خبرنامہ

جمہوری نظام کو تلپٹ کرنے کے لئے اتحاد….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جمہوری نظام کو تلپٹ کرنے کے لئے اتحاد….اسداللہ غالب

کیلنڈر بدلے گاا ور پرسوں نئے سال کی تاریخ طلوع ہو گی تو ڈاکٹر طاہرالقادری کا مجوزہ اتحاد تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو جائے گا۔ جس اتحاد کا لیڈر ایک غیر ملکی ایجنڈے کا حامل ہو،۔اس سے نیکی کی کیا توقع کی جاسکتی ہے، کل بھوشن بھی حسین مبارک پٹیل کے بھیس میں داخل ہوا اور اس نے پاکستان میںخون کی ہولی کھیلی، ڈاکٹر طاہر القادری فرقہ وارانہ چولہ پہن کر آئے ہیں ۔ ایک بار بے گناہوں کا خون کروا بیٹھے ہیں، اب نہ جانے کیا گل کھلائیں گے کیونکہ تب وہ اکیلے تھے اب ان کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لئے تحریک انصاف کے عمران خان، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری بھی ان کی پشت پر موجود ہیں ، یہ سب مل کر گھر پھونک تماشہ دیکھنے والے گروہ سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں، پاکستان میں جب کبھی اتحاد بنا تو اس نے جمہوریت کا دھڑن تختہ کیا آج تک سب سے بڑا اتحاد نظام مصطفی کی شکل میں تھا جس نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بھٹو صاحب کا تختہ الٹنے اور پھر اسے پھانسی پر لٹکانے کی راہ ہموار کی۔ اب جو نیا اتحاد بنے گا وہ جو گل کھلائے گا، اس کا اندازہ لگانے میں کسی کو دشواری نہیں ہونی چاہئے۔ میرے تو اس کے تصور ہی سے ہوش اڑے جاتے ہیں۔
عمران خان اور قادری پہلے بھی متحد ہو کر دھرنا دے کر مہینوں تک بیٹھے رہے،وہ کبھی کارکنوں کو خوشخبری سناتے کہ چیف جسٹس نے بڑا فیصلہ دے دیا، کبھی کارکنوں کو طفل تسلی دلاتے کہ بس صبر کرو، امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے، وہ آدھی رات کو امپائر سے ملنے بھی گئے مگر صد افسوس، جمہوریت کا خون چوسنے والے ویمپائرز کی شنوائی نہ ہوئی ان کی خواہشات حسرتوں کی شکل اختیار کر کے رہ گئیں کیونکہ امپائر انگلی کھڑی کرنے کے موڈ میں نہیں تھا اور انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اب انہوںنے جس امپائر سے امیدیں لگا رکھی ہیں، وہ سینیٹ کے ایک خفیہ اجلاس میں علی ا لاعلان کہہ چکا ہے کہ پاک فوج جمہوری نظام کے تسلسل کے حق میں ہے اور پارلیمنٹ اور کابینہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کی پابند۔ اس اعلان کے بعد اتحاد ثلاثہ کی کیا امید باقی رہ گئی ہے، کیا وہ کابل سے امریکی اور نیٹوافواج کو پاکستان میں پیرا شوٹ کے ذریعے اترنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں، میںنے چندروز قبل جنرل مصطفی کی زبانی ایک سیکورٹی وارننگ جاری کی تھی کہ ہماری سرحدوں پر بیٹھی ہوئی غیر ملکی افواج کو پاکستان میں بے چینی سے انتشار کاا نتظار ہے۔ان غیر ملکی افواج کے پیچھے امریکی اسپیشل کمانڈو فورس ہمہ وقت تیار کھڑی ہے کہ کب موقع ملے اور وہ پاکستان کو اس کے ایٹمی اسلحے سے محروم کر دے، یہ ایٹمی اسلحہ پاکستان کی قوت کا اصل ڈنک ہے، یہ نکل گیا تو خدا نخواستہ مملکت پاکستان کا عراق اور افغانستان کی طرح فلوجہ اور تورا بورا بنا دیا جائے گا۔
میں یہ تو جانتا ہوں کہ ایک کینیڈین شہری کی حیثیت سے ڈاکٹر قادری کو پاکستان کے وجودا ور ا سکی سلامتی اور سیکورٹی کس حد تک عزیز ہے، وہ ملکہ برطانیہ کے وفادار ہیں ، دوہری شہریت کے ناطے انہیں پہلے تو اس ملک کا مفاد ہی عزیز ہو گا جس کے پاسپورٹ پر وہ پوری دنیا کا سفر بلا روک ٹوک کر سکتے ہیں جبکہ پاکستانی سبزپاسپورٹ تو ان کا ہر جگہ سد راہ ثابت ہوتا ہے۔میاں نواز شریف کو تو جلا وطنی کے دنوںمیں ویزے کی نرمی کے لئے دوبئی کاا قامہ لینا پڑا مگر قادری صاحب نے ملکہ برطانیہ کا پاسپورٹ صرف اس لئے لیا ہے کہ وہ ویٹی کن جا کر پوپ کے سامنے دو زانو ہو سکیں یا مودی کے قدموں میں جا کر بیٹھ سکیں۔
