خبرنامہ

جنرل باجوہ کے بعد جنرل مشرف۔ فوج کو دیوارسے نہ لگایا جائے…اسد اللہ غالب

جنرل باجوہ کے بعد جنرل مشرف۔ فوج کو دیوارسے نہ لگایا جائے…اسد اللہ غالب

اس مسئلے پر میری رائے پچپن بر س سے نہیں بدلی میری پہلی تحریر پینسٹھ کے شہیدوں غازیوں کے بارے میں تھی۔ جب حکومت کارگل کی مخالف تھی تو میں ا سکا کھلا حامی تھا۔ حکومت نے ا س پاداش میں میرا گوڈا بھی توڑا اور بھارت نے کارگل پرمیری ویب سائٹ ہیک کی۔ ایک جرم اور دونوں ملکوں سے مجھے سزا ملی، حکومت نے ایٹمی دھماکوں میں لیت ولعل سے کام لیا تو میں نے اپنے مرشد مجید نظامی کی آواز میں آواز ملائی کہ حکومت دھماکہ نہیں کرے گی توعوام حکومت کا دھماکہ کر دیں گے۔بارہ اکتوبر ننانوے کو مشرف کا جہاز فضا میں تھاا ور ا سکا رخ احمد نگر بھارت کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی اور ملک کے تمام ہوائی اڈوں کے رن وے پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں کہ مشرف کا جہاز لینڈ نہ کر سکے تو میں نے حکومت کی سخت مخالفت کی تھی، لال مسجد کی سات فٹ لمبے قد کی مخلوق نے لااینڈ آرڈر کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو میںنے لکھا تھا کہ اگر خانہ کعبہ پر قبضے کو چھڑایا جا سکتا ہے تو حکومت کو لال مسجد پر قابو پانا چاہئے۔تب ٹی وی چینلز حکومت کو بے نقط سنا رہے تھے کہ آئی ایس آئی کی آنکھوں کے سامنے اسلحے کا ڈھیر کیسے لگ گیاا ور غیر ملکی عناصر مورچہ زن کیسے ہو گئے اور حکومت کو سخت کوساجا رہا تھا کہ وہ ایکشن کیوںنہیں لیتی تو انہی ٹی وی اینکرز نے ٹیپ بدل لی کہ لال مسجد میں معصوم بچوں کا خون ناحق ہو گیا۔کسی نے پاکستانی فوج کے کمانڈو کرنل ہارون الاسلام کی شہادت پر آنسوبہانے کی زحمت نہ کی۔ آج بھی لوگ وار آن ٹیرر میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں مگر میں نے پہلے دن سے ضرب عضب کی کامیابی تک اس جنگ کی حمایت کی۔

جنرل باجوہ کی تو سیع کے مسئلے پر ایک فرد کی نہیں ، ایک ادارے کے سربراہ کی تضحیک ہوئی۔ میں اس کی تفصیلات میںنہیں جاتا کہ میں قانون کی ابجد بھی نہیں جانتا مگر ایک عام ا ٓدمی کی حیثیت سے میں ہمیشہ اس خدشے کا ا ظہار کرتا رہاہوں کہ فوج پر سول بالا دستی قائم کر نے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ پٹواریوں ، تھانیداروں اور سیکرٹریوں کی طرح فوج کے افسروں کی

