خبرنامہ

جمہوریت آزمائش میں‌ ہے … اسد اللہ غالب

مہذب ، جمہوری ممالک میں حکومت ا ور عوام کے درمیان ٹکراﺅ ہوتا رہتاہے، امریکہ ا ور نیٹو نے عراق پر یلغار کی ٹھانی تو لندن کا ٹریفالگر اسکوائر بند کر دیا گیا اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگ سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکلے، اس دنیا میں اٹلی بھی شامل ہے، سوئٹزر لینڈ بھی شامل ہے، فرانس بھی، پرتگال بھی، اسپین بھی اور کرہ ارض کے دوسرے کونے میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا بھی مگر عراق پر حملہ ہو کر رہا۔ عوامی احتجاج کاکسی حکومت نے کوئی اثر نہ لیاا ور نہ کسی حکومت نے عوام کے احتجاج کودبانے کے لئے روائیتی ہتھکنڈے استعمال کئے، لندن کا ٹریفالگر اسکوائر بند ہو جائے تو یورپ کے دل کی دھڑکن بند ہوجانی چاہیئے مگر لوگ اکٹھے ہوئے ، اپنا احتجاج رجسٹر کروایا اور واپس گھروں کو چلے گئے، وقت نے ثابت کیا کہ عوام کا موقف حق پر مبنی تھا، عراق پر حملے سے امریکہ کو خواری کا سامنا کرنا پڑا، صرف قتل وغارت مقصود تھی، اس کا شوق پورا کر لیا گیا۔
پاکستان میں اندھے لڑکے سڑکوں پر نکل آئیں تو پولیس ان کی درگت بنا دیتی ہے، یہ پولیس دھرنے ا ور بندھ کو کیسے برداشت کرے گی، دو نومبر دور ہے اور پولیس ہتھکنڈے زروں پر ہیں ، ہو سکتا ہے کہ حکومت کے پاس ایسی معلومات ہوں کہ دو نومبر کا دھرنا ملک کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گا، مگر دو سال قبل والا دھرنا تو تحریک انصاف کی خفت پر انجام پذیر ہوا تھا، حکومت ویسی ہی آزادی دے کر دیکھ لیتی، اگر دھرنا لاقانونیت کا راستہ ا ختیار کرتا تو حکومت فوج کو بھی طلب کرنے کا آئینی حق استعمال کر سکتی تھی، پچھلے دھرنے میں پی ٹی وی پر قبضہ ہوا تو ٹرپل ون بریگیڈ نے یہ قبضہ چند منٹوں میں چھڑوا دیا تھا۔
حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ دھرنے سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے۔ اس خدشے پر یقین کرنا اسلئے مشکل ہے کہ تحریک انصاف ایک صوبے میں جمہوری انداز سے منتخب ہو کر حکومت کر رہی ہے، اگر جمہوریت کوکوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ بھی نقصان میںحصے دار ہو گی۔اس لئے وہ کیوں ایساراستہ اختیار کرے گی جو خود کشی پر منتج ہو۔
جمہوریت کو بچانے کی زیادہ ذمے داری وفاقی حکومت کی ہے، اس کی حکومت پنجاب میں ہے، کشمیر میں ہے، بلوچستان میں ہے، گلگت میں ہے، تو جب نقصان اس کا زیادہ ہوگا تو اسے تشویش بھی زیادہ ہو گی مگر کیاا س تشویش کو دور کرنے کو وہی راستہ ہے جو حکومت استعمال کر رہی ہے، اس بارے کئی آرا پیش کی جا سکتی ہیں۔ بھٹو نے پی این اے کے احتجاج سے نبٹنے کےلئے ایف ایس ایف کو استعمال کیا، اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ مشرف نے عدلیہ تحریک سے نبٹنے کے لئے کراچی کو لہولہان کیا اور یہ بھی کہا کہ یہ ہوتی ہے طاقت اورنتیجہ دیکھ لیا۔ خود نواز شریف نے ماضی میں اداروں سے تصادم کی پالیسی پر عمل کیا تو نتیجہ دیکھ لیا، اب تو سمجھا جا رہا تھا کہ وہ ماضی سے سبق سیکھ چکے ہوں گے ، اور سیکھنا بھی چاہئے تھا، ظاہر ہے وہ بھی خود کش پالیسی پر چلنے کا ارادہ کیوں کریں گے۔
