خبرنامہ

جی ایچ کیو کے لئے وزیر اعظم کا نیا انتخاب،،اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
اسے حسن انتخاب کہا جائے گا۔ وزیراعظم کو آئین کے تحت نئے آرمی چیف کے انتخاب اور تقرر کا حق حاصل ہے۔ جی ایچ کیو کی طرف سے چند سینیئر موسٹ جرنیلوں کی ایک فہرست انہیں ضرور بھجوائی جاتی ہے، آگے وزیر اعظم کی صوابدید پرہے کہ وہ ا س فہرست میں سے کس پر انگلی رکھتے ہیں یا فہرست سے باہر کے کسی جرنیل کے نام قرعہ فال نکالتے ہیں۔ سینیئر تریں سول عہدوں پر تقرری کے لئے بھی وزیر اعظم کو ایسی ہی صوابدید حاصل ہے، اس اصول کی ضرورت اس لئے ہے کہ وزیر اعظم ملک کو چلانے کے ذمے دار ہیں، اس لئے وہ اپنی ٹیم کے انتخاب میں بھی آزاد اور خود مختار ہونے چاہیءں۔ عدلیہ نے البتہ اپنے لئے ایک الگ سے فارمولا وضع کر لیا ہے کہ جو سب سے سینئر ہو گا، وہی چیف جسٹس بنے گا۔
نئے آرمی چیف کے لئے بحث مباحثہ تو ایک سال سے شروع ہے، مختلف ٹیوے لگائے جا رہے تھے، کوئی کہتا تھا کہ جنرل راحیل کو کام جاری رکھنے کا موقع ملنا چاہئے کہ حالت جنگ میں سپاہ سالار نہیں بدلے جاتے ، بحث زیادہ بڑھی تو سال کے آغاز ہی میں جنرل راحیل شریف نے واضح کر دیا کہ وہ اصول کے مطابق وقت مقررہ پر گھر چلے جائیں گے، پھر بھی قیافے ختم ہونے میں نہیں آتے تھے، سوشل میڈیا تو ساری دنیا میں شتر بے مہار ہے، آپ اپنی شناخت چھپا کر جو مرضی اول فول بک سکتے ہیں، مگر ایک تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ کسی گمنام پارٹی کے سربراہ نے راحیل شریف کوتوسیع دینے کے لئے بینرلگانے شروع کر دیئے۔ اس پر بہت باتیں بنائی گئیں اور آخر اس کھلنڈرے کو حوالہ زنداں کر دیا گیا، یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ اس پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے، یہ مقدمے چلانے کا شوق ہمیں بہت ہے مگر آج تک اس الزام میں سزاکسی کو نہیں دے سکے۔
میں فوج کے بارے میں جو بھی شد بد رکھتا ہوں، اس کے پیش نظر یہ کہہ سکتا ہوں کی جنرل قمر باجوہ ایک پروفیشنل سولجر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، ویسے پاک فوج کے کسی لیفٹننٹ جنرل پر اس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے اعتبار سے انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی،،مگر انہی میں سے جنرل کسی ایک نے بننا ہوتا ہے،اور زیادہ سے زیادہ ایک بات کاخیال رکھاجاتا ہے کہ جنرل بننے والے نے کور کی کمان کی ہو۔ اس لحاظ سے جوشارٹ لسٹ وزیر اعظم کو پیش کی گئی، وہ سب ترقی کے اہل تھے۔ آخری مرحلے پر خبر آئی کہ ایک ا ور لیفٹننٹ جنرل کو بھی زیر غور لسٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
وزیر اعظم کے حتمی فیصلے سے دو ہفتے قبل ایک افسوسناک نکتہ اٹھایا گیا ، میں نے ایک ا خبار کے صفحہ اول پرتجزیہ پڑھا جس میں جنرل قمر باجوہ کے عقیدے پر اظہار خیال کیا گیا تھا، اگرچہ تجزیہ نگار نے توازن کے لئے یہ ضرور لکھا کہ بریگیڈیئر سے آگے ترقی کے لئے عقیدے کے بارے میں ایک بیان حلفی دینا پڑتا ہے جو کہ جنرل باجوہ نے بھی معمول کے مطابق دیا۔ اس حلف کے ہوتے ہوئے منیرے خیال میں یہ بحث لایعنی حیثیت رکھتی تھی مگر بعد میں میرے ایک محترم دوست سینیٹر ساجد میر بھی اس نکتے کے ساتیھ میدان میں اتر پڑے۔پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ انہوں نے سوشل میڈیا پر بھی اس نکتے کا پرچار کیا۔