تقرری اور تبا دلے کے فیصلے سول ہاتھوں میں دے دیئے جائیں۔ اس طرح تو احسن گجر کے فیصلے چلیں گے اور ہر ایم این اے اور ایم پی اے اپنی مرضی سے فوجی افسر کا تبادلہ کرانے لگ جائے گا۔ اگر چہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومت نے جنرل باجوہ کیس میں عدالت کے حق سماعت کو چیلنج نہیں کیا لیکن یہ کوئی دلیل نہیں کہ فوجی جرنیلوں کی تقرری کے فیصلے سول محکمہ کرے۔ عدلیہ میں تقرری کا فارمولہ خود عدلیہ نے طے کردیا اور پارلیمنٹ کو ہدایت دی کہ اس کے مطابق آئین میں ترمیم کر دی جائے جو کہ ہو گئی میری تو رائے ہے کہ کورکماڈرز بھی مل بیٹھ کر آرمی چیف کے تقرر کا فارمولہ خود طے کریں اور پارلیمنٹ سے کہیں کہ اس کے مطابق قانون سازی کر لی جائے تاکہ آئندہ کوئی جھگڑ اہی کھڑا نہ ہو۔ آرمی چیف بننے کے لئے ایک ہی شرط ضروری کے بندہ لیفٹیننٹ جنرل ہو۔ بہر حال آئینی موشگافیوں اور حکومتی آفس آرڈرز کی آڑ میں پاک فوج کے ایک اہم ترین ادارے کے سربراہ کے ساتھ جو سلوک ہوا، وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ پچھلے سال ہم نے دیکھا کہ بھارتی آرمی چیف اپنی تاریخ پیدائش کم کرانے کے لیے عدالتوں میں خوار ہوا۔ بھارتی آرمی چیف کی تو اپنے ملک اور دنیا میں کوئی عزت نہیں کرتا مگر پاک فوج کا سربراہ تو وہ ہے جس نے وار آن ٹیرر میں کامیابی حاصل کی جبکہ ہماری سرحدوں پر امریکی اورنیٹو افواج بیس سال کے بعد بھی ہاتھ کھڑے کر چکی ہیں۔ اگر جنرل باجوہ کی سول معاملات میںمداخلت پر کسی

کو اعتراض ہے تو وہ ایک سال میں ملک کو اتنا قرضہ اور امداد دلانے کا چیلنج قبول کرے جو جنرل باجوہ نے کردار ادا کیا اور ملک کی آئی سی یو میں سسکتی معیشت کو چین ،قطر، سعودیہ،امارات اور آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر لے کر سہارا دیا۔ ذرا بھارت سے کوئی کہے کہ وہ ابھی نندن کو ایک بار پھر کنٹرول لائن کے پار بھیجے اور دوبارہ مزہ چکھ لے ۔ یہ پاک فوج اورا سکے قائد کی صلاحیت ہے جسے ساری دنیا مانتی ہے۔

جنرل باجوہ کے خلاف اصل میں تو مولانا فضل الرحمن نے توپوں کے دہانے کھولے۔ بلاول، خواجہ آصف اور احسن اقبال نے بھی آستینیں چڑھا لیں۔ بلاول بھول جاتا ہے کہ اس کا نانا فیلڈ ماشل ایوب کو ڈیڈی کہتا تھا اور مادر ملت کے خلاف وہ ایوب کا چیف پولنگ ایجنٹ تھا۔ خواجہ آصف بھی بھول گئے کہ ان کے والد جنرل ضیا کی شوریٰ کے چیئر مین تھے ا ور احس اقبال بھی اپنی والدہ ا ور اپنے ماموں کے ضیا الحق کے رشتوں کو بھول گئے۔ یہ لوگ بھلے بھول جائیں ،مگر قوم کا حافظہ کمزور نہیں۔ بلاول کی امی جان نے جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت عطا کیا۔ اور بلاول یہ بھی بھول گئے کہ افغان مجاہدین حکمت یار وغیرہ کو پاکستان لانے والا بھی اس کا نانا تھا اور امی جان کے دور حکومت میں ان کے وزیر داخلہ جنرل نصیراللہ بابر طالبان کو ٹینکوں پر بٹھا کر قندھار چھوڑ کر آئے تھے۔ آج ہر کوئی کارڈیالوجی ہسپتال کی تباہی پر روتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے یہ ہسپتال تو جنرل جیلانی نے بنوایا تھاا ور نواز شریف کو بھی سیاست اور حکومت کا راستہ جنرل جیلانی ہی نے دکھایا تھا۔ جنرل ضیا نے اپنی عمر نواز شریف کو لگا دی۔

