خبرنامہ

جنرل راحیل کو تاریخ یاد رکھے گی۔۔۔اسداللہ غالب۔۔۔۔۔انداز جہاں

ملازمت میں توسیع گد اگری کے مترادف ہے،نشان حیدر خاندان کا وارث صرف شہادت مانگ سکتا ہے،توسیع کی بھیک نہیں مانگ سکتا۔
گداگر آپ کو سیاسی پارٹیوں میں نظر آئیں گے،قبروں میں ہڈیاں بنے لیڈر بھی پارٹیاں چلا رہے ہیں۔اور افسر شاہی میں دیکھیں، کتنے ہی گداگر مختلف مناصب سے چمٹے ہوئے ہیں۔موجودہ سیاسی نظام جس الیکشن کی پیدا وار ہے، اس کی نگرانی ایک ایسے مرد فرتوت کے سپرد تھی جو ملک کے آرمی چیف کو نہیں پہچان سکتا تھا، کرکٹ بورڈ کو ایساشخص چلا رہا ہے جو بیٹ ہلانا تو درکنار ایک گیند تک نہیں کرا سکتا۔سرکاری دفتروں میں جا بجا چچڑوں کی بھرمار ہے۔پھر بھی اس ملک میں بحث یہ ہے کہ آرمی چیف کو توسیع لینی چاہئے یا نہیں۔ضرور یہ بحث ہونی چاہئے مگر یہ بحث بھی تو ہونی چاہئے کہ حکومت اور سیاسی پارٹیوں کو جونکیں سالہا سال سے چمٹی ہوئی ہیں ، ان کو کس طرح رخصت کیا جائے۔افلاطون نے کہا تھا کہ اس کی ریاست میں شاعروں کے لئے کوئی جگہ نہیں ، وہ ہر شاعر کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالے گاا ور انہیں ملک کی سرحدسے باہر دھکیل دے گا، میرا مشورہ یہ ہے کہ توسیع پر توسیع لینے والے سرکاری افسروں کو کرین سے اٹھا کر گھرپھنکوادینا چاہئے۔نوکری کی ایک عمر ہوتی ہے اور کچھ عمر اللہ اللہ کرنے کی ہوتی ہے، ہمارے ہاں اس کا فرق مٹ گیا ہے۔
آرمی چیف کے اعلان سے کچھ لوگوں کی باچھیں کھل اٹھی ہیں۔ کوئی ہے جو انہیںیہ خبر دے سکے کہ ابھی جنرل راحیل اپنے منصب پر موجود ہیں۔اور جو ان کی جگہ آئے گا ، اسے جنرل راحیل کے نقش قدم پر چلنا ہو گا ورنہ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔یہاں صرف وحشی ہوں گے ، درندے ہوں گے اور ڈریکولا ہوں گے۔آئی ایس پی آر نے ایک قومی نغمہ بنایا ہے کہ مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھاناہے، اس کی نقل میں دہشت گردوں نے اپنانغمہ جاری کر دیا ہے جس کا ٹیپ کا مصرع یہ ہے کہ مجھے دشمن کی گردن کو اڑانا ہے، یہ ویڈیوفیس بک پر موجود ہے اور اس میں بار بار قیدیوں کو گولیوں سے بھونا جاتا ہے، کیا ہم اس دور کو دعوت دے رہے ہیں۔یقینی طور پر نہیں تو پھر ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان ہی چلے گا، اور سدا چلے گا، جو دوبئی میں ہیں ، انہیں اب وہیں رہنا ہے اوراس قبیل کے باقی عناصر کو بھی دوبئی فرار ہونا ہے ، یہ نہیں جاتے تو بیس کروڑ عوام کا کوئی مستقبل نہیں۔
جنرل راحیل کے فیصلے کو سراہا گیا ہے، ظاہر ہے یہ فیصلہ اصولوں پر مبنی ہے، اسے سراہے بغیر چارہ نہیں۔ مگر میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں ، آنکھوں سے دیکھے ہیں جو جنرل آصف نواز کی ناگہانی موت پر قہقہے لگا رہے تھے، جنرل راحیل کے فیصلے پر ایسے ہی لوگوں کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں۔ان لوگوں نے کوشش کی تھی کہ ججوں کی تعیناتی ان کے ہاتھوں ہو، ہو سکتا ہے وہ آئندہ جرنیلوں کی ترقی اور تعیناتی کاٹھیکہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں۔کسی محکمے کے سیکرٹری سے لے کر کلرک اور پٹواری تک کی تعیناتی انہی کی صوابدید پر ہے،تھانے دار بھی ان کی مرضی کا ہوتا ہے، ورنہ نہیں ہوتا اور تھانے کو محرر چلا تا ہے ا ور محکمے کو افسر بکار خاص۔
