خبرنامہ

تنہائی، جنرل باجوہ کا شکوہ درست تھا۔۔اسداللہ غالب

امریکی کانگرس نے پاکستان کے خلاف جو معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے ا ور جس کے پرت آہستہ آہستہ کھل رہے ہیں، اس کی روشنی میں ہم پہ واضح ہو جانا چاہئے کہ امریکہ ہمیں اسی طرح طلاق دینا چاہتا ہے جیسے ا س نے ہمیں افغان جہاد میں استعمال کیا، پھر ٹشو پیپر کی طرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، اسی پر بس نہیں، جن دو جرنیلوں نے سووئت روس کی شکست وریخت میں فعال اور سرگرم کردارا دا کیا تھا، انہیں ایک ہوائی حادثے میں شہید کر دیا گیا، اور جس اسامہ بن لادن نے پیسے دیئے ، جہادی بھرتی کئے ،اسے ایبٹ آباد میں دہشت گرد کہہ کر بھون دیا گیا۔ بس رہے نام اللہ کا۔
جرمنی میں ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل عاصم باجوہ نے اسی تناظر میں شکوہ کیا کہ دنیا ہمیں دہشت گردی کی جنگ میں تنہا چھوڑ رہی ہے۔ میرے سامنے وہ حقائق نہ تھے، نہ انٹیلی جنس معلومات تھیں جن کی بنا پر جنرل باجوہ نے یہ تجزیہ کیا۔اس لئے میں نے اندھیرے میں تیر چلائے ا ور بعد میں سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کے بیانات کی روشنی میں جنرل موصوف کو ناحق تنقید کا نشانہ بنایا۔یہ جو سرتاج عزیز اور طارق فاطمی ہیں ،یہ اپنے ٹھنڈے ٹھار دفتروں کو چھوڑ کر دنیا سے رابطے کے لئے کتنی بار نکلے ا ور جنرل راحیل شریف نے عالمی راہنماؤں سے رابطے کے لئے کتنے بیرونی سفر کئے،ا س کا کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔فارن آفس کے دونوں شرفا کبھی باہر گئے بھی تو ان کی سننی کس نے تھی،ا سلئے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں تو پاک فوج دے رہی تھی، فارن آفس نے تو زبانی جمع خرچ کی بھی کبھی زحمت گوارا نہیں کی۔
آج پاکستان پر امن ہے ۔ یہاں ایک بار کراچی ایئر پورٹ پر حملہ ہواا ورا سکے بعد فوج نے ضرب عضب کا طبل جنگ بجا دیا، اس کے بعد نہ تو پاکستان کے کسی ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا جاسکا ، نہ کسی ٹرین پر بم چلائے گئے، نہ کسی ٹرک نے سینکڑوں افراد کو کچلا، نہ کسی نائٹ کلب پر فائرنگ ہوئی ۔ یہ تھا پاک فوج کا جیتا جاگتاکارنامہ جسے بھلاکر دنیا نے پاکستان کو بھلادیا مگر یہی دنیا دہشت گردی کے چنگل میں بری طرح پھنس چکی ہے۔فرانس آج لہو لہان ہے، برسلز کے ایئر پورٹ پر خون بہہ چکا، امریکہ میں جگہ جگہ فائرنگ ۔ یہ ہوتا ہے پاکستان کو تنہا چھوڑنے کا نتیجہ۔دنیانے پاک فوج کی قربانیوں سے کچھ نہ سیکھا،نہ ا س کی دلیری۔،پیشہ ورانہ مہارت ا ور شجاعت کی پیروی کی۔بس ایک کام کیا کہ پاکستان کی فوجی امداد کو یک بیک ختم یا کم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔یا اس کو مشروط کر دیا۔ایک باریک کام ا ور کیا کہ جنرل راحیل کی نیک نامی کو تہس نہس کرنے کے لئے ہر حربہ آزمایا۔ دنیا کی کوشش یہ ہے کہ جنرل راحیل کو ریٹائر ہونے سے پہلے پہلے غیر مقبول کر دیا جائے۔
