خبرنامہ

جدہ سے چوبارہ تک۔۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
ہفتہ کا دن قدرتی طور پر اوور سیز پاکستانیوں کے لئے مخصوص ہو گیا، پہلے تو شام کے کھانے پرکیپٹن شاہین بٹ اور سید طارق شاہ تشریف لائے، کیپٹن صاحب اب کسی تعارف کے محتاج نہین رہے خاص طور پر اوور سیز پاکستانیوں کے لئے کہ وہ ان کے لئے مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں، پنجاب اوور سیز فاؤنڈیشن کے وائس چیئر مین ہیں، ون کلب روڈ لاہور ان کا دفتر ہے جہاں سائلین کا ہجوم لگا رہتا ہے، کیپٹن صاحب کو سر کھجانے کی مہلت نصیب نہیں مگر وہ کسی ملاقاتی کو مایوس نہیں لوٹاتے، سید طارق شاہ بھی اپنی جائیداد کے ایک تنازعے کو طے کروانے کے لئے نیویارک سے لاہورآئے ہوئے ہیں، چار سال گزرگئے، وہ بور ڈ آف ریوینیو کے ایک فیصلے پر عمل درآمدنہیں کروا سکے ، یہ مسئلہ چوکہ عدالتی نوعیت کا ہے، اس لئے کیپٹن صاحب ہر ممکن کوشش کر بیٹھے ، دال نہیں گلی ،سید طارق شاہ بوجھل دل کے ساتھ واپس جا رہے ہیں، وہ دی نیشن کے سابق میگزین ایڈیٹر سید سرور شاہ کے کزن ہیں اور ڈاکٹر مجاہد کامران کے بھی قریبی عزیز۔ کوئی واقفیت ، کوئی سفارش ان کے کام نہیں آئی۔
ابھی ہم کھانے میں محو تھے کہ فون پر بار بار گھنٹی بجنے لگی، یہ ڈسکہ کے چودھری ذوالفقار تھے اور ان کا کہنا تھا کہ آپ کا گھر دیکھا ہوتا تو وہیں آجاتے، ایک دوست جدہ سے پاکستان آئے ہیں، دل درد مند کے مالک ہیں ، صبح سویرے انہیں سیالکوٹ چلے جانا ہے،ا سلئے آپ تکلیف کر کے کیولری گراؤنڈ آ ئیں، مگر ملنا کس سے ہے، پتہ چلا کہ کہ ایک اوور سیز پاکستانی ہیں ، جدہ میں قیام تھا، اب بھی وہیں کاروبار ہے مگر علاقے کی خدمت کے لئے واپس چلے آئے ہیں، رات کے ساڑھے دس بجے والٹن روڈ سنسان پڑی تھی ا ور جا بجا کھدائی، ان دنوں شہر میں وارداتیں زوروں پر ہیں، اس لئے کسی بھی ناگہانی آفت کا سامنا کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا۔ مگر خیریت گزری کہ کسی ڈاکو بھائی سے ٹاکر انہ ہوا۔
میرے نئے ملاقاتی مرزا الطاف حسین تھے، بس حالی ساتھ لگا لیتے تو اسداللہ غالب ا ور الطاف حسین حالی کی ملاقات کہلاتی۔
مرزاصاحب سن دو ہزار میں سعودی عرب مسلم لیگ کے نائب صدر تھے جبکہ ان دنوں وہ صدر ہیں اور اپنے آبائی علاقے چوبارہ کی یونین کونسل کے چئیر مین منتخب ہو چکے ہیں، انہوں نے ضلع کونسل؛ سیالکوٹ کے ناظم کے الیکشن کے لئے کمر کس لی ہے ، انہیں امید ہے کہ میاں نواز شریف پرانے ناطے سے انہیں ٹکٹ دے دیں گے۔
میں نے پوچھا کہ آپ جدہ سے کیوں چلے آئے، کہنے لگے ، آپ نے پچھلے دنوں نیول چیف آصف سندھیلا و اور چودھری عبدالمجید کا ذکر کیا ہے، وہ اپنے آبائی دیہات کی خدمت میں مصروف ہیں، خاص طور پر نئی نسل کی تعلیمی ضروریات کو جدید خطوط پر استوار کر رہے ہیں، میرا معاملہ بھی یہی ہے۔ چوبارہ ایک پس ماندہ قصبہ ہے، ورکنگ باؤنڈری پر واقع ہے، اس کے دیہات بھارتی فوج کی گولہ باری کا نشانہ بنتے رہتے ہیں ، پینسٹھ مین چونڈہ ا ور چوبارہ کے کھیتوں میں ٹینکوں کی گھمسان کی جنگ ہوئی تھی، دور دور تک بھارتی فوج کے تباہ شدہ ٹینکوں کا ملبہ بکھرا پڑا تھا، بھارت بھی کیا یاد کرے گا کہ کس علاقے میں گھس آیا تھا، ہمارے شیر دل جوانوں نے ان کا بھرکس نکال کر رکھ دیا تھا۔اس کارنامے کے باوجود علاقے کی پسماندگی کودور کرنے کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی۔علاقائی سیاست پر وہ لوگ حاوی ہیں جومشرف کے قریبی رفقا تھے ا ور اب مسلم لیگ ن میں گھس آئے ہیں۔یہ سیاسی پرندے ہیں، جہاں دانہ دنکا دیکھتے ہیں، ڈیرہ ڈال لیتے ہیں۔میرا دل اس صورت حال پر کڑھتا ہے، سچے مسلم لیگی ورکر کی حیثیت سے مجھے اپنے علاقے کی فلاح وبہبود کے لئے سرگرم عمل ہونا پڑا۔
تو کیا کامیابی ہوئی۔، میں نے سوال کیا۔