ہا جنرل مشرف پر غداری کا الزام توفوجی اسوقت غدار ہوتا ہے جب وہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیلے۔مشرف نے آئین توڑا تو عدلیہ اور پارلیمنٹ نے اسے اس جرم سے پاک قرار دیا۔ایوب کے مارشل لا یحییٰ کے مارشل لا اور ضیا کے مارشل لا کو بھی عدلیہ اور پارلیمنٹ معافی تلافی دیتی رہی۔ پوری دنیا میں روائت ہے کہ جو فوجی انقلاب کامیاب ہو جائے اور عوام اسے قبول کر لیں تووہ آئینی اور قانونی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ پاکستان واحد ملک نہیں جہاں فوج آئین توڑ کر مارشل لا لگاتی ہے۔ دنیا میں کم و بیش ہر سال کہیں نہ کہیں یہ اچھا یا برا کام کیا جاتا ہے ۔ ہاںناکام بھی ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں کچھ باغیوں کو دھر لیا جاتا ہے۔ مشرف کے کیس میں پاک فوج نے ایک رد عمل دیا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ پاکستان میں اس رد عمل پر پھبتیاںکسی جائیں گی۔ پاکستان میں جوطبقہ جمہوریت کا چیمپیئن بنتا ہے، وہ اپنے اپنے دور حکومت میں فاشسٹ حکومت سے بھی زیادہ ہٹلر ثابت ہوتا ہے، بھٹو نے اپنے ہی ساتھیوں کو دلائی کیمپ میں قید کیا۔ بے نظیر اور نواز شریف نے اپنے اپنے دور میں ایک دوسرے پر طرح طرح کے مقدمے قائم کئے جو آج بھی نیب کے گلے پڑے ہوئے ہیں اور ان مقدموں کو انتقامی کارروائی کہا جاررہا ہے۔ مقدمے قائم کریں نوازا ور محترمہ ایک دوسرے پر اور میثا ق جمہورہت میں اس کاا عتراف بھی کریں اور گالیاں فوج کو اور فوجی کی حکومت کو۔ ان میں سے کچھ بھارتی شردھالو ہیں،کچھ مغرب کی این جی اوز کا چندہ کھاتے ہیں ، کچھ عوام کی خون پسینے کی کمائی سے اربوںڈالر لوٹ لے گئے ایوب نے گیارہ برس تک مستحکم حکومت چلائی۔ یحییٰ خان نے پہلے شفاف الیکشن کروائے مگر ان کو بھٹو نے سبوتاژ کیاا ور ادھر ہم اور ادھر تم کا نعرہ لگا کر ملک کے دو ٹکڑے کر دئے۔ قومی اسمبلی ڈھاکہ اجلاس میںجانے والوں کو دھمکی دی کہ ان کی ٹانگیں توڑ دوں گا ۔ صرف احمد رضا قصوری گئے اور ان کے والد کو شہید کر دیا گیا۔ا س جرم میں سزا ہوئی توا ٓسمان سر پہ اٹھا لیا کہ جمہوریت کوتختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ محترمہ کی شہادت کی تحقیقات زرداری حکومت کو کروانا تھیں۔ کیوںنہ کسی کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔اس کی وجہ بلاول اپنے والد صاحب سے معلوم کریں۔

پاک فوج ملک کا باوقار ادارہ ہے۔ اسے گالیاں دینے والوں کو کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ وہ مل جائے تو خوب برستے ہیں مگر جان لیجئے کہ فوج کو کمزور کر کے مودی کے مہا بھارت کے مذموم ارادوں سے کیسے بچ پائیں گے۔ مگر فوج خاطر جمع رکھے۔ اسے ٹویٹ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ فوج کو پہلے بھی کسی نہ کسی بہانے نشانے پر رکھ لیا گیا مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ پاک فوج کے جی دار متوالوں نے ہر بار فوج کا دفاع کیا اور فوج کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو سوشل میڈیا پر چند گھنٹوں کے اندر مات دے دی تھی۔

آج کا دور ٹی وی اسکرین کا نہیں بلکہ یہ سوشل میڈیا کی جنگ کا ہے۔ آئیے یہ بھی لڑ دیکھ لیں