خبرنامہ

جاپان نے آصف جاہ کو سفر نامہ نگار بنا دیا….اسداللہ غاالب

جاپان نے آصف جاہ کو سفر نامہ نگار بنا دیا….اسداللہ غاالب

میں اس بات کی ٹوہ میں تھا کہ ڈاکٹرا ٓصف جاہ لکھنے لکھانے کی دنیا میں کب اور کیسے آئے، اس کا جواب مجھے ان کے سفرنامہ جاپان سے مل گیا ہے جس کا عنوان ہے چڑھتے سوج کے دیس میں۔ جاپان کے سفرنامے اور بھی لکھے گئے ، جن میں بیگم اختر ریاض الدین کا سفرنامہ ، سات سمندر پار اردو ادب کا قابل فخر سرمایہ ہے۔

چڑھتے سورج کے دیس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آصف جاہ نے جن دنوں جاپان کا سفر کیا، وہ ابھی اپنے محکمے میں اعلیٰ منصب تک نہیں پہنچے تھے مگر ان کی کارکردگی کی دھاک بہرحال اس قدر بیٹھی ہوئی تھی کہ محکمے نے انہیں ایک ماہ کے لئے جاپان میں تربیتی کورس کے لئے منتخب کیا، یوں ڈاکٹر صاحب نے جاپان کا رخ کیا ، یہ ان کا بیرون ملک پہلا سفر بھی تھاا ور پہلے سفر میں ہر انسان جزئیات تک کو اہمیت دیتا ہے،اس لئے ڈاکٹر صاحب نے بھی ہر چھوٹی موٹی بات کا تذکرہ ضروری سمجھا ہے، یہ کتاب کا منفی پہلو نہیں بلکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پینڈو جب دبئی جاتا ہے تو قدم قدم پر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور وہ واپسی پر اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے مشاہدات شیئر کرتا ہے تو ہر تفصیل کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہے جیسے ڈاکٹر صاحب نے جاپان کے ہوٹل میں کمرے کی چابی کی جگہ ایک کاغذ کے ٹکڑے کو استعمال ہوتے دیکھا تو یہ ان کے لئے حیرت کا باعث تھی، پھر کھانے پینے، سفری اخراجات کی مہنگائی نے انہیں پریشان کیا مگر ان کی بیگم نے دانش مندی کامظاہرہ کیا تھا کہ ان کے بیگ میں پکے پکائے ڈبوں میں بند انوا ع و اقسام کے کھانے ا ڑس دیئے تھے جن کی وجہ سے وہ جاپان کی مہنگائی کے اثرات اور مضمرات سے بچ گئے، وہاں بیٹھ کر رس ملائی بھی کھاتے رہے، کڑاہی گوشت کے مزے بھی اڑاتے رہے ، ان کے ایک شریک کورس بھارت سے آئے تھے، وہ پراٹھے پکوا کے لے آئے تھے چنانچہ ڈاکٹر صاحب کا وہ حشر نہیں ہوا جو پاکستان کے ایک آرمی چیف جنرل موسیٰ خان کا جاپان جا کر ہوا، موسیٰ خان نے حرام کھانے سے بچنے کے لئے صبح دوپہر شام ابلے انڈے کھانے شروع کر دیئے، تیسرے دن تک ان انڈوں کے انبار نے ان کے پیٹ میں فوڈ پوائزنگ کر دی ا ور اگلے چھ دن ہماراا ٓرمی چیف جاپان میں الٹیاںکرتا رہا۔جاپان میں بھی جا چکا ہوں، حرام حلال کے چکر میں، میںنے ہوٹل میں ابلے چاول اور دودھ، چینی استعمال کی اور باہر فاسٹ فوڈز ریستورانوں سے فش برگر خرید لیتا تھا مگر بعد میں پتہ چلا کہ تیل کی جگہ خنزیر کی چربی استعمال کی جاتی ہے، مگر اس سے مفر نہ تھا۔مجبوری کا نام شکریہ۔ کٹھمنڈو میں امریکی سفیر کے گھر پر ہائی ٹی میں میںنے دوسرا سینڈ وچ اٹھا یا تو پٹنہ کی ایک نفیس ہندو خاتون نے مجھے بتایا کہ غالب صاحب آپ پورک کھا رہے ہیں۔ دوسرا نوالہ تو میں نے اگل دیا ۔ اللہ پہلے نوالے کے گناہ کومعاف فرمائے۔ ڈاکٹر آصف جاہ اس قسم کی قباحتوں سے اپنی بیگم صاحبہ کی سلیقہ شعاری کی وجہ سے محفوظ رہے۔
جاپان کی ترقی انسان کی آنکھیں خیرہ کر دیتی ہے، ان کی محنت شاقہ کی عادت بھی اچھی لگتی ہے، کام اور بس کام۔مگر ڈاکٹر صاحب کو وہاں لوگوں کی لادینیت اور بد اخلاقی کے مظاہر بھی دیکھنے کو ملے ، جن سے کم از کم میں محروم رہا، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا دورہ صرف گیارہ دن کا تھا اور ڈاکٹر صاحب نے پورا مہینہ جاپان میں گزارا اور چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے انہیں میزبان ملک کا سب کچھ دیکھنے کو مل گیا۔