بہت کہا جا رہا ہے کہ دھرنے کے پیچھے تیسری طاقت کا ہاتھ ہے، یہ جملہ بزدل لوگ بولتے ہیں، ان میں ہمت ہونی چاہیئے اور وہ تیسری قوت کا نام لیں، بہرحال اس سے مراد فوج لی جاتی ہے مگر کوئی ایک دلیل ایسی نہیں کہ فوج دھرنے سے فائدہ اٹھائے گی یا اس کی سرپرستی کرے گی، سرحدوں پر بھارتی فوج غرا رہی ہے، افغانستان الگ آنکھیں دکھا رہا ہے، ایسے عالم میں فوج حکومت پر قبضہ کرے تو حشر اکہتر والا ہو گا، آج کوئی فوجی دوسرا یحیٰی خان نہیں بننا چاہے گا ، ہاں کوئی بھٹو اور شیخ مجیب ہماری صفوں میں ضرور ہوں گے اور وہ چھپے ہوئے نہیں، ایک بلوچ سردار نے تو سرعام بھارت سے سیاسی پناہ طلب کر لی ہے، لندن میں بیٹھا شخص بھی را سے مدد طلب کرتا ہے، مودی کہتا ہے کہ بلوچستان، آزاد کشمیرا ور گلگت کے لوگوں کو حقوق دلواﺅں گا، ویسے ہی حقوق جیسے اس نے کشمیریوںکو دیئے ہیں مگر یہ دھمکیاں ا ور یہ مذموم ارادے تو سب کے سامنے ہیں اور فوج کے سامنے بھی ہیں ، فوج ان سے نبٹے گی یا مستقبل کے دھرنوں سے نبٹے گی، اس لئے براہ کرم فوج پر شک کرنا چھوڑ دیں اور اپنی نیتوں کو ٹھیک کریں۔
میں تو حکومت پر بھی کوئی شک کرنے کو تیار نہیں، وہ تو ملکی ترقی کے منصبوں کو پروان چڑھا رہی ہے، بیسیوں پھیرے لگانے کے بعد شریف برادران نے چین سے بڑی سرمایہ کاری حاصل کی ہے اور سی پیک جیسا عظیم الشان منصوبہ بھی۔ بجلی کی قلت دور کرنے کے لئے بھاگ دوڑ ہو رہی ہے، وزیر اعظم توکہتے ہیں کہ دس ہزار میگاواٹ سٹم میں شامل ہو جائے گی مگر آدھی بھی شامل ہو گئی تو لوگ واقعی لوڈ شیڈنگ کو بھول جائیں گے۔ اور یہ لوڈ شیڈنگ کم ہو گئی، ختم نہ بھی ہو تو، ملک ترقی کی راہ پر بگٹٹ دوڑے گا، تجارتی، صنعتی سرگرمیاں زور پکڑ جائیں گی، نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ ا سلئے حکومت کی تویش بجا ہے کہ کہیں دو نومبر یا اسکے بعد کے دھرنوں سے ترقی کا پہیہ رک نہ جائے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کی حکومت کو دھیمے انداز سے دھرنے سے نبٹنا چاہئے، بالفرض دھرنے کا مقصد انتشار برپا کرنے کا ہے بھی تو حکومتی سختی سے انتشار کو ہوا ملے گی، اس لئے حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے عقاب صفت ا ور سختی پسند ساتھیوں کے کہنے پر کان نہ دھرے، حکومت میں تحمل والے لوگ بھی موجود ہیں ، خود نواز شریف کا مزاج اب بے حد تحمل کی نشاندہی کر رہاہے ، چار بائی پاس کرانے والا سخت مزاج ہو ہی نہیں سکتا ڈاکٹروںنے بھی انہیں اس سے ضرور منع کیا ہو گا۔ نواز شریف کے انتہائی قریبی معتمد اسحاق ڈار ہیں اور وہ سیاست اور فراست اور تحمل سے پہلے بھی مسائل پر قابو پاتے رہے ہیں ، اب بھی ان کی بات سنی جائے، اور مصالحتی عمل کی کمان ان کے حوالے کی جائے۔
تحریک انصاف میں کون تیز مزاج ہے، شاید خود عمران خان، اور کوئی نہیں، اسلئے تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے لیڈر کو سمجھاناچاہیے کہ روز روز کے دھرنوں اور احتجاجی جلسے جلوسوں سے اپنا ہی نقصان ہو گا، تحریک انصاف میں ابھی اتنی قوت ا ور صلاحیت نہیںکہ وہ عوام کو اپنے پیچھے لگا سکے، ایک ٹولہ اس کے ساتھ ضرور ہے مگر ایک ٹولہ انقلاب برپا نہیں کرسکتا، انقلاب تو فرانس کے عوام مل کر بھی برپا نہیںکر سکے تھے اور جس تحریر اسکوائر کاحوالہ ہر سانس کے ساتھ دیا جاتا ہے، اسی تحریر اسکوائر نے اپنے ہی برپا کردہ انقلاب کے گلے پر چھری چلا دی۔ حسنی مبارک تو چلا گیا اور پھر مرسی بھی چلا گیا اور ایک فوجی مرد آہن آکر بیٹھ گیا، کیا پتہ وہ حسنی مبارک بنے گا یا سادات یا جمال ناصر یا حافظ الاسد یا کرنل قذافی تو براہ کرم لوگوں کو تحریر اسکوائر کے جھوٹے خواب نہ دکھائے جائیں۔
مصلحت، نرم روی، دور اندیشیی، سیاست کاری سے گنجلک مسئلے کا حل نکالنا چاہیئے۔