خبرنامہ

جنرل باجوہ نے جو کہا، جو نہیں کہا، جو کہنا چاہئے تھا۔۔۔اسداللہ غالب

جنرل باجوہ نے بہت کچھ کہا ، یہ سب آپ کو معلوم ہے اور جو نہیں کہا،اور جو کہنا چاہیے تھا،وہ میں تھوڑاآگے چل کر بتاتاہوں۔
ہفتے کی دوپہر کو اچانک ٹی وی پر آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی جھلک نظر آئی۔میرا خیال ہے کہ میجر جنرل سے ترقی پانے کے بعد یہ ان کی پہلی مہورت تھی۔
اول اول جنرل باجوہ نے لاہور کاراستہ دیکھا تھا، وہ کئی بار زندہ دلوں کے ا س شہر میں آئے ا ور شہہ سرخیوں کا باعث بنے۔ضرب عضب کا تجزیہ تو ایک نئے شاہنامے کا عنوان ٹھہرا۔
اب حالات کا جبر جنرل صاحب کو کراچی لے گیا ہے، چہ میگوئیاں یہ تھیں کہ رینجرز اور فوج نے کراچی میں اصلاح احوال سے ہاتھ اٹھا لیا ہے، اس کی وجہ بھی صاف نظر آتی تھی کہ زرداری صاحب ملک سے فرار ہو گئے تھے، وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ رینجرز کی تعیناتی میں ہچر مچر کرتے رہے، ان کی وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار سے بھی کچھ عرصہ ٹھنی رہی، پیپلز پارٹی نے صوبائی اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر ایک نیا بل بھی بلڈوز کیا جس کے تحت کسی بھی ملزم یا مجرم کو قید سے رہا کیا جا سکتا تھا، یہ سب کچھ رینجرز اور فوج کے پر کاٹنے کے مترادف تھا۔
جنرل باجوہ نے اسی سکوت کو توڑا اور ایسے ایسے انکشافات کئے کہ ان پر جیمز بانڈ کی کسی فلم کا گمان ہوتا تھا۔میں نے اوائل صحافت میں کئی مہماتی ناولوں کی تلخیص کی، ان میں جاسوسی ناول بھی شامل تھے اور واٹر گیٹ کا قضیہ حقیقی ہونے کے باوجود ابن صفی کے ناولوں کا پر تو معلوم ہوتا تھا، مگر جنرل باجوہ نے اپنی بریفنگ میں جن اسرار سے پردہ اٹھایا، انہوں نے مجھے ہی نہیں ، پوری پاکستانی قوم ہی کو نہیں، بلکہ ایک عالم کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا۔
اس بریفنگ میں محض الزام تراشی پر انحصار نہیں کیا گیا،بلکہ وہ مکروہ چہرے میڈیا کے سامنے پیش کئے گئے جو بے گناہوں کاخون کرتے رہے، عجب بات ہے کہ سارا نیٹ ورک کراچی میں تھا اور ان کی دہشت گردی کی وارداتوں کا دائرہ پورے ملک میں پھیلا ہو اتھا اور نہ جانے اس سے آگے کہاں تک۔یہ ساری تفصیلات آپ یا تو براہ راست ٹی وی سے سن چکے یا اخبارات میں پڑھ چکے ، میں انہیں یہاں دہرا کر نہ آپ کا قیمتی وقت ضائع کروں گا، نہ اپنے اخبار کے صفحات۔
