خبرنامہ

جمہوریت سونے کی طشتری میں نہیں ملتی….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جمہوریت سونے کی طشتری میں نہیں ملتی….اسداللہ غالب

سینیٹ کی ایک کمیٹی کا اجلاس ہوا، اس کی خبریں اس وقت زبان زد عام ہیں۔
میں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کیا آرمی چیف نے جمہوریت سے متعلق وفاداری کا اعلان کردیا ہے، میں تو وہاں نہیں تھا لیکن ایک اخبار کی آرمی چیف کے حوالے سے شہ سرخی ہے کہ سیاستدان فوج کو موقع نہ دیں، میں اس کا مطلب یہ لیتا ہوں کہ اگر سیاستدان فوج کو موقع فراہم کریں گے تو وہ ماضی کی طرح اس موقع سے فائدہ اٹھانے سے گریز نہیں کرے گی۔ دوسرے اخبار نے شہ سرخی یوں جمائی ہے کہ آئینی حدود کے اندر ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ نوازشریف کے خلاف فیصلے سے چند روز پہلے جب ڈی جی آئی ایس پی آر سے پوچھا گیا کہ کیا فوج اس فیصلے کو نافذ کروائیگی تو جواب تھا کہ آئین اور قانون کے مطابق عمل کریں گے، گویا آئین اور قانون کی حدود کی تشریح اور اس کے تعین کا اختیار فوج اپنے ہاتھ اور صوابدید میں رکھنا چاہتی ہے۔ اس جملہ معترضہ کے باوجود جو کچھ آرمی چیف نے کہا اس پر واہ واہ کی جارہی ہے اور کی جانی بھی چاہئے کہ کئی اشکالات کا جواب مل گیا ہے اور کئی ابہام دور ہو گئے ہیں اور کئی وضاحتیں سامنے آ گئی ہیں۔
یہ موقع کیسے آیا، اس کے پیچھے حالیہ مہینوں کے اندر اکیلے نواز شریف کی جدوجہد کا بڑا ہاتھ ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اور کئی طفیلی پارٹیاں سسٹم کو سبو تاژ کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہی تھیں، کوشش یہ تھی کہ نواز شریف تو گیا، شہباز میاں بھی جائیں اور پھر مارچ سے پہلے اس حکومت کا کوئیک مارچ ہوجائے تاکہ سینٹ کے الیکشن کی نوبت نہ آئے جس کا سارا فائدہ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کو پہنچنا ہے۔ دوسری کوشش یہ تھی کہ ایک ٹیکنوکریٹ حکومت مسلط کروا دی جائے جو کم ازکم دو سال کیلئے قوم کے سر پہ سوار رہے۔ ایک کوشش صدارتی نظام کے نفاذ کیلئے بھی تھی اور اس کوشش میں وہ لوگ سرگرم تھے جو سابق فوجی ہیں اور اب تجزیہ نگار بنے بیٹھے ہیں اور اپنے آپ کو فوج کا ترجمان سمجھ بیٹھے ہیں۔ ایک کوشش یہ تھی کہ نواز شریف کے بیانات اور حالیہ دھرنے کے ناطے حکومت ا ور فوج کے درمیان دوریاں پیدا کی جائیں، غلط فہمیوں کو پھیلایا جائے تاکہ فوج کو چار و ناچار بزن کا حکم دینا پڑے اور عزیز ہم وطنو کا خطاب سننے کا موقع ملے۔ میںکسی پر الزام تراشی نہیں کرنا چاہتا مگر پچھلے چند ہفتوں میں زرداری، بلاول، طاہر القادری اور کراچی کے ایک لیڈر کی ملاقاتوں نے بھی ماحول کو پراگندہ کیا جس پر سپیکر قومی اسمبلی جیسے باخبر اور ذمے دار شخص کو بھی اس مایوسی کا اظہار کرنا پڑا کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرتی نظر نہیں آتیں اس لئے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ماضی قریب میں کبھی نہیں ہوا یا اس طرح کھل کر نہیں ہوا۔ سپیکر کے بیان کے بعد تو نوازشریف اور موجودہ منتخب حکومت کے مخالفیں بغلیں بجا رہے تھے کہ یہ نظام صبح گیا کہ شام گیا مگر آفریں ہے اکیلے نواز شریف پر جس نے ہار نہیںمانی، وہ میدان میں ڈٹا رہا اور جمہوریت کے استحکام کی جنگ لڑتا رہا۔ مریم نواز نے ان کا بھر پور ساتھ دیا جبکہ یار لوگوں نے یہ خبریں بھی اڑا دی تھیں کہ ہائوس آف نواز شریف تقسیم کا شکار ہے اور نواز شریف ا ور شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں، اس افواہ ساز فیکٹری کی کوشش تو یہ تھی کہ صرف حکومت نہیں، نظام نہیں، شریف خاندان بھی زمین بوس اور تتر بتر ہو جائے۔
