خبرنامہ

جمہوری استحکام کے لئے نوید۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
نئے چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل زبیر محمود نے اپنے منصب کا چارج سنبھال لیا ہے ا ور ان سطور کی اشاعت کے ساتھ نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی نئے عہدے پر فائز ہو جائیں گے۔
پاکستان میں ایک عرصے کے بعد فوجی ہائی کمان کی بر وقت تبدیلی پر ہر شہری نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس کا سب سے مثبت اثر جمہوری نظام پر مرتب ہوا ہے جو قیام پاکستان سے اب تک خطرات میں گھرا رہا ہے۔
میاں نواز شریف نے اپنی جلا وطنی سے بہت کچھ سیکھا ہے، اگرچہ ان کے ہونٹوں پر کبھی کبھار گلے اور شکوے کے الفاظ بھی نمودار ہو جاتے ہیں مگر انہوں نے جنرل راحیل شریف اور دیگر افواج کے سربراہان کے ساتھ جس خوش اسلوبی سے وقت گزارا ہے،ا س پر وہ بھی کائق مبارکباد ہیں۔ایسے لوگ تھوڑے نہ تھے جو ایک طرف فوج کو بھڑکا رہے تھے اور دوسری طرف حکومت کو مرنے مارنے پرا کسا رہے تھے مگر صد شکر کہ فوج نے بھی اپنے دائرے سے باہر قدم نہیں رکھا اور حکومت نے بھی فوج سے محاذ آرائی سے گریز کیا۔اس طرح جنرل راحیل کا دور خوش اسلوبی سے گزر گیاا ور اس قدر دشواریاں بھی پیش نہیں آئیں جس قدر زرداری کے دور میں بحرانوں نے جنم لیا۔آخر میں ڈان گیٹ کے مسئلے نے سر ضرور اٹھایا مگر فریقین نے اس پر تحمل سے قابو پا لیا۔ورنہ زرداری کی حکومت تو آئے روز فوج سے اٹ کھڑکے میں مصروف رہی، کبھی ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ، کبھی کیری لوگر کا جھگڑا ، کبھی میمو گیٹ کا طوفان، کبھی سلالہ ، اور کبھی ایبٹ آباد میں امریکی جارحیت ۔زرداری نے بھی ہوش مندی کا مظاہرہ کیا اور ان بحرانوں کو سنگین شکل اختیار نہیں کرنے دی مگر اب پتہ نہیں زرداری صاحب کا دماغ کیوں چکرا گیا کہ انہوں نے یہ کہہ دیا کہ تم نے تین سال بعد چلے جانا ہے، ہم نے یہاں ہمیشہ رہنا ہے اور یہیں مستقل طور پر سیاست کرنی ہے، اس بیان نے صرف زرداری کو مشکل میں نہیں ڈالا بلکہ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والے نواز شریف کو بھی امتحان میں ڈال دیا۔ اچھا ہو اکہ زرداری صاحب خود ہی کنارہ کشی اختیار کر گئے۔
میاں نواز شریف کواکسانے والے کم نہ تھے، وہ بار بار یاد کراتے کہ ان کے ساتھ جنرل وحید کاکڑ نے بھی زیادتی کی، آصف نواز جنجوعہ کے ارادے بھی نیک نہ تھے اور جہانگیر کرامت بھی ان سے الجھ گئے۔ مشرف نے تو کارگل کر کے واہگہ بس سروس کی سفارت کاری پر پانی ہی پھیر دیا ۔، میاں نواز شریف کے الفاظ ہیں کہ یہ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے متراف تھا، مشرف نے صرف کارگل پر اکتفا نہ کیا بلکہ شریف فیملی کو جیلوں ، قلعوں میں بھی پھینک دیا اور بالآ خر ملک بدر کر دیا۔