مجھے تھوڑا آگے بڑھنا ہے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ فاٹا کا علاقہ دہشت گردوں کا گڑھ ہے۔مگر یہ کیا، جنرل باجوہ نے جو تصویر پیش کی اس سے تو لگتا ہے کہ دہشت گرد سجی دکھا کر کھبی مارتے رہے اور انہوں نے فوج کو فاٹا میں الجھا کر اپنے مافیا کے اڈے کراچی میں قائم کر رکھے ہیں۔فاٹا والے دہشت گردوں کے بارے میں دوسرا خیال یہ تھا کہ یہ وہ غیر ملکی ہیں جو افغان جہاد کے لئے آئے ا ور پھر یہیں کے ہو رہے اور اب موقع پا کر پھر اپنے پٹھے دکھا رہے ہیں مگر کراچی سے جو پکڑے گئے وہ تو اپنے بندے ہیں، ان میں کوئی غیر ملکی نہیں ہے۔تو یہ جو اپنے بندے ہیں ، یہ دہشت گردی پہ کیوں اتر آئے، ٹارگٹ کلنگ اور شے ہے ، دہشت گردی اور شے، نیشنل ایکشن پلان میں لکھا گیا کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور سرمایہ کاروں کو بھی نہیں چھوڑیں گے، رینجرز اور فوج نے جو کراچی کا رخ کیا تو لازمی طور پر انہیں خبر ہو گی کہ فاٹا نہیں، کراچی ہی دہشت گردوں کا گڑھ ہے، ان کے سہولت کار بھی یہیں ہیں ا ور سرمایہ فراہم کرنیو الے بھی یہیں۔ یہ جو بھتہ خوری تھی، اس کا پیسہ بھی تو دہشت گردوں کو جا سکتا تھا۔اور پھر دھڑا دھڑ گرفتاریاں ہونے لگیں ، ایسے لوگ بھی پکڑے گئے جن پہ دہشت گردوں کا ساتھی ہونے کا گمان تک نہ ہوسکتا تھا۔
مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، یہاں سے شروع ہوتی ہے اور یہی کہانی باجوہ صاحب نے بتائی نہیں۔کسی دوسرے موقع پر وہ اس کہانی کو ضرور بیان کرتے رہے ہیں مگر حالیہ بریفنگ میں انہوں نے اس کہانی سے نقاب نہیں اٹھایا۔ سوال یہ ہے کہ کراچی میں کسی بندے کو کامرہ پر حملے کی کیا ضرورت آنُ پڑی یا لاہور کی آئی ا یس آئی کے دفتر سے اسے کیا شکائت لاحق ہو سکتی ہے۔
کراچی میں بعض طوطے بولے ہیں کہ انہیں بھارت کی را نے تخریب کاری اور دہشت گردی کی ٹریننگ دی ہے،اس پر سیاسی جماعتوں نے شور مچایا کہ ان کے خلاف انتقامی کاروائی کی جارہی ہے مگر اب جبکہ مافیا کے سرغنے پکڑے گئے ہیں تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آ پ خود غور کیجئے کہ کراچی کے ایک عام شہری کو کامرہ میں ایواکس طیارے یا کراچی کے بحری اڈے پر اورین طیارہ تباہ کرنے سے کیا غرض۔ یہ طیارے تو بھارت کی نظروں میں کھٹکتے ہیں اور بھارت ہی انہیں تباہ کروانے کے لئے سازش کر سکتا ہے۔ ایک بھارتی وزیر کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیئے پاکستانیوں کو ہی استعمال کریں گے اور میری تھیوری یہ ہے کہ جنرل باجوہ نے جن ملزموں یا مجرموں کو میڈیا کے سامنے پیش کیا ہے، وہ سب بھارت کے کل پرزے اورآلہ کار ہیں۔
