خبرنامہ

حسن اور حکومت سے کون جیت سکتا ہے…اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

وہ شاعر ہے اور قادر اکلام شاعر ہے، کالم نگار ہے اور اس نے صحافتی دنیا میں دھوم مچا رکھی ہے، سفرنامہ لکھتا ہے اور اپنا نام کمایا ہے، کاروبار ہے کہ ما شا اللہ چار بر اعظموںپر پھیلا ہوا ہے۔چین تو ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کو دیوار چین سے بھی عظیم الشان سمجھتا ہے مگر یہ تو صرف تین بر اعظموں کو آپس میں مربوط کرے گا۔

میں اس کی کس خوبی کو بیان کروں اور کس کو نہ کروں۔، وہ کئی زبانوں پر عبور رکھتا ہے اور عبورکامل رکھتا ہے، جاپانی، روسی، فرانسیسی، انگریزی ، اطالوی اور ہسپانوی، وہ ساری دنیا گھوم چکا ہے، مسلسل گھومتا رہتا ہے، تھکتا ہر گز نہیں، دس روز پہلے میری اس کی بات ہوئی تووہ ویسٹ انڈیز میں تھا، پھر اس کا فون آیا تو وہ چلی میں تھا، اگلافون لاہور سے آیا، وہ ایک ہوٹل کی لابی میں کافی پی رہا تھا، میں اس سے ملنے گیا،اور اسے دوستوں کی محفل میںمدعو کیا، اس نے کہا کہ میاں چنوں سے ہو آئوں، ہفتہ کی سہ پہر حاضر ہو جائوں گا کہ شام کو براستہ تھائی لینڈجاپان کی فلائٹ ہے۔ سارے دوست ان کی گونا گوں مصروفیات اور خوبیوں پر حیران تھے۔ خالد سلیم نے پوچھا کہ کونسا ملک زیادہ اچھا لگا، کہنے لگے کہ اپنی سرزمین سے زیادہ پیاری دھرتی اور کوئی نہیں، زیادہ حسین لوگ کہاں پائے جاتے ہیں، جواب ملا، وہ بھی پاکستان میں۔ اللہ نے یہاں کے لوگوں کو بلا کا حسن عطا کیا ہے۔ سب سے محنتی قوم کونسی ہے، پھر وہی جواب کہ پاکستانی قوم۔ وہ پاکستان کی مٹی سے بنا ہے اور یہ مٹی اس میں رچ بس گئی ہے، بولتا ہے تو اس کی باتوں سے وہی سوندھی سوندھی مہک اٹھتی ہے جو بارش کے پہلے قطروں سے پاکستان کی دھرتی سے اٹھتی ہے۔
یہ سوال بڑا عجیب تھا کہ اتنی ڈھیر ساری مصروفیات کے باوجو شاعری اور دیگر تخلیقی کام کے لئے وقت کیسے نکالتے ہیں، جواب ملا کہ تخلیق تو صبح کی شبنم کے قطروں کی طرح ٹپکتی ہے۔ اور پھوار کی طرح برستی ہے۔
اس کی شخصیت مٹھاس میں گندھی ہوئی ہے، رسمسا لب و لہجہ۔شہد سے زیادہ لذیذ۔
آج کوئی بادشاہ ہوتا تو اسے ملک الشعرا کے خطاب سے نوازتا۔ وہ جس قدر عالم فاضل ہے، اس کے پیش نظر میں اسے شمس العلما نہ کہوں تو اور کیا کہوں، اس نے اردو نظم اور نثر میں لکھا، پابلو نرودا اور گیبریلا مسترال کا ترجمہ کیا ، اس ترجمے پر اصل کا گمان ہوتا ہے ۔ان دونوں ادیبوں کو ادب کے دو نوبل انعام ملے، وہ دو نوں شخصیات کو مل چکا ہے اور ان کے لہجے اور ان کی فکر سے متاثر ہے۔
کچھ سنائیں۔ شاعر سے یہی فرمائش کی جاسکتی ہے۔اس نے ایک نظم سنائی جسے بار بار سننے کو جی چاہا اور ہر بار معانی کے نئے جہاں روشن ہو گئے۔
حسن اور حکومت سے کون جیت سکتا ہے
یہ بتائو دونوں کی عمر کتنی ہوتی ہے۔ مجھے یہ شعر رومانوی سے زیادہ سیاسی لگا ۔ میں نے کہا کہ اسے یوں پڑھتے ہیں۔ فوج اور عدا لت سے کون جیت سکتا ہے
پھر مجھے یاد آیا کہ آصف علی زر داری نے کہا تھا کہ تم تو تین سال رہو گے، ہم مستقل رہیں گے ،مگر یہ کہنا اسے الٹا اور مہنگاپڑ گیاا ور جب تک وہ صاحب اپنے منصب پر رہے، زرداری صاحب کو دبئی میں پناہ گزین ہونا پڑا۔
آج کل فوج کا نہیں۔ عدالت کا دور ہے اوراس کے سامنے شریف فیملی کا چراغ نہیں جلتا۔ جلنے کو کوشش کرتا ہے تو راکھ بن جاتا ہے۔
میںنے ان فاسد خیالات کو ذہن سے جھٹکاا ور پھر شعرو سخن کی دنیا میں واپس آ گیا۔