میاں شریف کی وفات پر ان کی اولاد کوتدفین میں بھی شرکت کی اجازت نہ دی گئی مگر آفرین ہے نواز شریف پر کہ وہ سب کچھ بھلا کر آگے کی طرف بڑھتے نظر آئے، ان کی نظریں ملکی ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں پر جمی تھیں جن میں سی پیک ایک انقلاب آفریں اور تاریخ ساز قدم ہے۔ایسا کارنامہ کسی شیر شاہ سوری نے بھی انجام نہ دیا ہو گا۔دعا کرنی چاہئے کہ جمہوری نظام کو استحکام نصیب ہو۔ اور ہم اقوام عالم میں اپنے امیج کو بہتر بنا سکیں۔ طوائف الملوکی یا مارشل لا تو ایک کالا دھبہ ہے جو ہماری تاریخ کے منہ پرچپکا دیا گیا۔ہم نے ہر نوع کے نظام حکومت کا تجربہ کر دیکھا، اور ان تجربوں میں ملک دو لخت کر لیا، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم باقی ماندہ پاکستان کو قائد اعظم کے اصولوں کی روشنی میں مستحکم اور خوش حال بنائیں اور اسلامی فلاحی معاشرے کی داغ بیل ڈالیں، اسلامی نظام حکومت بھی مکمل شورائی نظام تھا جو وقت کے ساتھ ملوکیت اور شخصی آمریت میں بدلتا چلا گیا ور یہی چلن مسلم امہ کے زوال کا سبب بھی بنا۔
جمہوری استحکام کے لئے یہی کافی نہیں کہ فوج اقتدار میں منہ نہ مارے بلکہ اس کا حقیقی تقاضہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی سوچ اور عمل بھی جمہوری ہو،سیاسی جماعتیں جمہوی خطوط پر استوار ہوں اور ملک میں محض وفا ق کی سطح پر جمہوریت کی نمائش نہ ہو اور اسلام آباد ہی کلی اختیارات کامنبع و مرکز نہ ہو بلکہ اسے بنیادی سطح پر عوامی نمائندوں کے ساتھ شیئر کیا جائے ا ور بلدیاتی اداروں کو لغوی معنوں میں فعال بنایا جائے۔
ہمارے ہاں ایک بحث یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو بار بار وزیر اعظم نہیں بننا چاہئے، مشرف نے آئین میں ترمیم کر کے اسے دو بار تک محدود کر دیا تھا مگر اب یہ پابندی ختم کر دی گئی ہے، میری تجویز ہے کہ اس بحث کو نہ ہی چھیڑا جائے، سنگا پور کو لی کوان یو نے کتنے برسوں میں عالمی اقتصادی مرکز میں تبدیل کیا، کیا ایک ٹرم میں ، کیا دو ٹرموں میں ، کیا تین ٹرموں میں، نہیں بھئی جب تک لی کوان یو نے خود محسوس نہیں کیا کہ اب اس کا جانشین موجود ہے تو وہ ایک طرف ہٹ گیا مگر کابینہ کا حصہ پھر بھی رہا، وہاں اسے کسی نے شخصی اقتدار کا طعنہ نہیں دیا ۔ میں یہاں حضرت عمرؓ کی مثال نہیں دیتا کہ ہم ان کی خاک پا کے برابر نہیں ہیں مگر نیلسن منڈیلا کو دیکھ لیجیئے کہ کیا اسے کسی نے آمریت کا طعنہ دیا ۔اب اگر نواز شریف چوتھی مرتبہ یا پانچویں مرتبہ اکثریت حاصل کر لیتے ہیں تو اس میں کسی کو کیاا عتراض ہے، تبدیلی تو الیکشن کے ذریعے آنی ہے، ڈی چوک سے اقتدار کا زمزمہ نہیں پھوٹ سکتا۔ لاک ڈاؤن کرنے سے آپ ملکی معیشت کا تو گلا گھونٹ سکتے ہیں مگر اقتدار کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
خدا خدا کرکے ملکی نظام پٹری پر چل نکلا ہے تو اس آگے بڑھنے دیا جائے ، کوئی اسے ڈی ریل کرنے کا نہ سوچے کہ اب یہ دور لد گیا، اب راج کرے گی خلق خدا ، جو تم بھی ہو اور میں بھی ہوں۔