خبرنامہ

جوہرقابل اور اوور سیز پاکستانیوں کی قدر افزائی….انداز جہاں۔۔۔اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

جوہرقابل اور اوور سیز پاکستانیوں کی قدر افزائی

بات پیرس کے سیلف میڈ اور شہرہ �آفاق شخص محمود بھٹی سے شروع ہوئی ہے اور اب اس سے جڑے کئی پہلو آشکارا ہو رہے ہیں۔بھٹی کے خلاف تحقیقات یا کوئی عدالتی فیصلہ مجموعی طور پر اوور سیز پاکستانیوں یا غیر ملکی سرمایہ کاروں کے کردار کی جہت متعین کرے گا۔ہم اوور سیز پاکستانیوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ آئیں ۔ بے دھڑک ہو کر آئیں اور اپنے وطن میں سرمایہ کاری کریں۔ وزیر اعظم نے ہر اوور سیز پاکستانی سے درخواست کی ہے کہ وہ ایک ہزار ڈالر فی کس ڈیم فنڈ کے لئے عطیہ کریں۔ ہم ایسی ا سکیمیں دیتے ہیں کہ بیرونی فرمیں سرمایہ لے کر�آئیں اور جتنا چاہے کما کر لے جائیں۔ یہ خیال ہمیں ہی نہیں سوجھا ، سنگا پور کے لی کوان یو نے اسی کی بنیاد پر اپنے چھوٹے سے ملک کو ایشیا کے ٹائیگر میں تبدیل کر لیا ہے۔ سنگا پور میں بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دی گئی کہ وہ آئیں۔ کاروبار کریں اور بریف کیس بھر کے منافع واپس لے جائیں۔ کوئی انہیں ایئر پورٹ پر نہیں پوچھے گا، کوئی ٹیکس کا محکمہ ان کے لئیے جان لیوا ثابت نہیں ہو گا۔ مگر ہمارے ملک میں جو اوور سیز پاکستانی اپنی خون پسینے کی کما ئی سے کوئی کاروبار کر لیں یا جائیداد خرید لیں تو ان کی شامت آ جاتی ہے۔ ریئل اسٹیٹ والے خوشنما اشتھار دے کر انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور پھر رفو چکر ہو جاتے ہیں ، ایئر پورٹوں پر امیگریشن اور کسٹم والے ان کی کھال ادھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ان کے رشتے دار بھی ان کی جائدادوں پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ اور اب محمود بھٹی کے کیس میں ایک عجب حادثہ ہوا کہ انہیں یہ سننا پڑا کہ وہ چور ہے۔ ڈاکو ہے۔ محمود بھٹی خون کے آنسو رو رہا ہے کہ وہ تو بیرون ملک کماتا ہے اور پاکستان میں آکر سرمایہ کاری کرتا ہے ۔ وہ یہاں سے ایک دھیلا باہر نہیں لے جاتا، عمران خان نے بھی بنی گالہ کیس میں یہی موقف اختیار کیا تھا کہ اس کے خلاف مقدمہ کیوں ، وہ تو باہر سے کما کر پاکستان لایا، کرکٹ اور کرکٹ پر کمنٹری سے جوکمایا ، وہ پاکستان منتقل کیااور قانونی طریقے سے منتقل کیا۔ یہی موقف محمود بھٹی کا ہے کہ وہ باہر سے کماتا ہے اور پاکستان میں لگاتا ہے۔ یہاں سے کما کر باہر نہیں لے جاتا کہ اس کے پاس اللہ کا دیابہت کچھ ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ اس کے ہسپتال میں علاج مہنگا ہے مگر یہ تو علاج کرانے والے کی مرضی کہ وہ کھٹارہ سرکاری ہسپتالوں میں جائے یا اسکے ہسپتال میں جائے۔ ہر کوئی چائے کا کپ کسی ڈھابے والے سے دس روپے میں بھی پی سکتا ہے مگر فائیو اسٹار ہوٹل میں یہی چائے کا کپ تین سو روپے کاملتا ہے۔ا ب دونون جگہ پانی بھی وہی ہے، پتی بھی وہی ہے۔ چینی بھی وہی ہے مگر فرق ہے تو صرف جگہ کا، جو زیادہ خرچ کر سکتا ہے وہ فائیو اسٹار ہوٹل میں جائے گا، آپ اس ہوٹل کو چور اور ڈاکو نہیں کہہ سکتے۔ آپ یہ ضد نہیں کر سکتے کہ وہ چائے کے کپ کے دس روپے ہی لے۔ یہ تو آپ کی چوائس ہے۔