جاپان میں حسن ہے تو وہ فطری ہے۔ سرسبز ملک ہے، ٹھنڈی تازہ ہوا ہے اور نیم گرم روشنی۔ تاحد نظر پھول ہی پھول ، خوش رنگ پھول۔ہنستے مسکراتے،چمکتے دمکتے، جگمگاتے، اٹکھیلیاں کرتے اور ناچتے گاتے پھول۔ان کے علاوہ بھی جاپان میں حسن کی فراوانی ہے اور وہ ان کی اختراعات اور مصنوعات میں ہے کہ انسان دیکھ کر دنگ رہ جائے۔جاپانیوںنے مشینوں کو بھی انسان بنا لیا ہے، آپ انہیں روبوٹ کہہ لیں مگر میںنے ٹویٹا کے ہیڈ کوارٹر میں ان مشینی انسانوں کو انسان سے بہتر اور مشکل ترین کام کرتے دیکھا۔ ڈاکٹر آصف جاہ کے لےے بھی روبوٹس کی دنیا محیرالعقول تھی۔
اخلاقیات کا درس بھی کوئی ان جاپانیوں سے سیکھے، دیانت اور امانت ان کی صفت اول۔ڈاکٹر آصف جاہ کے بقول جاپانی تہذیب و ثقافت قدیم ترین انسانی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ جاپانیوںنے اپنے تہذینی آثار کی خوب حفاظت کی ہے، صرف قدیم بادشاہوں کے محلات ہی نہیں ، بادشاہت کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے۔
جاپانی ایٹم بم کی تباہی کو نہیں بھولے، ہیرو شیماا ور ناگا ساکی میں تباہی کی یادگاریں قائم ہیں مگر اس تباہی نے ان کے پاﺅں کو نہیں جکڑا۔ انہوںنے امریکہ کو اپنا دشمن نہیں بنا رکھا، کسی کو دشمن بنا لینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی سوچ زہریلی ہو گئی ہے اور آپ اپنے د شمن پر ہر وقت کڑھتے رہتے ہیں، دشمن کو بھول جانے کا سبق بھی جاپانیوں نے دنیا کو سکھایا ہے اور اسی رویئے سے آج امریکی بازاروں میں جاپانی مصنوعات کی بھر مار ہے، اگرچہ اب ان کی جگہ چینی مصنوعات لے رہی ہیں لیکن پائیداری کے لحاظ سے جاپان کا کوئی ثانی نہیں۔
آصف جاہ کی کتاب بے حد مختصر ہے مگرانہوںنے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے میں اس کا سارا خلاصہ لکھ دوں گا تو آپ اسے خریدنے سے گریز کریں گے جس میں ڈاکٹر صاحب کا نقصان ہو گا یا ان کے پبلشرکا۔
مجھے کتابوں میں سفرنانے اور یاد داشتیں زیادہ پسند ہیں۔ سفرنامہ کچھ خرچ کئے بغیر آپ کو دوسری دنیاﺅں کی جھلک دکھا دیتا ہے اور آپ بیتی کسی انسان کے ساتھ عمر بھر گزارے بغیر اس کے تجربات کانچوڑ پیش کر دیتی ہے۔
مگر مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ کتاب کے پہلے ہی ایڈیشن میں دوسروں کے تبصرے کیسے شامل ہو گئے۔ دنیا میں کتاب کی اشاعت سے پہلے اس کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دی جاتی، پھر کوئی اخبار یا میگزین سکہ بند تبصرہ نگاروں کو خود کتاب خرید کر پیش کرتا ہے ا ورا س پر تبصرہ کی درخواست کرتا ہے۔ ہمارے ہاں الٹ رسم چل نکلی ہے، کتا ب کے چھپنے سے قبل ہی چند فوٹو کا پیاں کروا لی جاتی ہیں اور فلیپ، وغیرہ لکھوا لئے جاتے ہیں، آصف جاہ کی اس کتاب میں حسن نثار، نجیب احمد، خالد احمد، ڈاکٹر انور سدید،ایوب خاور اور سول سروس اکیڈیمی کے عطا ا لر حمن کے اردو اور انگریزی تبصرے شامل کئے گئے ہیں۔آئندہ کے لئے ڈاکٹر صاحب میری مانیں تو کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں ایسا مصالحہ شامل کر لیا کریں، پہلا نسخہ تو خالص ان کااپناہونا چاہئے۔
میں یہاں حسن نثار کی رائے نقل کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ چڑھتے سورج کے دیس کی معصومیت، سادگی، سچائی، بے ساختگی اور برجستگی اس کتاب کا اصل حسن ہے۔
خالد احمد کا بھی ایک فقرہ خاصے کی چیز ہے کہ ڈاکٹر آصف جاہ نے اپنی حیرتوں ، مناظر فطرت ، سے اپنی گفتگو اور لوگوں ساتھ اپنے مکالمے کو کمال ہنر مندی سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔
اقبال نے کہا تھا کہ نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی۔ ڈاکٹر آصف جاہ دوہاتھ آگے نکل گئے، انہوںنے تین سو میل سے زیادہ کی رفتار پر چلتی ہوئی بلٹ ٹرین میں بھی نماز ادا کی اور کوبے کی جامع مسجد میں امامت کے فرائض بھی ادا کئے۔کمال تو یہ ہے کہ ایک نائٹ کلب میں بھی انہوںنے تھیلے سے جائے نماز نکال کر فرش پر بچھائی اور کمپاس سے قبلہ کا رخ متعین کر کے تکبیر کہہ ڈالی۔یہی صفت ڈاکٹر آصف جاہ کو ہم جیسے گناہ گاروں سے ممتاز بناتی ہے۔
٭٭٭٭٭