خبرنامہ

جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کا طاقتور خطاب۔۔۔۔ اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کا طاقتور خطاب۔۔۔۔ اسد اللہ غالب
جس وقت ملک کے وزیر اعظم اقوام عالم کے اہم ترین اجلاس سے خطاب کر رہے تھے، ملک کے اندر ایک نیا تماشہ لگا دیا گیا، جنرل مشرف کے کان میں جیسے کسی فرشتے نے ایک انکشاف پھونکاا ور ان کی زبان سے یہ راز دس سال بعد اگلوایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ان کے شوہر، ملک کے سابق صدر اور پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے شہید کروایا تھا، اسی موقع پر ایک عدالت نے یہ حکم جاری کر دیا کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کمیشن کی رپورٹ جاری کی جائے۔یہ دونوں اقدام اپنی جگہ پر درست ہو سکتے ہیں مگر ان کی ٹائمنگ کا ذرا بھی لحاظ نہیں کیا گیا، عالمی برادری کے سامنے جب ملک کا وزیر اعظم اپنا خطاب کر رہا تھا توا نہیں اگر بھارتی نمائندہ ٹوک دیتا کہ آپ تقریر چھوڑیں اور واپس جا کر کسی مسجد میں دعا کریں اور اپنی حکومت کی خیر منائیں اور ملک کی دوسری بڑی پارٹی کی خیر کی دعا مانگیں۔ بھارتی مندوب نے اگر یہ حرکت نہیں کی تو میں اس کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمارے وزیر اعظم کی لاج رکھ لی۔ملک کے اندر البتہ جو کھیل رچایا جا رہا ہے، میں اس میں فریق تو نہیں مگر جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے، ایسے ہی آنسو میں نے اکہتر میں پاکستان دو لخت ہونے پر بہائے تھے۔

جہاںمجھے ملک کے اندر اوچھی حرکتوں پر افسوس ہے، وہاںمجھے ان شہیدوں کا بھی ماتم کرنا ہے جو وزیر اعظم کی تقریر اورا س سے اگلی رات بھارتی فوج کے ہاتھوں کنٹرول لائن پر شہید ہوئے۔ بھارت شاید ہماری ان دھمکیوں کو آزمانے کی کوشش کر رہا ہے جو ہم نے کئی بار دی ہیں کہ ہم کولڈ اسٹارٹ اور ہاٹ اسٹارٹ دونوں کے لئے تیار ہیں اور وزیر اعظم نے بھی شاید انہی دعووں سے متاثر ہو کر جنرل اسمبلی میں کہہ دیا کہ بھارت نے خونریزی بند نہ کی تو اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے۔
مجھے قومی میڈیا سے بھی گلہ ہے کہ جس وزیر اعظم نے نیویارک کی درجن بھر ملاقاتوںمیں کھری کھری باتیں کیں، ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہیں وطن واپسی پر ٹیم سے آﺅٹ تو نہیں کر دیا جائے گا۔ایسے میڈیا کا سامنا ہمیں اکہتر میںمشرقی پاکستان میں پیش آیا تھا اور ہم ایک قومی جنگ ہار گئے تھے۔
جنرل اسمبلی میں پاکستانی وزیر اعظم کو ہمیشہ سے اہمیت حاصل رہی ہے، قوم ہمہ تن گوش ہو کر انتظار کرتی ہے کہ ہمارے لیڈر نے کشمیر پر کیا کہا، بھارت کی شیطنت پر کیا کہا، دہشت گردی کی سرپرستی کے دعووں کا کس زبان میں جواب دیا۔ بلاشبہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تقریر کو مثالی کہا جاسکتا تھا، انہوںنے اس کے کریڈیٹ میں ملیحہ لودھی اور فارن آفس کو شامل کر نے میں کسی بخل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ ان کی فراخدلی بھی ہے، سادگی بھی ہے اور حقیقت پسندی بھی۔
کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت اور وہ بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جس زوردار انداز میں کی گئی، اس پر کم از کم کشمیریوں کا دل تو ٹھنڈا ہوا ہو گاا ور بھارت کا دل جلا ہو گا۔ وزیراعظم نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی کھل کر حمایت کی۔
یہی کچھ پاکستانی عوام اپنے وزیراعظم کی زبان سے سننا چاہتے تھے۔
دہشت گردی کی جنگ کے بارے میں دنیا جو سوالات اٹھا رہی ہے اور جن شکو ک و شبہات کاا ظہار کر رہی ہے، وزیر اعظم نے دو ٹوک انداز میں ان کی تردید کی، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کسی دہشت گرد تنظیم کی کمین گاہیں نہیں، انہوںنے نام گنوائے ان دہشت گرد تنظیموں کے جو افغانستان کی سرزمین پر پھل پھول رہی ہیں اور پاکستان میں خون بہا رہی ہیں، وزیراعظم نے دنیا کو بتایا کہ افغان بارڈر کے کئی سو میل کے علاقے میں ایک بھی افغان چیک پوسٹ نہیں جو وہاں سے آنے والے دہشت گردوں کا رستہ روک سکے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ ہم اپنی سرزمین پر موجود ہر دہشت گرد گروپ کا سر کچل چکے ہیں ،یہ لوگ قبائلی علاقے میں تھے ا ور اب کوئی وقت آ ٓیا چاہتا ہے کہ ان علاقوں کو سول طور اطوار اور آئین کے دائرے میں لایا جائے۔ یہ کام مشکل تو ہے کیونکہ قبائلی رسم و رواج کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اورا ٓج کے قوانین کو انکے ذہن قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے مگر پاکستان یہ کام کرنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہے اورا س کا اظہار اس نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے کیا گیا جس پر ساری ملکی، سیاسی ا ور مذہبی جماعتوں کے سربراہ دستخط کر چکے ہیں اور یہ معاملہ اس وقت پارلیمنٹ کے سامنے ہے جو ملک میں سپریم آئین ساز ادارہ ہے۔
تقریر کے آغاز میں چند اصولی باتیں دہرانے کے بعدوزیر اعظم نے کشمیر میں بھارتی مظالم کا ذکرچھیڑنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔انہوں نے برملا کہا کہ اس وقت بھارت کی سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں ان بے گناہوں کا خون بہا رہی ہے جو حق خود ارادیت کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں، بھارتی قابض افواج کیمیاوی ہتھیارا ور پیلٹ شاٹ گنیں استعمال کرکے کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں۔ گینگ ریپ کو بھی ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہے۔ عالمی برادری کو ان مظالم کا نوٹس لینا چاہئے، سیکرٹری جنرل کو کشمیر کے لئے خصوصی مندوب کا تقرر کرنا چاہئے کیونکہ بھارت نے یو این مشن کو کام کرنے سے روک رکھا ہے، کشمیر پر خصوصی مندوب کو یہ ٹاسک سونپا جائے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت آزادانہ، غیر جانبدارانہ استصواب منعقد کرے جس میں کشمیری عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکیں۔ وزیراعظم نے اس امر پر سخت احتجاج کیا کہ بھارتی افواج نے اس سال چھ سو مرتبہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی اور اگر یہ سلسلہ بند نہ کیا گیا تو اسے ٹھوکواں جواب دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے اقوام عالم کو باور کرایا کہ پاکستان اپنے مشرقی ہمسائے کے ساتھ امن کا خواہاں ہے جس نے ستر برس سے پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے مگر پاکستان جامع مذاکرات کے ذریعے جموں و کشمیر سمیت تمام تنازعات کا بات چیت کے ذریعے حل چاہتا ہے، اس سلسلے میں عالمی ادارہ پاکستان کی مدد کرے۔
کشمیر کی طرح افغان مسئلہ بھی سرطان کی شکل اختیار کر چکا ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ افغان خانہ جنگی کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچ رہا ہے۔بھارتی دہشت گرد اب مغربی سرحد سے بھی پاکستان میں داخل ہو کر تباہی مچا رہے ہیں۔ہمیں اس صورت حال پر سخت تشویش لاحق ہے۔ ہم کسی طور پر پاکستان کو افغان جنگ کا میدان نہیں بننے دیں گے۔ امریکی، اتحادی افواج اور افغان طالبان نے پندرہ بر س سے آپس میں لڑائی شروع کر رکھی ہے مگر کوئی ایک فریق دوسرے کو زیر نہیں کر سکا، ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت کا استعمال بند کیا جائے اور اقوام متحدہ ہی کی خواہش کے مطابق ایک مفاہمتی عمل کے ذریعے افغان امن کو یقینی بنایا جائے۔
خطاب میں اور بھی بہت کچھ ہے، وزیراعظم نے درجنوں اشخاص سے ملاقاتیں کی ہیں، سی این این انڈیاکو انٹر ویو دیا ہے، نیویارک ٹائمز کے ادارتی عملے سے بات چیت کی ہے۔ یہ ایسی کامیابیاں جن کا سہرا وزیر اعظم کے سر ہے مگر میں ایک اخبار نویس کے طور پر اس کامیابی میںملیحہ لودھی کو بھی شریک کروں گا۔ وہ ایک پروفیشنل اخبار نویس تو تھیں مگر ان کی سفارت کاری کی مہارت کی بھی داد دی جانی چاہئے۔
وزیر اعظم کے دورے کی کوریج کے لئے پاکستان سے ایک میڈیا ٹیم ساتھ گئی تھی، کچھ ان کا بھی انتظار کیا جائے کہ وہ واپس آ کر کیا لکھتے ہیں۔ خدا کرے وہ وزیراعظم کی تیز رفتار ملاقاتوں کی داد تو ضرور دیں گے اور جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کے طاقتور خطاب کا بھی ڈنکا بجائیں گے۔