خبرنامہ

حرا کی خوشیاں اور ڈاکٹر آصف جاہ کے دکھ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

حرا کی خوشیاں اور ڈاکٹر آصف جاہ کے دکھ

میں کئی روز سے واویلا کر رہا ہوں کہ خیبر پی کے حکومت نے کے مہاجروں کو اسکولوں سے نکالنا شروع کر دیا ہے۔ حکومت ان دنوں اسلام آباد کے دھرنے میں شریک ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان کے عزائم کے پیش نظر اول تو لوگ بڑی تعداد میں گھروں سے نکلے ہی نہیں اور چند ہزار جو دھرنے میں شریک بھی ہوئے، وہ عمران خان کے ہر آن بدلتے اور بڑھتے ہوئے مطالبات کے پیش نظر واپسی کی راہ لے رہے ہیں، اس کے بعدتحریک انصاف کو اپنی ساکھ بچانے کی فکر لاحق ہے، اس لیئے وہ مہاجرین کو کسی نہ کسی بہانے تنگ کر رہی ہے تا کہ وہ بھی احتجاج کے لیئے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ جائیں اور ٹی وی کیمروں کے سامنے چند لاکھ کا مجمع دکھایا جا سکے۔ عمران خان دوسری طرف پاک فوج سے ضرب عضب کا بھی انتقام لینا چاہتے ہیں۔ عمران کے لیئے تو دہشت گرد بہت لاڈلے تھے، وہ تو امریکہ کو ان پر ڈرون حملوں کی اجازت دینے کے لیئے تیار تھا، نہ پاک فوج کوان کے خلاف آپریشن کرنے دیا جارہا تھا۔ اس نے تو مذاکرات کا ڈرامہ رچا کر دہشت گردوں کو صف بندی کا موقع فراہم کیا۔ یہی آپریشن اگر فروری مارچ میں ہو جاتا تو اب تک مہاجرین اپنے گھروں میں واپس جا آباد ہوتے، سردیوں میں برف پوش چوٹیوں پر دہشت گردوں کے لیئے چھپنا ناممکن نہ تھا، اب تو وہ میرعلی میں قدم جما کرلڑے ہیں تاہم فوج کے سامنے ان کی پھر بھی ایک نہیں چلی اور انہیں ختم کردیا گیا ہے۔
عمران خان کے مذاکراتی داؤ کی وجہ سے شمائلی قبائلیوں کو بے حد نقصان پہنچا ہے اور وہ ایک ماہ سے بے گھر ہیں۔ اگرچہ ان کی زیادہ تعداد نے اپنی رہائش کا از خود بندوبست کر لیا ہے مگر کچھ مہاجرین ایسے بھی ہیں جو سرکاری عمارتوں میں پناہ گزین ہیں، عمران کا کوئی اور بس نہیں چلا تو ان لوگوں کو تنگ کیا جارہا ہے اور انہیں سرکاری عمارتیں خالی کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
وزیری مہاجرین اور ضرب عضب میں مصروف پاک فوج کوقوم کی پشت پناہی کی اشد ضرورت تھی مگر عمران نے حکومت اور قوم کی توجہ ان کے مسائل سے ہٹانے کے لیئے لانگ مارچ کا سوانگ رچایا، سردست مجھے ان مہاجرین کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانی ہے جو پوری قوم کی سلامتی کی خاطر اپنے گھروں سے بے خل ہوئے۔ مگر یہ کیا ستم ہے کہ قوم ان کو بھول گئی، ملک کے سارے ٹی وی چینلز کے کیمرے لانگ مارچ کے تماشے پر مرکوز ہیں، یہاں ضرور کوئی چند ہزار لوگ موجود ہوں گے مگر شمالی وزیرستان کے دس لاکھ لوگوں کو ہم نے بحیثیت قوم نظرانداز کر رکھا ہے۔ ابھی اعجاز الحق اور حیدر عباس رضوی نے قادری سے ملاقات کی اور رونا رویا کہ لوگوں کو پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے، کاش! کوئی قومی لیڈر بنوں بھی جاتا اور دیکھتا کہ ننھی حرا کو کس طرح ایک اسکول کی بلڈنگ سے نکال دیا گیا ہے، ایک طرف اسی قوم کی ایک بچی ملالہ ہے جسے ساری دنیا اس کی بہادری کی وجہ سے سر آنکھوں پر بٹھا رہی ہے اور دوسری طرف حرا ہے، ایک ننھی پری، فرشتوں سے زیادہ معصوم جو عید کے تحائف ملنے پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہی ہے، اس نے عید پرخودبھی چوڑیاں پہنیں اور سہیلیوں کوبھی پہنائیں اور اس کی خوشی کہکشاؤں سے زیادہ روشن اور منورتھی، چودہ اگست کو اس نے پاکستان کا پرچم ہاتھوں میں تھا اور سہیلیوں کے جھرمٹ میں مستانہ دار پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے مگر اسے