خبرنامہ

جمیل اطہر کے عہد کی سرگزشت۔۔اسداللہ غالب

کتاب کے عنوان پر نہ جائیں، یہ ایک نہیں ، کئی عہدوں(عہد کی جمع) کی سرگزشت ہے،کم از کم مولانا ظفر علی خان کاعہد وہ نہیں جو زاہد عکاسی کا ہےء، اسی طرح مولانا عطاللہ شاہ بخاری کا عہد بھی وہ نہیں جو کمال سالار پوری کا ہے، کسی نوجوان صحافی سے سوال کیجئے کہ ابو صالح ا صلاحی کون تھے تو وہ کہے گا کہ اسے شعبہ ابلاغیات کے کسی استاد نے ایسے کسی صحافی کا نام نہیں بتایا۔اس لئے نہیں بتایا کہ وہ خود ان کے بارے میں بے بہرہ تھے۔
بہر حال یہ کتاب کسی ایک عہد کی نہیں بلکہ ہر عہد کی داستان ہے، اس لئے کہ اس کتاب میں جن مشاہیر کا تذکرہ ہے، ان کاتعلق ہردور سے ہے۔ وہ آنے والی نسلوں کی راہنمائی بھی کرتے رہیں گے اور ان کی روشن کردہ راہیں ہمیں نئی منزلوں سے ہمکنار کرتی رہیں گی۔
.مجھے کچھ کچھ شک اس کتاب کے مصنف کے بارے میں بھی ہے، کہ وہ خود کس دور سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے مجھے کتاب ہدیہ کرتے ہوئے عزیز بھائی لکھا ہے جبکہ مجھے وہ میرے دادا کی عمر کے لگتے ہیں ، لیکن ان کا چہرہ بے حد دھوکہ دیتا ہے، چہرے مہرے سے ان کا شمار نوجوان صحافیوں میں کیا جاسکتا ہے۔
میں نے قاضی جمیل اطہر کوجب بھی دیکھا، اپنے مرشد مجید نظامی کے کمرے میں دیکھا، وہ نوائے وقت کے لئے باقاعدہ تو نہیں لکھتے تھے لیکن سالانہ بنیاد پر کچھ ضرور لکھتے تھے ا ور یہ مضمون مجدد الف ثانی رحمت اللہ علیہ کے بارے میں ہوتا تھا، پھر وہ سرہند شریف جانے لگے ا ورو اپسی پر اپنے تاثرات بھی قلمبند بند کرتے۔
ان کا اصل مقام روزنامہ وفاق کا دفتر تھا، یہ بھی نوائے وقت کے قرب میں واقع تھا،یہاں وہ طویل عرصے تک مصطفی صادق کے ساتھ کام کرتے رہے اور پھرا پنا الگ اخبار نکالا مگرا س سے پہلے وہ ہر نوع کے اخبار رسالے میں کام کر چکے تھے ا ور باقی زندگی میں اگر کتاب کو دیکھا جائے تولگتا ہے کہ وہ صرف لوگوں سے ہی ملتے جلتے رہے ا ور ان کے کوائف کی ٹوہ میں رہے، پتہ نہیں اخبار چلانے کے لئے وقت کیسے نکالتے تھے۔ مجھے شک ہے کہ وہ صحافت کا محض لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں ، ان کی اصل ڈیوٹی اخبار نویسوں ، شاعروں، صوفیوں، علمائے کرام ، حتی کہ ذاتی اور قریبی دوستوں پر نظر رکھنا تھی، میں پہلے پہل لاہورا آیا تو ہر کسی نے کہا کہ کہ دانشور لگنا ہے تو پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھو مگر وہاں د وتین بزرگ ایسے تھے جو ہر آنے جانے والے کی حرکتوں کو نوٹ کرتے تھے، سو میں نے کبھی اس تاریخی ٹی ہاؤس کا رخ نہیں کیاا ور اس کتاب کے مندرجات سے ظاہر ہے کہ میں قاضی جمیل اطہر کی نظروں سے بھی اوجھل رہنے میں کامیاب رہا، میں نہیں جانتا کہ یہ کتاب صرف مرحومین پر ہے، اس کتاب کو ان بزرگوں اور دوستوں کی زندگی میں شائع ہونا چاہئے تھا ۔ ویسے جمیل اطہر نے دیباچے میں لکھا ہے کہ یہ مضامین مختلف اخبارات اور جرائد میں شائع ہو چکے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مرحوم ہو چکے ، انہیں جیتے جی اپنے بارے میں جمیل اطہر کی اپنے بارے میں رائے سے �آگاہی ہو گئی ہو گی اور یہ رائے دیانت پر مبنی ہے، کھری ہے، سچی ہے ا ور صائب ہے، خدا لگتی ہے، اور بہت اچھی ہے۔قابل ستائش ہے۔انجمن ستائش باہمی والی نہیں۔