مگر ملک میں ایک نئی تاریخ رقم کی گئی ہے، یہ تاریخ شہیدوں کے لہو سے رقم کی گئی ہے۔یہ ایک تابناک تاریخ ہے۔اس تاریخ پر دنیا کی پوری تاریخ فخر کرے گی۔
جنرل راحیل وکھری ٹائپ کے آرمی چیف تھے، ملک کو ایسے ہی آرمی چیف چاہیءں۔ جو خطرے کے مقابل سینہ تان لیں اور جن کے اشارے پر ہر سپاہی اور افسر جان کی بازی لگانے پر تل جائے۔وہ اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کر دیتے ہیں۔یہی قربانیاں ہماری آزادی اور ہمارے اقتدارا علی کو مستحکم کرتی ہیں۔
پاکستان کو ایک نیا خطرہ درپیش ہے، ہمارا دشمن بے چہرہ ہے، پہلے ہمیں معلوم تھا کہ ہمارا دشمن کون ہے ، اب ا س دشمن نے چہرے پر نقاب اوڑھ لیا ہے۔اب یہ دشمن ہمیں مارتا ہے اور الزام بھی ہمی کو دیتا ہے، کس قدر ستم ظریفی کی بات ہے کہ دہشت گردی کا شکارتو پاکستان ہے مگر امریکہ سے لے کر فرانس تک سبھی ممالک بھارت کو دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے امداد دے رہے ہیں، پاکستان کو ایف سولہ ملنے تھے، ان کی مخالفت امریکی کانگرس بھی کر رہی ہے، بھارت بھی کر رہا ہے ا ور قبلہ حسین حقانی بھی کر رہے ہیں، انہیں کتنے نفلوں کا ثواب پہنچے گا، کبھی ملوں گا تو ان سے یہ سوال ضرور کروں گا۔
جنرل راحیل سے نجات ملنے پر بغلیں بجانے والے ذرا نہیں سوچتے کہ ہم کس قدر تنہائی کا شکار ہیں ، ہمارے وزیر اعظم نے جانے کس جذبے سے سعودی عرب ا ور ایران کے درمیان ثالثی کی پیش کش کی مگر دونوں ملکوں نے معذرت کر دی۔اس بھری دنیا میں ہماری بات پر کون کان دھرتا ہے ، فقط چین اوراسی کی اقتصادی راہداری کو رکوانے کے لئے پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کا لیڈر تابڑ توڑ کوشش کر رہا ہے۔ وزیرا عظم نے ان سب کو رام کرنے کی کوشش تو کی مگر یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے نیشنل ایکشن پلان پر انگوٹھا لگایا مگر اب اس کی مخالفت پر اتر�آئے ہیں۔اس لئے ان لوگوں کا کیا بھروسہ کہ کل کلاں کو اقتصادی راہداری کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جائیں یا یہ دھمکی دیں کی اس راہداری کو بم مار کر اڑا دیں گے یا اسے بلاٹکٹ بحیرہ عرب کی نذر کر دیں گے، کالا باغ ڈیم کے قومی منصوبے کو یہی دھمکیاں ملی تھیں ۔
یہ ہے وہ فضا جس میں جنرل راحیل نے توسیع نہ لینے کا اعلان کیا ہے،اس فضا کو مزید مکدر بنانے کے لئے ہر کوئی اکھاڑے میں کود پڑا ہے۔
مگر جنرل نے اپنی اننگز کھیل لی ہے اور کامیابی سے کھیلی ہے، گو ہم نے ا نہیں داد نہیں دی مگر عالمی برادری نے انہیں دل کھول کر داد دی ہے۔جنرل راحیل نے پاکستان کی نئی پہچان کرائی ہے، یہ پہچان ایک دلیر اور نڈر پاکستان کی ہے، ساری دنیا دہشت گردوں کے سامنے ہانپ رہی ہے ، مگر جنرل سینہ تانے میدان میں کھڑا ہے اور دہشت گردوں کو راہ فرار اختیار کرنا پڑی ہے ۔ان کے قدم اکھڑ چکے ہیں ، ان کی پناہ گاہیں ختم شد، اب وہ بزدلوں کی طرح وار کر رہا ہے مگر دشمن بھی جان لے کہ جنرل ابھی پنے منصب پر موجود ہے۔ وہ دہشت گردوں کو ملیا میٹ کر کے رخصت ہو گا۔
ملازمت میں توسیع گد اگری کے مترادف ہے،نشان حیدر خاندان کا وارث صرف شہادت مانگ سکتا ہے،توسیع کی بھیک نہیں مانگ سکتا تھا۔ٹھیک ہے وہ اپنے عہدے پر نہیں رہے گا مگر تاریخ میں زندہ و تابندہ رہے گا۔