محمود بھٹی دل برداشتہ ہو کرپیرس واپس چلا گیا، وہ کئی اور منصوبے بھی شروع کرنا چاہتا تھا جن میں میوہسپتال میں ایک اسٹیٹ آف دی �آرٹ وارڈ کی تعمیرشامل تھی۔ ایک زمانے میں بھٹی نے یہاں علاج کرایا اورا سی طرح خجل خراب ہوا جیسے دن رات ہزاروں لاکھوں مریض یہاں خجل خراب ہوتے ہیں ،بھٹی چاہتا تھا کہ چلو ایک وارڈ تو اچھا بنوا دے مگر وہ اب راہ فرار اختیار کر چکا ۔ میں اسے کہتا ہوں کہ آپ کے فیصلے درست نہیں ہیں۔ یہ وطن آپ کا ہے۔ دنیا آپ کو آج بھی بھٹی پاکستانی کے نام سے جانتی ہے اور پہچانتی ہے تو پاکستان کا کوئی حق تو ہے جو آپ کو پورا کرنا ہے۔ اب بھٹی کے اپنے فیصلے ہیں کہ وہ مستقبل میں کیا کرتے ہیں، مگر اصل مسئلہ ہر اوور سیز کی عزت ا ور اس کے وقار کا ہے۔ یورپ میں کوئی پاکستانی ایسا نہیں جو یہاں خوش حال ہو ، یہاں سے پیسہ لے کر باہر جا کر انویسٹ کیا ہو۔ سارے بے چارے ان پڑھ مزدور تھے۔ جو یا تو کنٹینروں میں چھپ کر گئے یا غیر قانونی طور پر ترکی، یونان ، روس کے راستے یورپ کی سرحدیں پار کر کے گئے۔ ان میں چند خوش قسمت تھے جو جان بچانے میں کامیاب ہوئے ورنہ راستے کی صعوبتیں، برف پوش پہاڑ اور سرحدی محافظوں کی گولیاں ان کی جان لے لیتی ہیں۔ کنٹینروں میں چھپنے والے تو کرنٹ لگنے سے کوئلہ بن جاتے ہیں۔ گورنر پنجاب چودھری سرور سے پوچھئے کہ انہوں نے برطانیہ میں کس مشقت کی زندگی بسر کی۔ سر پہ انڈوں کی ٹوکریاں اٹھائیں اور گلی گلی پھیرے لگائے۔ کتنے ہی پاکستانی ہیں جن کے پاؤں شدید برف میں برف بن کر رہ گئے، کسی نے اینٹیں ڈھوئیں، کسی نے بلند وبالا عمارتوں کے شیشے کرینوں پر لٹک کر صاف کئے، یہ سب جان لیو ا کام تھے اور پھر اس کمائی سے جو چند ٹکے بچتے تھے ، وہ اپنے پیاروں کو وطن میں بھجوا دیتے۔ پہلے پہل ہمارے لوگ عراق اور لیبیا گئے تو دور دیہات میں فرج اور ٹی وی بھی آئے اور پکی حویلیاں بھی تعمیر ہوئیں۔ اب یقیبی طور پر ہمارے تعلیم یافتہ اور پرفیشنل افراد باہر جاتے ہیں امریکہ میں ڈاکٹروں اور انجینیئروں کی تنظیمیں ہیں جوو طن عزیز کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کر رہی ہیں ، عمران خان نے کینسر کے دو ہسپتال بنائے تو انہی امیر کبیر پاکستانیوں نے فراخدلی سے عطیات دیئے،انہی پاکستانیوں نے اچھے اسکول قائم کئے تاکہ ان کے بچے بہتر تعلیم حاصل کر سکیں ۔ پھر کالج اور یونیورسٹیاں بنیں اور اعلی معیار کے ہسپتال بنے یا بنے بنائے نجی ہسپتالوں کو چندے ملنے لگے۔ ملک کے کسی نجی ہسپتال سے پوچھیں کہ ان کے اخراجات برداشت کرنے والے کون ہیں،۔ جواب ملے گا کہ اوور سیز پاکستانی۔ تو پھر یہ لوگ عزت کے حق دار بھی ہیں۔