نہیں پتا تھا کہ اس کی خوشیاں عارضی ہیں اور صوبائی حکومت کے اہلکار اسے اور اس کے خاندان کو اسکول سے باہر دھکیل دیں گے، اب اسے نیا ٹھکانہ چاہئے، اس کی خوشیوں میں کھنڈت پڑ گئی اور وہاں موجود ڈاکٹر آصف جاہ کے چہرے سے ملال جھلکے گا، وہ تو مہاجرین کے علاج معالجے کے لیے وہاں پہنچے تھے، ایک کیمپ پہلے سے کام کر رہا تھا، ایک نیاکیمپ لگایا، وہ اب تک چالیس ہزار مریض مہاجرین کو دوا داروفراہم کر چکے ہیں، ان کے پیچھے چند ایک مخیر حضرات ہیں جو موسم کی خفیوں کے پیش نظر سولر پنکھے فراہم کرنے میں ان کا ہاتھ بٹارہے ہیں، پشاور کا محکمہ کسٹمز ان کی بھر پور معاونت کررہا ہے۔ بنوں کا پہلا مسئلہ گرمی کی شدت ہے۔ اوپر سے میں بائیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ اور مہاجرین جس علاقے سے آئے ہیں، وہاں انہوں نے بھی اسی قیامت کی گرمی دیکھی نہیں جو بنوں میں پڑھتی ہے۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے ایک ہی اپیل کی ہے کہ خدا کے لیئے اس شہر اور مضافات کو لوڈ شیڈنگ سے مستنیٰ کیا جائے اور اب ان کی دوسری اپیل ہے کہ خدا کے لیے عمران خان کی صوبائی حکومت مہاجرین کو اسکولوں اور دیگر سرکاری عمارتوں سے بے دخل نہ کرے، یہ لوگ کہاں جائیں گے، ان کے عارضی قیام کے لیے صوبائی حکومت نے کوئی متبادل انتظام بھی نہیں کیا، اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ یہ مہاجرین جو دس لاکھ کی تعداد میں ہیں، تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی مارچ کریں، اس طرح عمران کے جلوس کے شرکاء کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا لیکن حاضری پوری کرنے کے لیئے مہاجرین کو نشانہ ستم بنانا کہاں سے جائز ہو گیا تو نری شقاوت ہے۔
ڈاکٹر آصف جاہ نے شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی امداد کا سلسلہ ضرب عضب سے بھی پہلے شروع کیا، وہ خود اس علاقے میں بار بار چکر کاٹ رہے ہیں اور اب بھی ایک ہفتے سے زائد ہو چلا ہے، وہیں خدمت خلق میں مصروف ہیں، ان کی سرگرمیوں کی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچتی ہیں یا کبھی کبھار ان کے ایس ایم ایس آجاتے ہیں، میں ان کی نیکیوں میں شامل پوری ٹیم کو سلام پیش کرتا ہوں۔ مجھے تو اب پتا چلا ہے کہ نیکی کیا ہوتی ہے نیکیوں کے جذبات سے سرشارٹیم میں شکیل انجم، شامل ہیں، مرزا زاہد الیاس بھی پیچھے نہیں رہے، خواجہ عدنان ظہیر نے تو ایثار کی نئی مثال قائم کر دی۔ سید محبوب علی نے نوٹوں کا ڈھیر لگا دیا، سجاد شاہ کا جذبہ قابل رشک ہے، فائزہ اقبال اور ان کے شوہر اقبال حسین نے تو دن رات ایک کر دیا اور تحائف کے پیکٹوں کے ٹرک لد گئے، ڈاکٹر ظفر، قاری عبدالرحمن اور توفیق صاحب تو ساتھ ہی چل دیئے۔
میں نے جب بھی ڈاکٹر آصف جاہ کی نیکیوں کا ذکر کیا ہے تو ایاز سکا، کا نام اس میں نمایاں دکھائی دیتا ہے، اس مرتبہ تو انہوں نے شمسی توانائی کے پنکھوں کی فراہمی اپنے ذمے لے لی۔ ایاز سکا کا پورا خاندان قربانی اور ایثارکی لازوال داستان رقم کر رہا ہے۔
شمالی وزیرستان کے دس لاکھ مہاجرین کو ہماری قوم تو بھول ہی بیٹھی تھی مگر ڈاکٹر آصف جاہ کشاں کشاں ان کی خدمت کے لیے جاتے ہیں اور قوم کی طرف سے کفارہ ادا کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر وہ ایک تصویر میں ننھی حرا کو گود میں لیے بیٹھے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے دونوں جہانوں کی خوشیاں انہوں نے سمیٹ لی ہوں۔
کبھی آپ کی نظریں بھی ٹی وی اسکرین سے نہیں تو کم از کم ان دکھوں کو ضرور محسوس کیجئے جن سے دس لاکھ وز یری مہا جر ین دوچار ہیں۔ (21 اگست 2014)