عمران خان کا پاکستان میں ایک مرغی خانہ تک نہیں، ایک بڑا گھر ہے جو اس کے پیسوں سے نہیں جمائما کی عطا کردہ دولت سے تعمیر کیا گیا ہے اور تین ہسپتال ہیں جولوگوں کے چندے سے بنے ہیں،میںنے یہ بات انیس سو پچانوے میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو نیو یارک سے واپسی پر طیارے میں ملاقات کے دوران کہی تھی ۔ اس کے گواہ فرحت اللہ بابر، سید سجاد بخاری، چودھری غلام حسین اور حامد میر ہیں کہ آپ کی بیرون ملک دولت اور دولت کدوں کے چرچے ہیں، بیرون ملک محلات کی خریدو فروخت کے بھی چرچے ہیں ، آپ ہزاربار کہتی رہیں کہ یہ خبریں غلط ہیں تو شاید لوگ مان ہی لیں کہ یہ بلیم گیم جھوٹ پر مبنی ہے مگر لوگوں کو آپ کا پاکستان کے ساتھ کوئی مفاد بھی نظرا ٓنا چاہئے جہاں آپ بار بار وزیر اعظم بنتی ہیں اور یہ منصب چھن جائے توآ پ بیرون ملک سدھار جاتی ہیں ، لوگوں کی تسلی کی خاطر ملک میں ایک مرغی خانہ ہی کھول لیں تا کہ لوگوں کو پتہ ہو کہ حکومت چھن جانے پر آپ غیر ملکی محلات میں نہیں چلی جائیں گی بلکہ کم از کم اپنے مرغی خانے کی نگرانی کے لئے ہی ملک کے اندر رہیں گی۔یہی حال عمران خان کاہے، اس کی پاکستان کے اندر نسوار تک کی ایک دکان نہیں، کسی گلی میں سگریٹ پان کا کوئی کھوکھا تک نہیں کہ اس سے یہ ثابت ہو کہ اس کی جڑیں پاکستان میں ہیں، وہ بڑے طمطراق سے کہتے ہیں کہ انہوںنے پاکستان سے باہر رہ کر کمایا اور یہ دولت واپس پاکستان منتقل کی مگر بنکوںمیں رکھی دولت وہ انٹرنیٹ بینکنگ پر ایک جھٹکے میں وہ بیرون ملک اکاﺅنٹ میںمنتقل کر سکتے ہیں تو ان کا پاکستان سے کیا مفا د وابستہ ہے، یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
رہے زرداری صاحب ا ور ان کے بیٹے بلاول ، یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں کی سیاست بھٹو اور بے نظیر کی لاشوں کے گرد گھومتی ہے، مگر دیکھا جائے تو وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے طے کردہ میثاق لندن سے منحرف ہو چکے ہیں جس میں لکھا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی ا ور مسلم لیگ ایک دوسرے کے خلاف پہلے کی طرح محاذ آرائی میںملوث نہیں ہوں گی، نہ ایجنسیوںکے ہاتھوں میں کھیلیں گی اور ایک دوسرے کی ٹرم کاا حترام کریں گی ، میاںنواز شریف اس معاہدے پر پورے اترے اور زرداری کو پانچ سال میں درجنوں جھٹکے لگے مگرمیاںنواز شریف نے دوستانہ اپوزیشن کی اور زرداری کو ٹرم پوری کرنے کا موقع دیا مگر اب زرداری کھلے عام کہتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ ن کی حکومت کوٹرم نہیں پورا کرنے دیں گے ، یہ کس میثاق لندن کی شق پر لکھا ہے ، اگر ایک سادہ کاغذ پر لکھی ہوئی وصیت کے مطابق جس کا کوئی گواہ نہیں ، زرداری صاحب اپنی بیگم کی سیاست کے وارث ٹھہرے تھے تو جو میثاق جمہوریت دن کی روشنی میں کئی گواہوں کے سامنے ہوا، اسے زرداری صاحب نے کیوںپس پشت دھکیل دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے ضرور دال میں کچھ کالا اور نیت میں فتور آ گیا ہے۔
عمران خان اور آصف علی زرداری کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، جمہوری نظام پر آ نکھیں بند کر کے ایمان لانا چاہئے اور موجودہ حکومت کو ٹرم پوری کرنے دینی چاہئے اور اپنی باری لینے کے لئے جلدی نہیں کرنی چاہئے، کسی ٹیکنو کریٹ حکومت کے بھیس میں جمہوریت پر شب خون نہیں مارنا چاہئے۔یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ا سی شاخ کو کاٹ ڈالیں جس پر خود وہ بھی بیٹھے ہیں، رہے قادری صاحب تو وہ آج پاکستان میں ہیں، پھر دو چار برس کے لئے کینیڈا روانہ ہو جائیں گے، یہ جا وہ جا ۔ باقی رہے نام اللہ کا!!