مایوسی کا اظہار تو سینٹ کے چیئرمین نے بھی بارہا کیا، وہ یہاں تک کہہ گئے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے تو بہتر ہے کہ پارلیمنٹ کو تالے لگا دیئے جائیں۔ یقینی طور پر یہ سارے سوالات سینیٹرز کی زبان پرآئے اور آرمی چیف کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے ہر سوال کا جواب (میرا خیال ہے کہ) خندہ پیشانی سے دیا، اسی لئے ہر سینیٹر کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں۔کوئی اس پر خوش ہے کہ اس نے منہ پر کڑوی کسیلی سنائیں، کوئی اس پر خوش ہے کہ اس نے فوج کو جمہوریت کا تابع فرمان بننے کے اعلان پر مجبور کردیا۔ بہر حال ایک مکدر فضا صاف ہو ئی ہے، شکوک اور شبہات دور ہوئے ہیں، وسوسے ختم ہوئے ہیں‘ جمہوریت کو لاحق خطرات دور ہوگئے ہیں۔ یہ امر یقینی ہوگیا کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی، اگلے الیکشن وقت پر ہوں گے اور نئی حکومت عوام کے مینڈیٹ کے مطابق تشکیل پائے گی۔
آرمی چیف کے ساتھ سوال جواب کی تفصیل نے کئی حلقوں کی امیدوں پر پانی پھیردیا ہے، کئی سازشیوں کے منہ لٹک گئے ہیں اور بہت سارے عناصر کی قسمت پر اندھیرے مسلط ہو گئے ہیں، اس لئے کہ امپائر نے پھر انگلی کھڑی نہیں کی۔ یہ سب کچھ خوش آئند ہے، اس کی توصیف اور تحسین کی جانی چاہئے،آرمی چیف کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوںنے ایک نحیف و نزار نظام کو سانس لینے کا موقع فراہم کیا ہے، دم توڑتی جمہوریت کو سہارا دیا ہے۔
میں بھی جہاں آرمی چیف کا ان کاموں کے لئے شکرگزار ہوں وہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ جمہوریت کا تحفہ سونے کی طشتری میں رکھ کر نہیں ملا کرتا، اس کے لئے سخت اور کڑیل جدوجہد کرنا پڑتی ہے، وزرات عظمیٰ کی قربانی دے کر بھی سڑکوں پر نکل کر پوچھنا پڑتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا، بتائو، مجھے کیوں نکالا۔ جمہوریت، آئین اور قانون کے لئے فوج کے محبت بھرے اعلان کی اپنی ایک اہمیت ہے مگر جو کچھ ڈان لیکس کے بعد ہوا اور جس طرح کئی وزیروں، مشیروں، حکومتی عہدیداروں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے ، وہ جمہوریت کے ساتھ محبت کے منافی ہی سمجھا جائیگا۔
پھر یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ بھٹو کے سامنے تینوں مسلح افواج کے سربراہوںنے وفاداری کا یقین دلایا مگر بعد میں اسی بھٹو کا نہ صرف تختہ الٹ دیا بلکہ اسے پھانسی پر بھی لٹکا دیا، اور یہ احساس بھی نہ کیا کہ بھٹو اس فوج کا کتنا بڑا محسن ہے جسے کلکتہ کے جنگی کیمپوں سے رہائی دلوائی، ہزاروں مربع میل کا مقبوضہ رقبہ بھارت سے آزاد کروا کردیا اور فوج کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ مشرف نے مارشل لاء لگایا تو اس سے قبل اسے خوش کرنے کیلئے حکومت وقت نے آرمی چیف کے ساتھ ساتھ چیئرمین جائنٹ چیف بھی بنا دیا تھا مگر مارشل لاء پھر بھی لگ کررہا جمہوریت تو محفوظ ہو گئی خواہ وقتی طور پر سہی، مگر یہ تو بتایا جاتا کہ کشمیریوں کو محفوظ بنانیکا طریقہ کیا ہے، ورکنگ بائونڈری ا ور کنٹرول لائن کے باشندوں کا تحفظ کیسے ہو گا۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ ان کیمرہ بریفنگ کا حصہ ہو گا مگر عوام کا اطمینان تب ہوگا جب اس کے چیدہ چیدہ نکات منظر عام پر لائے جائینگے۔ کیا بھارت نے اپنی کشمیر پالیسی کو خفیہ رکھا ہے ، اگر نہیں تو ہم کیوں اسے خفیہ رکھیں۔کشمیر قائد اعظم کے پاکستان کا ادھورا ایجنڈا ہے، یہ انسانیت کیلئے ایک رستا ناسور ہے، اسکا درماں ہونا چاہئے اور قوم کو اعتماد میں لیکر ہونا چاہئے۔ کیا اس مسئلے پر سوال کرنے کیلئے حافظ سعید کو سینیٹ میں ہونا چاہئے تھا، یہ سوال ساجد میر بھی کر سکتے تھے اور سینیٹر مشاہد اللہ بھی کر سکتے تھے جنہیں فیض آباد کے دھرنے کی فکر لاحق تھی اور جن کو یہ کہہ کر آرمی چیف نے مطمئن کرنے کی کوشش کہ اس دھرنے میں ان کا ہاتھ ثابت ہوجائے تو وہ مستعفی ہونے کو تیار ہیں، میرے خیال میں آرمی چیف کو اس جذباتی انتہاء پر نہیں جانا چاہئے تھا، ان کا یہ کہنا کافی تھا کہ سینیٹ اس پر تحقیقات کر لے اور ذمے دار کو جو مرضی سزا دے۔ آرمی چیف اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ا نہوں نے فوج کے ناقدین کے منہ بند کردیئے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے کیونکہ بعض عناصر نے اپنی فوج کی مخالفت کے لئے ادھار کھایا ہوا ہے اور وہ اپنے مشن سے باز آنے والے نہیں، دنیا میں اپنی فوج میں کیڑے نہیں نکالے جاتے، یہ نیک فریضہ صرف پاکستان میں انجام دیا جاتا ہے۔