خبرنامہ

جناب چیف جسٹس! ڈیمز اشتھار کا پہلا فقرہ حذف کر نے کی ضرورت ہے

جناب چیف جسٹس! ڈیمز اشتھار کا پہلا فقرہ حذف کر نے کی ضرورت ہے

میں اس سے پہلے ایک کالم میں محترم چیف جسٹس کے نئے ڈیمز کے بارے میں انشی ایٹو کی تحسین کر چکا ہوں ۔ ان کے پے پناہ قومی جذبے کا قدردان ہوں۔ انہوں نے سوئی ہوئی قوم کو جگایا ہے اور مختصر مدت میں ایک ارب روپے کی رقم کا فنڈ اکٹھا کر لیا ہے۔ پوری قوم کو ان کی اپیل پر د ل کھول کر عطیات دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ڈالروں میں حساب لگایا جائے تو ابھی ایک لاکھ ہی جمع ہو پائے ہیں جبکہ دیا میر بھاشہ اور مہمند دونوں ڈیموں کے لےئے ماہرین کے اندازوں کے مطابق ایک ہزار ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ میں اس وقت ڈیمز کے بارے میں میڈیا پر چلنے والے ایک اشتھار کے پہلے فقرے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں ۔ میں اگر بیمار نہ ہوتا اور میری بینائی ضائع نہ ہوئی ہوتی تو میں خود چل کر چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں عرض پرداز ہوتا مگر اب میں اپنے کالم کے توسط سے ان سے رابطہ کر رہا ہوں اور ایک قومی مسئلے پر اپنا موقف پیش کر رہا ہوں ۔ اس کے باوجود اس میں کوئی گستاخی کا پہلو ہو تو پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے میں مجھے کوئی عار نہیں میں اب اپنی بات کی طرف آتا ہوں۔ ملکی ٹی وی چینلز پر ڈیمز کا ایک اشتھار چل رہا ہے جس کا پہلا فقرہ یہ ہے کہ کیا پاکستان بوند بوند پانی کو ترسے گا۔ میری تجویز یہ ہے کہ یہ فقرہ اشتھار سے حذف کر دیا جائے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پچھلے کئی ہفتوں سے کسی بھارتی ٹی وی کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ جس کے الفاظ انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک ہیں مگر بحث کی خاطرمیں انہیں یہاں نقل کرنے پر مجبور ہوں۔بھارتی وڈیو کے فقرے درج ذیل ہیں:
بوند بوند کو تر سے گا پاکستان
پیاسا مرے گا پاکستان
قبر ستان بنے گا پاکستان۔
نعوذ بااللہ ! ثم نعوذ بااللہ!
ان زہر آلود فقروںنے میرے قلب وذہن کو چھید کر رکھ دیا ہے ممکن ہے جناب چیف جسٹس نے یہ ویڈیو نہ دیکھی ہو لیکن اگر وہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے چیئر مین کو حکم دیں گے تو وہ سوشل میڈیا سے یہ وڈیو تلاش کر کے ان کی خدمت میں پیش کر سکتے ہیں۔ میرے واٹس ایپ اکاﺅنٹ میں بھی یہ ویڈیو بار بار آئی تھی مگر بینائی کی کمزوری کی وجہ سے میںاسے تلاش کرنے سے قاصر ہوں۔ ورنہ پہلے یہ وڈیو جناب چیف جسٹس کا نمبر حاصل کر کے انہیں ارسال کرتا تاکہ وہ خود اسے دیکھتے اور مجھے یقین کامل ہے کہ ان کے بھی وہی جذبات ہوتے جو میرے ہیں کہ بھارتی وڈیو میں دی گئی دھمکی کا پہلا فقرہ ہی ہمیں اپنے اشتھار میں شامل نہیں کرنا چاہئے۔ میں محترم چیف جسٹس سے عرض پرداز ہوںکہ وہ میرے خیالات سے متفق ہوں تو یہ نازیبا فقرہ اشھار سے حذف کروا دیں تاکہ بھارتی دھمکی میرے اور دیگر ان پاکستانیوں کے کانوں میں بار بار نہ گونجتی رہے جو یہ ویڈیو دیکھ چکے ہیں ا ور جن کے قلب و ذہن پر بار باربجلی گری ہے ۔میں اگر پی ٹی اے کا چیئر مین ہوتا تو بھارتی ٹی وی چینل کے اس اذیت ناک کلپ کو پاکستان کے کسی بھی انٹر نیٹ سے ڈاﺅن لوڈ ہونے سے روک دیتا۔ بھارت کو پاکستان میں بے محابا آزادی اظہار اور پروپیگنڈے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔خود ہمارے ملک میں نجی ٹی وی چینلز کو بارہا کسی واقعے کی تشہیر سے روک دیا جاتا ہے۔میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ سابق امریکی صدر اوبامہ نے ایک مرتبہ مائیکرو سافٹ ،گوگل، یو ٹیوب، ٹوئٹر وغیرہ کے مالکان کو وائٹ ہاﺅس میں طلب کر کے بعض معلومات کو عام کرنے سے روکا تھاجس پر ان ٹائکونزنے موقف اختیار کرنے کی کوشش کی کہ وہ عوام کے اظہار رائے کے حق پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتے ، اس پر صدر اوبامہ نے کہا تھا کہ اگرا ٓپ میرا حکم نہیں مانیں گے تو میں آپ لوگوں کو جیل میں ڈال دوں گا۔ ایسی ہی ایک دھمکی سابق بر طانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے عراق جنگ کے دوران سوشل میڈیا کے مالکان کو دی تھی اور وہ سب توبہ تائب ہو کر اس اجلاس سے رخصت ہوئے تھے۔ ریاست سے طاقتور کوئی شخص یا ادارہ نہیں ہو سکتا اور پاکستان میں بھی ریاست ہی کلی طاقتور ہے ۔ اسے بھی اپنا یہ اختیار قومی تقاضوں کے مطابق استعمال کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔امریکی ہوم لینڈ سیکورٹی کے دفاتر میں کتنے کمپیوٹر ہیں اور وہ کتنا ڈیٹا محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کا جواب بھی پی ٹی اے کے چیئر مین بخوبی جانتے ہیں۔میں بحث کو کس طرف لے گیا۔ میرا نکتہ صرف یہ تھا کہ اگر جناب چیف جسٹس مناسب سمجھیں تو ڈیمز کے ایک اشتھار کا یہ فقرہ حذف فرمانے کا حکم دیں جس کے ا لفاظ ہیں :
کیابوند بوند کو ترسے گا پاکستان۔
اب میں آتا ہوں پاکستان میں نئے ڈیمز کی ضرورت کی طرف۔ یہ نکتہ تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ تھرمل۔ کوئلے وغیرہ کے بجلی کے منصوبے مہنگے نرخوں پر بجلی فراہم کرتے ہیں جو صارفین کی قوت برداشت سے باہر ہیں کاروباری اور صنعتکار طبقہ اگر ان کے اخراجات پر شور نہیں مچاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تو اسے اپنی پیدا واری لاگت میں ڈال دیتے ہیں جس سے ان کی مصنوعات مہنگی ہو جاتی ہیں، مہنگی ہو جائیں تو عوام جانیں کہ انہیں کیسے خریدنا ہے، حلال کی روز ی سے نہیں خرید سکتے توحرام کی کمائی کے راستے اختیارکرتے ہیں۔لوٹ مار کرتے ہیں ، کرپشن کرتے ہیں، بھتہ خوری کرتے ہیں، قبضہ مافیا بنتے ہیں ،چائنا کٹنگ میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ سب دولت اکٹھی کرنے کے غیر آئینی، غیر قانونی، ناجائز ہتھکنڈے ہیں۔ ان ہتھکنڈوں میں ملو ث عناصر کے احتساب کے لئے شور مچا ہوا ہے نیب کاروائیاں کر رہا ہے، اعلی عدالتیں مقدمے سن رہی ہیں اور ان کے فیصلے بھی ہو رہے ہیں لیکن اگر اشیائے ضرورت کی مہنگائی پر ہی قابو پا لیا جائے تو کرپشن کے رجحان پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔ مہنگائی کا پہلا سبب پیدواری لاگت میں غیر ضروری اضافہ ہے جو تھرمل بجلی گھروں کی وجہ سے ہے ، اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جناب چیف جسٹس نے ہائیڈل منصوبوں کی طرف توجہ دلا ئی ہے ، ان کی پہلی کوشش تو یہ تھی کہ کالا باغ ڈیم ہی بن جائے جس کی لاگت سب سے کم ہے اور فائدہ بے ا ندازہ ہے۔ کالا باغ ڈیم سے خیبر پختون خواہ کو بھی زراعت کے لئے پانی دستیاب ہو گا مگر دیا میر بھاشہ ڈیم سے اس صوبے کوپانی کا ایک قطرہ تک دستیاب نہ ہو سکے گا صرف مہمند ڈیم ہی کچھ ضرورت پوری کرے گا ۔ خود جناب چیف جسٹس ا س تشویش کاا ظہار کر چکے ہیں کہ ادھر انہوں نے بھاشا ڈیم کی تجویز دی ، ادھر اس کے مخالفین سرگرم ہو گئے اور درجنوں اسکولوں کو نذر آتش کر دیا اور ایک جوڈیشل افسر پر بھی قاتلانہ حملہ کیا۔ کالا باغ ڈیم کی تجویز پر تو اس سے بھی سخت رد عمل آیا تھا۔ گلگت کے انسانیت سوز سانحے کے مجرموں کا تو کسی کو پتہ نہیں مگر کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں سب سے پہلی ا ٓواز سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بلند کی ا ور دھمکی دی کہ کا لا باغ ڈیم ان کی لاشوں پر سے گزر کر ہی بن سکتا ہے۔ اگر ایسی ہی دھمکیوں سے کار حکومت کو رکنا ہے تو پھر کسی بھی ریاستی فیصلے پر عمل درا ٓمد کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ تو انارکی جیسی صورت حال ہے۔ محترم چیف جسٹس کو اس بیان کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے تھا مگر شاید الیکشن کی فضا میں انہوںنے اس مسئلے کو طول دینے سے گریز میں ہی مصلحت سمجھی ہو۔ بہر حال جناب چیف جسٹس میری تجویز پر غور فرمائیں اور اگر اس میں وزن ہو تو براہ کرم اشتھار سے کم از کم دلآزاری کا باعث بننے والا فقرہ کٹوا دیں۔ ان کابے حد شکریہ
میں ان کی فنڈ ریزنگ مہم میں عوام کو حصہ ڈالنے پر آمادہ کرنے کا فریضہ پہلے کی طرح سر گرمی سے ادا کرتا رہوں گا۔