اسی طرح اب ایک مسئلہ ملک کے اندر موجود جوہر قابل کا ہے ، ہم نے ان کی بے قدری کی تو وہ باہر بھاگ جائیں گے اور جوہر قابل کا فرا رایک عرصے سے پہلے ہی جاری ہے۔مگر اب بھی ہمارے ہاں ایسے پروفیشنل موجود ہیں جو یہاں چند لاکھ لے رہے ہیں لیکن انہیں باہر کسی بھی ملک میں کروڑوں کی مراعات مل سکتی ہیں ۔ کیا ہمیں شرم نہیں آتی کہ ہم نے باہر سے آنے والے محافظ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کو ٹی وی کیمروں کے سامنے بٹھا کر معافی مانگنے پر مجبور کیا ، ہم گردنیں کاٹنے والے احسان اللہ احسان کو ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہیں،ابھی کل ہی ٹیوٹا کے سربراہ ذوالفقار چیمہ استعفی دینے پر مجبور ہو گئے۔ ان کی پیشہ ورانہ قابلیت پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی، میں انہیں تب سے جانتا ہوں جب وہ ایس پی لاہور سٹی تھے ، پھر انہوں نے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر اعلی مناصب حاصل کئے۔ ان کے اخباری مضامین میں دانش کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔وزیر اعظم عمران خاں نے خود چند روز قبل ان سے ملاقات کی اور ان کے کام پر اطمیان کا اظہار کیا مگر راتوں رات ایسی کیا خطا ہوئی کہ ملک ایک جوہر قابل سے محروم ہو گیا، ہمارے پاس ڈاکٹر عطا الرحمن کی شکل میں ایک ہیرا موجود ہے ، آج ملک میں جتنی بھی علمی اور تکنیکی ترقی ہو چکی ہے، اس کا سہرا ڈاکٹر عطا الرحمن کے سر سجتا ہے۔ سننے میں آ رہا تھا کہ انہیں موجودہ حکومت ایڈوائزر مقرر کرے گی اور ملک ان کی خدمات سے مستفید ہو سکے گا مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا ، کیا پتہ کتنے ا ور ڈاکٹر عطا الرحمن ہمارے ہاں بے قدری کا شکار ہیں۔ نادرا کے چیئر مین عثمان مبین کی قابلیت کا لوہا ایک دنیا مانتی ہے مگر آئے روزان کے خلاف کوئی در فنطنی چھوڑ دی جاتی ہے۔ ادھر لاہور میں پنجاب آئی ٹی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر سیف ہیں جنہوں نے ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا کر دیا، یہ لوگ سیاست دان نہیں ، یہ لوگ کسی سیاست دان کے زرخرید غلام نہیں ، یہ وطن عزیز کے پر خلوص خدمت گار اور انمول ہیرے ہیں جن کی عزت افزائی ہم پہ لازم ہے۔ پروفیشن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ بھگوان داس، کارنیلیس،سیسل چودھری ہمارے لئے قابل فخر ہستیاں ہیں۔
آیئے ایک بار ہی یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے اپنے ا وور سیز بھائیوں کو ملک میں بلانا ہے یا یہاں سے بھگانا ہے اور اپنے جوہر قابل کی عزت افزائی کرنی ہے یا ان کی تذلیل کرنی ہے اور انہیں انتقام کا نشانہ بنانا ہے۔