مہمان نے چیدہ چیدہ اشعار سے اپنا دیوانہ بنا لیا۔
دکھ بھی ہیں دنیا کا حصہ، مان لو
زندگی کو مسکرانا چاہئے
کھو گئی آنکھوں سے وہ تصویر کیا
آنسوؤں کا آنا جانا ہو گیا
عدل پرور بجا ہے عدل تیرا
کیوں یہ گلیوں میں کون بہتا ہے
یقین کیجئے یہ آخری شعر کم از کم بیس سال پراناہے۔ اس کی شاعری کے چار مجموعے ہیں ، پہلے دو گورنمنٹ کالج لاہورکے دنوں میںشائع ہو گئے تھے۔
میں جس نوجوان کا ذکر چھیڑ بیٹھا ہوں، وہ ہے عامر بن علی۔ اپنی شاعری کی طرح ہنستا مسکراتا۔ ایک دن لاہور میں رہاا ور سات محفلوں کی رونق بنا، ہر کوئی اس کے لئے دیدہ دل فرش راہ کئے ہوئے تھا۔پریس کلب والے اسے اچک کر لے گئے، اور روٹری کلب بھی اس کے تعاقب میں تھی۔میں الگ اس کا فریفتہ تھا۔ پروفیسر محفوظ قطب تو اس قدر متاثر ہوئے کہ اسے تین تحائف سے نوازا، ایک تو اسم اللہ تھا، دوسرا ٹیکسٹائل کا شہ پارہ کہ ایک رنگین کپڑے پر اسمائے نبوی ﷺ ، تیسرا قرطبہ اور غرناطہ کے محلات کی خطاطی کا ایک نمونہ، عامر بن علی نے بتایا کہ یہی خطاطی انہیں ایک کرد نوجوان نے پیش کی تھی جسے انہوںنے جاپان کے شہر اوسا کا کی جامع مسجد میں آویزاں کر دیا تھا، قطب صاحب کی خطاطی کو وہ ٹوکیو کی جامع مسجد کی زینت بنانا چاہتے ہیں اور اسمائے نبوی ﷺ کو وہ اپنے دفتر میں آویزاں کریں گے، یہ تو دیکھنے کی چیز ہے بلکہ باربار دیکھنے کا شہ پارہ۔ اللہ نے قطب صاحب کو بلا کا تخلیقی ہنر عطا کیا ہے۔
عامر بن علی کی تما م کتابیں ایک اور نوجوان شاعر حسن عباس نے شائع کی ہیں، انتہائی خوبصورت ا ور دلآویز ۔ وہ خود اس محفل میںنہ آ سکے،اس لئے شرکائے محفل عامر بن علی کی کتابوں سے محروم رہے مگر انہوںنے تازہ سفرنامہ جہاں گرد کے نام سے ، سبھی کو اپنے دستخطوں سے پیش کیا۔
اب تک عامر بن علی کی شائع ہونے والی کتابوںمیں ، چلو اقرار کرتے ہیں، سرگوشیاں،محبت چھو گئی دل کو،یاد نہ آئے کوئی ، یہ چار شعری مجموعے ہیں۔ سفرناموں میں آج کا جاپان، مکتوب جاپان،جہاں گردی اور گرد سفر قابل ذکر ہیں۔ گفتگو کے نام سے ان کے انٹرویوز کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔محبت کے دو رنگ، عظیم مصنفین پابلو نرودا اور گیبریل مسترال کے تراجم پر مشتمل ہے۔ یہ براہ راست ہسپانوی سے ترجمہ کی گئی ہیں۔محبت کے موسم ، زیر طبع ہے ا ور ارژنگ کے نام سے ایک ادبی مجلہ لاہور سے ماہوار شائع ہوتا ہے ا ور باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے، یہ اشتہاروں کا محتاج نہیں۔بس عامر بن علی کی محبتیں بانٹتا ہے۔
محفل میں وحید رضا بھٹی نے بتایا کہ وہ بھی ان تمام ملکوں میں گھوم چکے ہیں جہاں جہاں عامر بن علی آتے جاتے رہتے ہیں، سوازی لینڈا ور برازیل کے بارے میں عجب سننے میں آیا، سوازی لینڈ کا بادشاہ ہر ماہ شادی رچاتا ہے اور برازیل کے گھنے جنگلوںمیں آج بھی ایسے لوگ ہیں جنہوںنے کبھی سورج کی روشنی نہیں دیکھی، وہ پتوں سے اپنے جسم کو ڈھانپتے ہیں۔
عامر بن علی کو اللہ نے حسن اور جوانی اور تخلیقی صلا حیتوں سے جی بھر کے نوازا ہے۔ رومانویت ان کے مزاج کا حصہ ہے، ، ان کی نظموں ، غزلوں اور آزاد شاعری پر بھی رومان کی جھلک ہے۔ ایسے لگا کہ مجھے گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے لئے انگریز شاعر جان کیٹس کی محفل سے محظوظ ہونے کا موقع ملا ہے، میں عامر بن علی کو اردو کا جان کیٹس سمجھتا ہوں۔
A thing of beauty is a joy for ever:
عامر بن علی مسرتوں کا خزانہ ہے۔