سینیڑ ساجد میر ایک منجھے ہوئے سیاستدان اور اعلی پائے کے عالم دین اور ایک مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں، انہیں الزام تراشی سے اجتناب برتنا چاہئے تھا، یہ بات میرے علم میں ہے کہ آئی ا یس پی آر کے سربراہ نے اپنی ذمے داری نبھاتے ہوئے ایک اخبار کے چیف ایڈیٹرسے گلہ کیاکہ آ پ نے سینٹر ساجد میر کی بے بنیاد خبر کیوں شائع کی تو چیف ایڈیٹر کا جواب تھا کہ ایک تو وہ اپنے اخبار میں بیان حلفی کا حوالہ دے کرخبر اور تجزیئے کو متوازن بنا چکے ہیں ، دوسرے سینیڑ ساجد میر حکمران مسلم لیگ ن کی طاقت سے متواتر سینیٹر بنتے چلے آ رہے ہیں، اس لئے حکمران جماعت سے پوچھا جانا چاہئے کہ ان کے ایک حلیف نے ایسا بیان کیوں دیا، بیان فائل کیا جائے گا تو اخبار کے لئے اس کی اشاعت روکنا ممکن نہیں رہتا۔یہ باتیں خود میرے چیف ایڈیٹر دوست نے بتائیں۔اچھاہوا کہ وزیر اعظم نے نہ تو میڈیا کی غوغا آرائی کاا ثر قبول کیا ، نہ اپنے ساتھی سینیٹر کے پروپیگنڈے پر نظر دھری۔انہوں نے صوابدید استعمال کی اور جنرل قمر باجوہ کو آرمی چیف مقرر کر دیا۔
میرے خیال میں سینیٹر ساجد میر کو سینیٹ سے مستعفی ہو جانا چاہئے کیونکہ انہوں نے اپنی بڑی حلیف پارٹی کے سربراہ اوروزیر اعظم کے لئے مشکل کھڑی کی ، دوسرے اگر ان کا لزام درست ہوتا تووہ اسے ثابت کرتے اورو زیر اعظم کو اس بارے قائل کرتے ۔
اس تقرری سے پہلے ایک اوچھی حرکت اور بھی دیکھنے میں آئی کہ سبکدوش ہونیو الے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی کردار کشی شروع ہو گئی اور انہیں ایک ناکام سپاہ سالار ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا، دنیا میں کوئی فرشتہ نہیں ہے لیکن اگر کسی میں کوئی خرابی ہو تو وہ اس کی رخصتی کے وقت عیاں کرنے کے بجائے اس کی سروس کے دوران سامنے لانی چاہئے تاکہ وہ شخص یا تو اپنی ا صلاح کرے یا اعتراضات کا جواب دے سکے، ویسے جنرل راحیل مقبولیت کے اس مقام پر فائز ہیں جہاں ان پر تھوکا اپنے منہ پر گرے گا۔وزیر اعظم نے انہیں رخصت کرتے وقت جن الفاظ سے یاد کیا ہے ، وہ سند کا درجہ رکھتا ہے۔ ایک دنیا جنرل راحیل شریف کی دھاک کی قائل ہے، نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔راحیل شریف کو بھی وزیر اعظم ہی نے آرمی چیف کے طور پر سیلکیٹ کیا تھااور نئے آرمی چیف کا امتخاب بھی انہی نے کیا ہے، میڈیا میں کہیں پڑھا ہے کہ نوازشریف سب سے زیادہ آرمی چیف مقررکرنیو الے وزیر اعظم بن گئے ہیں، یہ وزیر اعظم کا کریڈیٹ ہے جو ان سے مستقبل قریب میں توکوئی نہیں چھین سکتا اور جیسے حالات جا رہے ہیں ، وہ اگلے الیکشن جیت کر سترھویں اور اٹھارویںآرمی چیف کا بھی ا نتخاب کریں گے اور یہ ایک اعزاز ہے جو خدا کی طرف سے انہیں عطا ہوا۔انہوںے کسی سے چھینا نہیں، ووٹ لے کر آتے ہیں، دھرنے یا لاک ڈاؤن سے اقتدار پر شب خون نہیں مارتے۔
جنرل راحیل کا دور کیسا رہا،اور نئے آرمی چیف کے سامنے کونسے چیلنج ہیں۔یہ الگ الگ تجزیئے کے متقاضی ہیں، یار زندہ صحبت باقی، دعا کرنی چاہئے کہ نئے آرمی چیف ملک وقوم کو در پیش خطرات کا ازالہ کرنے میں کامیاب ثابت ہوں ا ور ان کے دور میں سول ملٹری تعلقات بھی مثالی رہیں۔قوم کی نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں اور جانیو الے کے لئے عزت ہی عزت!!