خبرنامہ

جماعت اسلامی کے ساتھ فوج کی دھاندلی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جماعت اسلامی کے ساتھ فوج کی دھاندلی

سید منور حسن نے جماعت اسلامی کی انتخابی ناکامی کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے استعفا دیا مگر ہائی کمان نے اسے قبول نہیں کیا، ظاہر ہے، یہ ایک شخص کی ناکامی نہیں پوری جماعت اور اس کے عشروں پر پھیلے ہوئے رویوں کی ناکامی ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ سید منور حسن نے اپنی اور جماعت کی ناکامی کی ذمے داری فوج پر ڈالنے کی کوشش کی، پورے ملک میں قبلہ منور حسن کے علاوہ کسی اور نے الیکشن دھاندلی کا الزام فوج پر عائد نہیں کیا۔ اس الزام کو اسی طرح درخور اعتنانہیں سمجھا گیا جس طرح تاریخ نے جماعت اسلامی کی طرف سے قیام پاکستان کی مخالفت کو درخور اعتنانہیں سمجھا تھا۔
جماعت اسلامی جب تحریک پاکستان کی مخالف صفوں میں کھڑی تھی تو بھی اس کی طاقت اتنی ہی تھی جتنی نصف صدی بعدآج ہے۔
حالیہ الیکشن میں جیتنے والوں نے حکومتیں بھی بنا لیں اور اچھل اچھل کر بنائیں۔ مگر دھاندلی کا الزام بھی دہرایا جاتا رہا۔ جیتنے والوں نے بھی کہا کہ دھاندلی ہوئی اور ہارنے والوں نے بھی یہی الزام عائد کیا۔ جیتنے والے بھی سبھی ہیں اور ہارنے والے بھی سبھی ہیں، سوائے ایم کیوایم کے جو ہار کر بھی جیت جاتی ہے۔ واویلا اس نے بھی بڑا کیا اور مولانافضل الرحمن بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے تو یہودیت پروار کیا۔ ایک اے این پی ہے جو خاموش رہی اور ہارنے پر صبر شکر کر کے بیٹھ گئی۔ چودھری شجاعت جو خودتو الیکشن میں نہیں تھے مگر ان کی پارٹی ضرور الیکشن لڑرہی تھی، انہوں نے بھی دھاندلی کا شور مچایا مگر سید منورحسن نے ایسا راگ چھیڑا جس کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہوا۔ جماعت اسلامی کے انتخابی معرکے بھی سب کے سامنے ہیں اور فوج کے ساتھ چھپن چھپائی کا کھیل بھی سب پر عیاں ہے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب قاضی صاحب مرحوم پہاڑ جیسا کام کر رہے تھے۔ محترمہ بے نظیر کی حکومت کے خلاف انہوں نے سونامی بر پا کر رکھا تھا، میں نے ان کو لاہور کے فائیو اسٹار ہوٹل میں سینیئر ایڈیٹرز کے ساتھ کھانے پر بلایا، میٹنگ اور کھانا ختم ہو چکے تو میں نے ایک سوال کی اجازت چاہی، قاضی صاحب نے فرمایا، پوچھیں۔ میں نے کہا کہ محترمہ کو ہٹانے کے بعد جو نیا سیٹ اپ بنے گا، اس کے لیئے آپ کو یقین دہانیاں کرانے کے لئے کوئی حوالدارملتا ہے یا کوئی بڑا افسر۔ قاضی صاحب اس طنز پر خفا ہو گئے۔ کہنے لگے، ہم نے افغان جہا دفوج کے ساتھ مل کر لڑا ہے اور جیتا ہے، ہماری ملاقاتیں ٹاپ جنرلز سے ہوتی ہیں۔ یہ سن کر میں خاموش ہو گیا محترمہ کی حکومت ٹوٹ گئی اور قاضی صاحب کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ پتا نہیں وہ ٹاپ جزلز کہاں گئے جو قاضی صاحب کو افغان جہاد کے دور سے مل رہے تھے۔ جماعت کے عروج کا زمانہ وہ تھا جب ملک پر جنرل یحیٰ خاں کی حکمرانی تھی۔ میاں طفیل محمداس سے مل کرآئے تو انہوں نے بیان دیا کہ میں نے یحیٰ خاں کا بنایا ہواآئین کا مسودہ دیکھا ہے اس سے بہتر اسلامی آئین نہیں بن سکتا۔ستم ظریفی ہے کہ اس آئین کو ان کے علاوہ کسی اور نے نہیں دیکھا۔ اسی دور میں مشرقی پاکستان کے انتخابی نتائج کالعدم قرار پائے، نئے الیکشن ہوئے یا ضمنی الیکشن، ان میں جماعت اسلامی نے میدان مار لیا اور مشرقی پاکستان کی حکومت سنبھال لی جو سقوط ڈھاکہ تک قائم رہی۔ جماعت کی ذیلی تنظیم البدر اور الشمس نے مقدور بھر فوج کا ساتھ بھی دیا اور مکتی باہنی کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔مگر بھارتی فوج کی جارحیت نے پانسہ پلٹ دیا اور پاکستان دولخت کر دیا گیا۔ بھٹو دور کے ایک مختصر وقفے میں جماعت اقتدار سے دور رہی اور پھر پاکستان قومی اتحاد نے دما دم مست قلندر کر دیا جس میں بھٹو کو چلتا کر دیا گیا۔ جنرل ضیا نے مارشل لا لگایا، اسے صالح قیادت کی ضرورت پڑی تو پروفیسر غفور احمد، چودھری رحمت علی، پروفیسر خورشید اورمحموداعظم فاروقی فوجی حکومت کو عطیہ کیئے گئے۔ واپڈا، اطلاعات، صنعت اور منصوبہ بندی جیسے اہم محکمے ان کو تفویض ہوئے۔ بعد میں جماعت نے جنرل ضیا کی فوج کے ساتھ مل کر افغان جہاد کا آغاز کیا اور اسے سوویت روس کی شکست پرمنتج کیا۔ جماعت نے اس جہاد کے جھونگے میں کشمیر میں حریت پسندی کا آغاز کیا۔ بے نظیر بھٹو کے سکیوریٹی رسک سے نمٹنے کے لیئے فوج کے انٹیلی جنس کے شعبے آئی ایس آئی نے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا۔ جماعت اسلامی اس کا سرگرم حصہ تھی۔ مسلم لیگ نواز میں ان دنوں دانش وروں کا سخت قحط تھا، جماعت اسلامی دانش وروں کی ایک کھیپ لے کر آئی جے آئی کا حصہ بنی، بعد میں جماعت تو اس سے نکل گئی لیکن تمام دانشورمسلم لیگ نواز کے پاس رہ گئے۔ اور اس کا اثاثہ ثابت ہوئے۔ جنرل حمید گل نے ایک کالم میں دائیں بازو کی دانش پرڈاکے کے عنوان سے اس تبدیلی پر سیر حاصل بحث کی جس پر یہ دانش ورسخت سیخ پا ہوئے۔ جنرل مشرف کی کمان میں فوج کی حکومت کا ایک اور طویل دور آیا۔ اس دور میں جماعت اسلامی کی پھر لاٹری نکل آئی، ایم ایم اے کے نام سے ایک اتحاد بنا جس نے اس وقت کے صوبہ سرحد میں حکومت بنائی۔ یہی وہ بابرکت دور ہے جس میں وار آن ٹیرر کا آغاز ہوا۔ امریکہ نے افغانستان کا تورا بورا بنادیا اور پاکستان میں دہشت گردی نے سر اٹھایا۔ جماعت بعد میں اس حکومت سے الگ ہوگئی اور فوج سے بھی اس کے فاصلے بڑھتے چلے گئے حتی کہ اب سید منورحسن فوج پردھاندلی کا الزام لگار ہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پورے پاکستان میں کہیں بھی فوج کو الیکشن کی ڈیوٹی پر مامور نہیں کیا، اگر کہیں امن امان کا مسئلہ تھاتو فوج پولنگ اسٹیشن سے باہر رہی۔ ریٹرننگ افسروں پردھاندلی کے الزامات ضرورلگے مگر عدلیہ کے اعلی ارکان کو ان کی صفائی میں کہنا پڑا کہ یہ بہترین ٹیم تھی، اس پر بھی شور و غوغا جاری رہا تو پھر یہ سننے کو ملا کہ توہین عدالت کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے مگر کوئی قانون ایسا بھی ہو جس کے تحت توہین فوج پر سزا دی جا سکے۔ جس کے منہ میں جو آتا ہے، فوج کے خلاف بول دیتا ہے اور فوج خاموشی سے سننے پر مجبور ہے، ماضی میں مارشل لا لگتے رہے، بری فوج کا قصور تھامگر موجودہ فوج کا قصور کیا ہے۔ کیا اس نے جمہوریت کے استحکام کے لیئے اپنی سی کوشش نہیں کی۔ اس کا جواب اثبات میں ہے ہر کوئی اس کو مانتا ہے، پھر جماعت اسلامی کو شکوہ کیوں ہے۔ فوج کے ساتھ یا فوج کی وجہ سے شرکت اقتدار ہو تو ٹھیک وگرنہ فوج بری ہوگئی، یہی اصول ہے۔ وہ دن لد گئے جب فوج کے کندھے میسر آ جاتے تھے، اب فوج سیاست سے دور بھاگ رہی ہے۔ جماعت اسلامی کو جیتنا ہے تو اپنی قوت بازو پر جیتے،فوج کی طرف نہ دیکھے۔ اب فوج اس کی کوئی مدد نہیں کر پائے گی اور جماعت کو ہمیشہ یہ کوہ رہے گا کہ دھاندلی ہوگئی۔
(5جون 2013ء)