مرزا صاحب کہنے لگے، میں نے سب سے پہلے تعلیم کی طرف توجہ کہ ، لڑکیوں کا ایک ڈگری کالج بنو اچکا ہوں ا، اب لڑکوں کے ڈگری کالج کا ٹینڈر بھی جاری ہو گیا ہے، قصبے اور ارد گرد کے بچوں کو سیالکوٹ نہیں جانا پڑے گا، اعلی تعلیم کی سہولت ان کی دہلیز پر فراہم کر دی گئی ہے مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، پاکستان مٰں اختیار نہ ہو تو آپ کچھ نہیں کر سکتے، بیورو کریسی آپ کی نہیں سنتی، فائل آگے ہی نہیں بڑھتی ،اس پر طرح طرح کے اعتراضات کی بھرمار کر دی جاتی ہے۔ ارادہ یہ ہے کہ ضلع کونسل کا ناظم بن جاؤں تو لوگوں کی تقدیر ہی بدل دوں گا، ہائی اسکولوں میں ہنر مندی کی کلاسیں شروع کرواؤں گا تاکہ بچے بہت جلد روزی روٹی کمانے کے قابل ہو سکیں۔بی اے اور ایم اے کی ڈگریوں سے تو کوئی کلرک بھی بھرتی نہیں کرتا، ہاتھ میں ہنر ہو گا تو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی حاجت نہیں ہو گی۔
آپ جدہ میں برسوں سے ہیں، کیا جلاوطنی کے دور میں میاں نواز شریف سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ میں نے مرزا صاحب کو کریدا۔
کہنے لگے، میری تو روزانہ ان سے ملاقاتیں رہیں۔ پارٹی کے ایک عہدیدار کے طور پر میرا فرض بنتا تھا کہ ان کی خدمت میں حاضر رہوں۔ان کے ملنے والوں کو جدہ ایئر پورٹ سے لیتا، سرور پیلیس پہنچاتا، ملاقات کے بعد واپس ایئر پورٹ بھی چھوڑتا۔
میاں صاحبان نے جلاوطنی کا عرصہ کیسے کاٹا، میں نے ایک تلخ سا سوال پوچھا۔
مرزا الطاف نے کہا کہ جلاوطنی کسی عذاب سے کم نہیں مگر میاں نواز شریف بہت حوصلے والے انسان ہیں، ان کے چہرے پر تفکرات کی پرچھائیں بھی نہیں دیکھی، شروع میں تو وہ تین ماہ تک حرم شریف کے قریب شاہی مہمان خانے میں مقیم رہے اور حرم کعبہ مں ان کے شب وروز گزرتے، پھر وہ سرور پیلیس منتقل ہوئے ، یہاں ان کا دستر خوان بڑا وسیع تھا، پاکستان کی خبریں زیر بحث آتیں، کالم پڑھ کر سنائے جاتے، میاں صاحب گہری سوچ میں مستغرق رہتے، کبھی کسی کے خلاف منفی کلمات ان کے منہ سے میں نے نہیں سنے۔پھر وہ بزنس کی طرف راغب ہوئے اور بہت بڑی اسٹیل مل لگائی، جس کے لئے انہیں وسیع اراضی مہیا کی گئی۔ وہ اس مل کے انتظامات میں بھی مصروف رہتے۔
میں نے پوچھا کہ ہمارے مرشد محترم مجید نظامی بھی ان کے پاس جاتے رہے ، کیا ان سے ملنے کا موقع ملا۔
اس سوال کے جواب مں مرزا الطاف نے کہا ، کہ کیوں نہیں، جتنی بار نظامی صاحب گئے، میں ان سے ملتا رہا،مجھے معلوم ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ کو متحد کرنے کی تجویز دی تھی جس کے لئے مشرف زور ڈال رہا تھا، مگر میاں صاحب مشرف کو کسی صورت پارٹی میں قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے، ا سلئے یہ تجویز منڈھے نہ چڑھی۔
سعودی عرب کی پریشانیوں کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں، میں نے پوچھا۔
یہ تو عالمی طاقتیں ہیں جو سعودی عرب کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔یمن کا کھکھیڑا بھی بلا وجہ نہیں ،اس کی وجہ سے سعودی عرب میں بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہو ر ہے ہیں۔اس پر دل خون کے آنسو روتاہے، سعودی عرب مسلمانوں کا مرکز ومنبع ہے، حرمین شریفین کی سرزمیں اور اسلام کی جنم بھومی۔ہر مسلمان سعودیہ کی خیریت کا طلبگار ہے اور خدا سے دعا ہے کہ ہمیں کوئی سنگین دکھ نہ دیکھنا پڑے۔
رات کے بارہ بج چکے تھے، میں نے رخصت چاہی ا ور مرزا لطاف حسین سے فرمائش کی کہ ضلع کونسل کا الیکشن جیت جائیں توپھر بتا کر لاہور آئیں، زیادہ دوستوں سے آپ گپ شپ کر سکیں گے۔
مرز الاطاف نے کہا کہ سیالکوٹ شہرا قبال ہے، ا سکی تاریخی، تمدنی اور تہذیبی روایات ہیں، میرا مشن ہت کپا س شہر کو شہر اقبال کے نام سے چار دانگ عالم میں متعارف کراؤں