ہمارے ہاں ایک عام سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ طالبان یا القاعدہ کو اگر امریکہ یا نیٹوافواج سے بیر ہے تو وہ پاکستان کی فوج اور پاکستانی عوام کو کیوں نشانہ بناتے ہیں، اس کا جواب بھی مل گیا ہے کہ جب دہشت گردوں کو ٹریننگ بھارت نے دینی ہے تو وہ پاک فوج ا ور پاکستانی عوام ہی کو نشانہ بنائیں گے۔اور اب تو وہ اسکولوں کے ننھے پھولوں جیسے معصوم بچوں کے در پے ہیں۔، ان بچوں نے ان کا کیا نقصان کیا ہے ۔ یہاں میں آپ کویاد کراتا چلوں کہ بھارتی وزیر دفاع نے دھمکی دی تھی کہ ایسی کاروائی کریں گے کہ دشمن کو بھی وہی درد محسوس ہو جو بھارت کو پٹھانکوٹ یا ممبئی کی وجہ سے محسوس ہوا۔
ساری کہانی اب آپ کی سمجھ میں آ گئی ہو گی۔
اب آیئے کہ جنرل باجوہ نے بولتے بولتے آرمی چیف کا نام لیا، پھر اپنی ا صلاح کی اور یہ کہا کہ فوج نے فیصلہ کیا۔
اس کا ایک مخصوص پس منظر ہے۔
جنرل باجوہ پر دباؤ ہے کہ وہ ایک فرد کی تشہیر نہ کریں ، ایک ادارے کی کریں۔، اصولی طور پر یہ بات درست ہو سکتی ہے مگر جو لوگ دباؤ ڈال رہے ہیں، ان کا اپنا طرز عمل ا س سے قطعی برعکس ہے ۔پیپلزپارٹی اٹھتے بیٹھتے بھٹو کے نام کی مالا جپتی ہے، کبھی کبھی زرداری ا ور بلاول کا ذکر بھی کر لیا جا تا ہے مگر عام نعرہ یہی ہے کہ ہرگھر سے بھٹو نکلے گا۔ایک زمانہ تھا کہ جماعت اسلامی نے مولانا مودوی کا بت تراش لیا تھا، پھر قاضی حسین احمد کا ڈنکا بجنے لگا۔آپ لاہور شہر کی سڑکوں پر گھوم جایئے ، ہر طرف شہباز شریف کی تصویریں لہلہا رہی ہیں، میڈیا کے ا شتھاروں میں میاں نواز شریف کا رخ مبارک جھلکتا ہے۔اس رسم کے تحت راحیل شریف کی پبلسٹی کیسے جرم بن گئی۔اور اگر راحیل شریف میں کوئی خوبی نہ ہوتی تو محض پبلسٹی سے ان کا امیج نہیں بنا یا جاسکتا تھا، خالد بن ولید،طارق بن زیاد، عقبہ بن نافع، صلاح الدین ایوبی،محمود غزنوی کو کسی آئی ایس پی آر نے شہرت دوام نہیں بخشی۔
میں سچ بتاتا ہوں کہ جب جنرل باجوہ نے پٹری بدلی تو میرا دل ٹوٹ گیا۔ جنرل راحیل شریف جیسے عبقری روزروز پیدا نہیں ہوتے، پاکستانی فوج میں کتنے سربراہ اور جرنیل آئے اور چلے گئے مگر جنرل اعظم خاں کو مشرقی پاکستان میں پوجا گیا، جنرل ایوب کی تصویریں آج بھی ٹرکوں پر دیکھی جا سکتی ہیں۔تو کیا انسٹھ برس میں یہی دو جرنیل تھے۔ باقی کیا تھے اور کہاں گئے۔
راحیل شریف نے اپنا نام اپنے کام سے کمایا کیا ہے۔کسی کی زبان نہیں پکڑی جا سکتی ، مگر راحیل شریف کے کارناموں کو جھٹلا یا نہیں جا سکتا۔گہنایا بھی نہیں جا سکتا۔
جنرل راحیل شریف کے کردار کا ڈنکا بجانا ہمارا فرض ہے۔کوئی ہم ساہو تو سامنے آئے۔
اور یہ بھی بتاتا چلوں کی موسم میں گرمی آ رہی ہے، آپ دیکھیں گے کہ حالات نے بھی حدت پکڑ لی ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔جنرل راحیل شریف اب کھل کر کھیلیں گے، آخری اوور ہے اور آخری گیند۔ اسی پر انہیں چھکا لگانا ہے۔