چیپمیئن ہونے کا دعوی کر سکتاہے ، نہ بھٹو صاحب کو انتقامی کاروائی کا جواز دیا جاسکتا ہے۔ایک بار توحد ہی ہو گئی کہ ایک اداریئے کا عنوان ہی توہین عدالت سجا یا گیا چنانچہ جن چیف جسٹس صاحب کی توہین کی گئی تھی ، انہوں نے کاروائی کی اور ذمے داروں کو سزا سنا دی۔
زبان کے استعمال میں غیر ذمے داری کی انتہا امریکہ میں دیکھنے میں آ رہی ہے، صدارتی انتخاب کی مہم درا صل گالی گلوچ میں تبدیل ہو گئی، ذاتی حملے تو پہلے بھی شاید ہوتے ہوں گے مگر مسلمانوں کو بحیثیت قوم مغلظات کا نشانہ بنایا گیا ہے، ناطقہ سر بگریبان ہے کہ اسے کیا کہئے ۔، لوگ سوچتے ہیں کہ کیا یہ جمہوریت ہے۔
میں نے کبھی جاپانی اور چینی قوم کی زبان کو غیر محتاط نہیں دیکھا، اس قدر عاجزی کہ انسان شرمند ہ ساہو جاتاہے، جھک کر آداب بجا لاتے ہیں اور اتنے دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں کہ دیوراوں سے پوچھنا پڑتا ہے کہ کچھ سناہو تو ہمیں بھی بتاؤ۔
تحریک انصاف میں نوجوانوں کہ بہتات ہے، سبھی پڑھے لکھے ہیں مگر ذرا نواز شریف کی تعریف میں لکھ دو یا پی ٹی آئی پر تنقید کر دو تو یہ بھڑوں کے لشکر کی شکل میں چمٹ جاتے ہیں ، میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا ، نوائے وقت کی ویب سائٹ کے صفحات گواہ ہیں، میرے یا میرے ساتھیوں کے کالموں پر جو تبصرے فرمائے گئے ہیں ، وہ ڈیجیٹل ریکارڈ کا حصہ ہیں، یہ ایک اچھی بات ہے کہ ویب سائٹ کے ایڈمن نے کبھی ضابطہ اخلاق کا کلہاڑا نہیں چلایا اور یہ سارا موادٖ انٹر نیٹ پر بطور ثبوت موجود ہے، مگر جو دھمکیاں ٹیلی فونوں پر دی جاتی ہیں ، وہ ان سے زیادہ خطرناک ہیں جو ایک زمانے میں عالی قدرطالبان کی طرف سے ملا کرتی تھیں، ان کا زور شمالی وزیرستان کے آپریشن بعد ٹوٹ گیا، اب رہے نام اللہ کا۔ دیکھیں تحریک انصاف کا بپھرا ہوالب ولہجہ کب تمیز دار بنتا ہے۔
سیاسی اور مذہبی اختلاف ہر جگہ ہوتا ہے مگر ایک حد کے اندر، ہم ہر حد پھلانگ جاتے ہیں۔ مذہبی اختلاف پر کفر کا فتوی اور سیاسی اختلاف پر گردن زدنی کا فتوی۔
بر صغیر کے دو ملکوں میں ٹھنی ہے تو زبان کے مزائلوں کی شرر بازی خوف زدہ کر کے رکھ دیتی ہے، سارے جھگڑے زبان کے غلط استعمال کے نتیجے میں چلتے ہیں۔ زبانی کلامی دھمکیوں سے دونوں ملکوں کے لوگ کپکپا رہے ہیں ، جان کنی کی ایک کیفیت ہے، اوپر کا سانس اوپرا ور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے۔ٹی وی چینلز نے تو وہ بم چلا دیئے ہیں جو شاید دونوں ملکوں کے پاس موجود ہی نہیں۔
اس ماحول میں محتاط رویئے کی توقع عبث ہے۔