مصیبت یہ ہے کہ پاکستان کی سول سوسائٹی اور جمہوری طبقے عالمی شاطروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکے ہیں ا ور مارشل لا نہیں چاہئے کہ نعرے گلے پھاڑ کر لگائے جارہے ہیں۔کون لگا رہا ہے مارشل لا،پاک فوج توا س موڈ میں نہیں، بس یونہی ایک بھوت سوار ہے کہ مارشل لاآرہا ہے ا ورا س مفروضے کی بنیاد پر جنرل راحیل کو ہر دوسرے چوتھے ماہ رگڑا دے دیا جاتا ہے۔بھلا ان بھلے مانسوں سے کوئی پوچھے کہ پاک فوج کے خلاف نعرے لگانے میں تو پیش پیش ہو مگر بھارتی فوج نے کشمیر میں جو بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس کے خلاف بولنے کی جرات کیوں نہیں کرتے، بھارتی فوج اس قدر پیاری کیوں ہے کہ اسے تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز ہی گریز، ا س نے اندھی فائرنگ کر کے بیسیوں بے گناہوں کو ایک ہی روزشہید کر دیا، کہاں ہیں کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانافضل الرحمن جنہیں پاک فوج کی طرف سے مارشل لا کے نفاذ کا تو وہم لاحق ہے مگر کشمیر کے معصوم بیٹے بیٹیوں کی شہادتوں کی کوئی پروا نہیں۔ان کی کشمیر کمیٹی کا اجلا س ایک برس پہلے منعقد ہوا تھا۔
مجھے پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے بھی پوچھنا ہے کہ کیا کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف احتجاجی جلسے جلوسوں کے انعقاد کی ذمے داری بھی آئی ایس آئی پر ڈال رکھی ہے۔کیاآپ کا کوئی فرض نہیں کہ اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے قتل عام کے خلاف آواز تک بلند کرسکو۔اور یہ جو دھرنے والے ہیں ، ان کی بس یہی ڈیوٹی ہے کہ بلا وجہ سڑکیں بلاک کر دو اور اگر اس ملک میں کوئی حکمران پارٹی ہے تو کیا اس کا وجود محترمہ مریم نواز کے میڈیا سیل سے باہر بھی کہیں ہے یا نہیں۔
جو بات جنرل عاصم باجوہ اپنے منصب کی نزاکت کی بنا پر نہیں کہہ سکتے تھے، وہ میں برملا کہے دیتا ہوں کہ دنیا کا تو پرانا وطیرہ پے کہ وہ نری مطلب پرست ہے، پاکستان سے کام لیتی ہے ا ور پھراسے فراموش کر دیتی ہے مگر پاکستانی عوام بھی پینسٹھ کی طرح پاک فوج کے شانہ بشانہ نظر نہیں آرہے بلکہ اکہتر کی طرح مخالفت میں صف بستہ ہیں۔ انہیں صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ جمہوریت کے نام پر ملک کو لوٹتے کھسوٹے رہیں اور انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہ ہو۔آپریشن ضرب عضب کے لئے اول اول تو کوئی تیار نہ تھا، وہ تو پشاور کے ڈیڑھ سو بچوں کے خون کے صدقے سبھی نے یہ تاثر دیا کہ وہ اس آپریشن میں فوج کے ساتھ ہیں مگر کوئی بتائے کہ قومی ایکشن پلان کے لئے وفاق اور صوبوں نے کب کب میٹنگ کی ا ور ان میں جو فیصلے کئے گئے ، ان پر عمل در آمد کہاں تک ہوا، جواب صفر ہے۔
جنرل راحیل کو رگیدناہو تو سب اکٹھے مگر جنرل راحیل فاٹا کی خونی گھاٹیوں میں سر دے تو تن تنہا، عوام خاموش تماشائی۔ جب جنرل راحیل کہہ چکے کہ وہ توسیع نہیں لیں گے تو بار بار اس پر بحث کیوں۔ ویسے سیاستدانوں نے اپنے لئے تیسری ٹرم کی گنجائش آئین میں تبدیلی کر کے پیدا کر لی ہے، سول افسر شاہی ریٹائر منٹ کے بعد توسیع پر توسیع لتی ہے۔یہ جو مختلف محکمے ہیں ، کوئی محتسب کے نام پر کوئی ، پبلک سروس کمیشن کے نام پر، یہ سب اعلی سول ملازمین کے قبرستان ہی تو ہیں جہاں انہیں نئی زندگی مل جاتی ہے۔کیا کوئی آئی جی پولیس سیدھا گھر گیا ہے، کوئی چیف سیکرٹری بھی سیدھا گھر گیا ہے، لیکن اعتراض ہے تو ایک آرمی چیف پر، ضرور اعتراض کیجئے مگر وہ تو کسی منصب کا خواہاں ہی نہیں ۔ بس وہی فلمی اوباش لڑکی کی طرح شورکہ تو مینوں چھیڑیں گا۔
بھئی آرمی چیف کسی کو چھیڑنے کاا رادہ نہیں رکھتے مگر وہ کسی دہشت گرد کو اور اس کے کسی ساتھی کو کسی سہولت کار کو، کسی سرپرست کو،چھوڑنے کے لئے بھی تیار نہیں۔بس یہی ایک لڑائی ہے ناں !!!
یہی لڑائی ہے تو یہ ہو کر رہے گی۔