کسی ایک شخصیت کی سوانح عمری لکھنا بڑا جان جوکھوں کا کام ہے ، جمیل اطہر نے تو ایک سو سے ا وپر اصحاب کا تذکرہ لکھ ڈالا ہے اور قابل داد امر یہ ہے کہ کسی تذکرے میں تشنگی کا احساس نہیں ہوتا،دریا کوکوزے میں بندکرنا محض محاورہ نہیں ، ا سکی عملی تفسیر اور جیتا جاگتا ثبوت یہ کتاب ہے ۔
میں ا س کتاب کو ملکی صحافت کا انسائیکلو پیڈیا قرار دوں گا۔اس لئے کہ یہ واقعی ایک عہد کی سرگزشت ہے اور اس عہد کے ہر نمایاں صحافی ا ور ایڈیٹر کا تذکرہ اس میں شامل ہے، انداز رتحریر شگفتہ اور رواں۔تواریخ کی کتابوں کی طرح بوجھل پن کا کہیں احساس نہیں ہونے پاتا، آپ کسی شخصیت کو نہیں بھی جانتے توبھی آپ کا دل چاہتا ہے کہ اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ آگاہی حاصل کی جائے ا ورا سی چکر میںآپ ساری کتاب ایک نشست میں نہ سہی، ایک دونشستوں میں ضرور ختم کر لیتے ہیں۔جمیل اطہر سے آپ کو گفتگو کاموقع ملے تو احساس ہوگا کہ وہ تو ایک بے تکلف دوست ہیں اوران کے لہجے کی شگفتگی آپ کو ان کا بندہ بے دام بنادیتی ہے۔
میں زیادہ کیا لکھوں کہ اس کتاب کاموضوع وہ کہکشاں ہے جس سے میری آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔صحافت میں میرے پہلے استاد محترم الطاف حسن قریشی تھے ۔ انہوں نے تبصرے کا حق ادا کرد یا ہے، وہ دیباچے میں لکھتے ہیں : ’’ایک عہد کی سرگزشت‘‘ میں مولانا ظفر علی خان، جناب حمید نظامی،جناب مجید نظامی، جناب میر خلیل الرحمن، جناب زیڈ اے سلیری، جناب ایم اے زبیری‘جناب احمد ندیم قاسمی‘ جناب شورش کاشمیری، سید اسعد گیلانی، جناب فخر ماتری، جناب ارشاد احمد حقانی، انقلاب ماتری ‘ جناب مصطفی صادق اور سید نفیس الحسینی کے بارے میں نہایت بے ساختگی اورانتہائی بے تکلفی کے انداز میں وہ معلومات فراہم کی گئی ہیں جو شائد آپ کو کہیں اور سے دستیاب نہ ہوں۔ بیش بہا معلومات کے علاوہ ان کی اس جدوجہد کا بڑی تفصیل سے ذکر موجود ہے کہ کس طرح انہوں نے بے سروسامانی میں اپنی زندگی کاآغاز کیا اور اپنی غیر متزلزل استقامت، ریاضت اور اپنی درویشانہ صفات سے اقتدار کے ایوانوں میں ان کی ہیبت طاری رہی اور انہوں نے صحافت کو بین الاقوامی معیار تک پہنچا دیا۔ آپ ’’ایک عہد کی سرگزشت‘‘ پڑھتے جائیے، تو آپ کے اندر جہانِ تازہ آباد کرنے کا جذبہ انگڑائیاں لینے لگے گا۔ جناب جمیل اطہر دل میں اُتر جانے والے الفاظ سے ایک ایسی ذہنی فضا تیار کرتے ہیں کہ قاری مولانا ظفر علی خان، جناب حمید نظامی اور جناب میر خلیل الرحمن کے نقشِ قدم پر چلنے کے لئے بے قرارہو جاتا ہے۔
امام کالم نویساں عبدالقادر حسن نے جمیل اطہر قاضی کے بارے میں بہت ا چھی رائے دی ہے، ان کا فرمایا مستند ہے ا ور وہ کہتے ہیں کہ عام صحافیوں کی طرح جمیل قاضی کے دامن پر کوئی داغ نہیں ہے، وہ صاف ستھری شخصیت اور اجلے کردار کے مالک ہیں، سادہ ہیں لیکن پر کشش ہیں اور ملنے والے کو اپنی ذات میں جذب کر لیتے ہیں، ان کا تعلق سرہند سے ہے اور یہ ان کی خوش بختی کی علامت ہے، وہ صحافت نہ بھی کرتے تو نیک نام ہوتے اور بلند مقام ہوتے ، صحافی ا ور ایڈیٹر بنے تو سونے پر سہاگہ ہو گیا۔
مجھے یہ کتاب گزشتہ ستمبر میں عنایت کی گئی، میں یہ نہیں کہتا کہ عدم مصروفیت کے باعث اس پر لکھ نہیں سکا ، لیکن میری خواہش تھی کہ جب بھی لکھوں ، اس کتاب پر ایک نظر تو ضرور ڈال لوں، اب مجھے ان کے لکھے ہوئے خاکے حفظ ہو چکے ہیں۔یہ ا س کتاب کی مقبولیت کی دلیل ہے۔